آصف جیلانی
تمام اندیشے ، حقیقت کے روپ میں صحیح ثابت ہوئے ، ریاض میں امریکا ، عرب اور اسلامی سربراہ کانفرنس کا اصل مقصد ’’مسلم دہشت گردی ‘‘ کے نام پر ایران کے خلاف مسلم ممالک کو متحد کر نا اور ایک مستحکم محاذ قائم کرنا تھا۔ اس کے ثبوت کے لئے خفیہ دستاویزات اور راز دارانہ ذرائع کے حوالے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کانفرنس کے میزبان سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور امریکی صد ر ٹرمپ کے خطاب نے کانفرنس کا اصل مقصد بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ کیسی عجیب وہ غریب اور نا قابل فہم تجویز تھی کہ اُس امریکا کے صدر کو ریاض بلا کر اس کے حضور پچاس مسلم ممالک کے سربراہوں کو پیش کیا جائے ، جس نے گذشتہ سترہ سال میں ، افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن میں مسلمانوں کا خون بہایا ہے ، اور خاص طور پر ٹرمپ کو دعوت دی جائے جن کا صدارت سنبھالنے سے پہلے کہنا تھا کہ اسلام ہم ( امریکا) سے نفرت کرتا ہے۔ اور سعودی عرب کا 9/11کے حملے میں بڑا گہرا ہاتھ تھا ۔ پھر صدارت سنبھالنے کے فورا بعد سات مسلم ممالک پر ویزا کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ،جو عدالت کی وجہ سے رو بعمل نہیں آسکا۔ اور مسند صدارت سنبھالنے کے بعد پہلا حملہ یمن کے مسلمانوں پر کیا۔ اور پھر شام پر 49مزایل برسا کر 48 شامیوں کو ہلاک کردیا۔
اگر سعودی عرب کا مقصد ٹرمپ کو سعودی عرب کا اعلی ترین اعزاز ملک عبدالعزیز کالر پیش کر کے اور 350ارب ڈالر کی مالیت کا اسلحہ خرید کر ، امریکا کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی کا نیا باب شروع کرنا تھاتو پچاس مسلم سربراہوں کو بلا کر ٹرمپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد سمجھ سے بالا تر ہے۔ لیکن اس کانفرنس کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔ جو ٹرمپ کے دورے کے پہلے ہی دن واضح ہوگیا تھا جب سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ٹرمپ نے 350ارب ڈالر کے اسلحہ کے سودے کے ساتھ امریکا سے دفاعی تعاون کے سمجھوتے پر بھی دستخط کئے۔
ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے فورا بعد امریکا کے وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ امریکی اسلحہ کے سودے کا مقصد ، ایران کی ’’جارحیت ‘‘ کا سد باب کرنا ہے ۔ اسی موقع پر سعودی وزیر خارجہ الجوبیر نے کہا کہ ٹرمپ اور شاہ سلمان کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں تاکہ ایران اس علاقہ میں اپنی جارحانہ پالیسیاں جاری نہ رکھ سکے۔
سعودی عرب جانے سے پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کا مقصد مسلم سربراہوں کو لکچر دینا نہیں ہے لیکن ، سربراہ کانفرنس میں ان کا خطاب لکچر سے بھر پور تھا۔ انہوں نے جب مسلم سربراہوں سے کہا کہ وہ مقامات مقدسہ سے دہشت گردوں کو نکال باہر پھینکیں تو خطاب سننے والے حیرت میں رہ گئے کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مقامات مقدسہ مسلم دہشت گردوں کی کمین گاہ ہیں؟ توقع یہ تھی کہ ٹرمپ داعش کا قلع قمع کرنے کے بارے میں کوئی جامع پروگرام پیش کریں گے لیکن ان کا سارا زور ایران پر تھا جس پر انہوں نے الزام لگایا کہ وہ لبنان سے عراق اور یمن تک دہشت گردوں کی مالی اعانت کررہا ہے اور انہیں تربیت دے رہا ہے، جنہوں نے اس پورے علاقہ میں تباہی اور انتشار پھیلادیا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے ایران نے فرقہ وارانہ تنازعہ اور دہشت گردی کو ایندھن فراہم کیا ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایرانی حکومت کھلم کھلا قتل عام کی بات کرتی ہے، اسرائیل کی تباہی کے پیمان کا اعلان کرتی ہے اورمرگ بر امریکا کا نعرہ لگاتی ہے۔ ٹرمپ نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ شام میں بشار الاسد کے زیر قیادت ، نا قابل بیان جرائم کی حمایت اور مدد کر رہا ہے ۔لیکن شام کے سلسلہ میں انہوں نے روس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ٹرمپ نے صاف صاف کہا کہ جب تک ایرانی حکومت امن کے عمل میں شامل نہیں ہوتی اس وقت تک تمامم باضمیر اقوام کا فرض ہے کہ ایران سے تعلقات منقطع کر کے اسے یکا و تنہا کردیں اور دھشت گردی کیلئے اس کے مالی وسایل مسدود کردیں۔
ٹرمپ نے دہشت گردی کے ضمن میں خاص طور پر 9/11اور ہندوستان کاذکر کیا لیکن پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا جو دہشت گردی کے سنگین مسئلہ کا سامنا کر رہا ہے۔ پچاس مسلم ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ ، پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی ٹرمپ کے سامنے بیٹھے تھے لیکن نہ جانے کیوں ٹرمپ دہشت گردی کا سامنا کرنے والے ملکوں میں پاکستان کا نام لینا بھول گئے جب کہ سعودی عر ب نے جو اسلامی فوجی اتحاد قائم کیا ہے اس کے سربراہ ، پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف ہیں۔
سعودی شاہ سلمان نے بھی ایرانی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس علاقہ میں عدم استحکام کی ذمہ دار ہے۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ خمینی انقلاب کے بعد سے ایرانی حکومت دہشت گردی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اس کا علم نہیں تھا کہ ریاض کی سربراہ کانفرنس کا اصل مقصد ایران کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے ۔ اگراس کا علم نہیں تھا تو پاکستان کی وزارت خارجہ اور اس کے سفارتی ذرائع اس کی جانکاری سے کیوں غافل رہی۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں کو کانفرنس کے مقصد کا علم تھا تو کیا اس کا احساس نہیں تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت سے پاکستان کے لئے کیا مضمرات ہوں گے۔
کیا صرف یہ بات پیش نظر تھی کہ چونکہ میاں نواز شریف ، سعودی عرب کے مرہون منت ہیں اس لئے اس کانفرنس میں ان کا شرکت کرنا لازمی تھا چاہے پاکستان کے مفادات پر اس سے ٹھیس کیوں نہ پہنچے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوچا گیا کہ پاکستان کے دوست اور قریب ترین ہمسایہ ایران کے ساتھ تعلقات پر اساقدام کا کیا اثر پڑے گا جس کے ساتھ آج کل تعلقات میں کشیدگی کے آثار ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ بالکل بھول چکے ہیں کہ سن پچاس کے اوائل میں امریکا کے دباؤ کے تحت ہمارے حکمرانوں نے ملک کو امریکی فوجی معاہدوں میں دھکیل کر ملک کے مفادات کو کس بری طرح سے نقصان پہنچایا۔ ساری دنیا میں ہم امریکا کا حاشیہ بردار مشہور ہو گئے اور جب 1965میں ہندوستان کے ساتھ جنگ میں پاکستان کی بقا کا سنگین مسئلہ تھا ، نہ صرف امریکا اس کے اتحادیوں نے ان فوجی معاہدوں کے تحت پاکستان کی مدد کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ یہ فوجی معاہدے تو سوویت یونین کے خلاف ہیں ۔ یہی نہیں امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی پر پابندی لگا دی یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کا سارا دارومدار امریکی اور برطانوی اسلحہ پر ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پھر ایک بار اسلام کے نام پر فوجی اتحاد میں دھکیلا جارہا ہے جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔یہ سوچتے ہی دل کانپ جاتا ہے کہ پاکستان اس صورت میں کیا کرے گا اگر خدا نخواستہ ایسی صورت پیدا ہوتی ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد کی طرف سے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی جاتی ہے اور پاکستان کو اس کاروائی میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
♥
3 Comments