نریندر مودی کے گرو جی سے ملاقات

آصف جیلانی 

یہ بات مئی 1964کی ہے۔ میں اور دلی میں پاکستان ٹایمز کے نمائندے اسلم شیخ ،کانگریس کی مرکزی فیصلہ سازکمیٹی، کا اجلاس کور کرنے بمبئی گئے تھے۔ یہ اجلاس کئی لحاظ سے اہم تھا ۔اول ، اجلاس سے صرف چند ہفتہ قبل ،پنڈت نہرو نے ،شیخ عبداللہ کو گیارہ سال کی قید کے بعد رہا کیا تھا جس پر کانگریس میں نہرو کے خلاف بغاوت بھڑک رہی تھی ،پھر چین کے ساتھ جنگ میں خفت آمیز شکست کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔ نہرو شکست خوردہ ، اوراپنی مقبولیت کی آخری سطح پر تھے جہاں سے بغاوت کے سائے گہرے ہوتے نظر آتے تھے۔ پھر یہ اجلاس نہرو کی زندگی کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔ 

اس اجلاس کے دوران ، ہمارے ایک صحافی دوست ،امریکی اخبار بالٹی مور سن کے بیورو چیف ، پران سبھروال ہماری طرف لپکے اور پوچھا کہ آپ راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کے گرو گول والکر سے ملنا چاہیں گے؟ ہم سمجھے پران ہم سے مذاق کر رہے ہیں ۔ لیکن پران سبھروال نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ نہیں مذاق بالکل نہیں ہے ، گرو گول والکر علاج کے لئے بمبئی آئے ہوئے ہیں ۔آپ ان سے مل کراور وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔میں ملاقات کا اہتمام کر دیتا ہوں۔ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ 

دوسرے روز ہم لویر پیریل کے علاقہ میں ایک تین منزلہ عمارت میں داخل ہورہے تھے ۔ دروازہ پر خاکی نیکر پہنے آر ایس ایس کے دو کارکن ، محافظوں کی طرح کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ دوسری منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہم داخل ہوئے ، سامنے ایک تخت پر گاوء تکیہ سے ٹیک لگائے گرو گول والکر نیم دراز بیٹھے تھے ۔ شانوں تک دراز کالے بال ، سینہ کو چھوتی ہوئی لمبی چھدری سفید داڑھی ، باریک گول فریم والی عینک پتلی سے ناک پر جمی ہوئی تھی ، ایک نظر دیکھنے میں زار روس کے دربار والے جادو گر راس پوتین لگ رہے تھے۔ 

ہمارے کمرے میں داخل ہوتے ہی گرو گول والکر نے سنبھل کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن شاید نقاہت کی وجہ سے وہ سنبھل نہ سکے ۔ فورا دو کارکنوں نے انہیں بیٹھنے میں مدد دی۔ یہ دو کارکن ان کے محافظوں کی طرح کھڑے تھے۔

انہیں پہلے سے اطلاع تھی کہ ہم پاکستانی صحافی ان سے ملنے آئے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ ہم بمبئی کس سلسلہ میں آئے ہیں۔ہم نے کہا کہ اے آئی سی سی کا اجلاس کور کر نے کے لئے۔ اس پر وہ زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا وہ کانگریس کا جو ڈرامہ ہو رہا ہے۔ 

ہم نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ بھی اس شہر میں ہیں اور آر ایس ایس کے بانی سے نیاز حاصل ہورہا ہے۔ باریک انگلیوں والے اپنے لمبے لمبے ہاتھ لہرا کر انہوں نے فورا ٹوکا ۔ نہیں نہیں میں آر ایس ایس کا بانی نہیں ہوں ، بانی تو ڈاکٹر جی ہیگواڑ تھے۔ جب آر ایس ایس قایم ہوئی تھی تو اس وقت میں ہندویونیورسٹی بنارس میں پڑھاتا تھا۔ ڈاکٹر جی مجھے آر ایس ایس میں لائے تھے اور سن چالیس میں اپنے دیہانت ( انتقال) سے پہلے مجھے تنظیم کا’’سرکاروایا‘‘ جنرل سیکرٹری مقرر کیا تھاپھر ان کے دیہانت کے بعدمجھے سرچالک (سربراہ) بنایا گیا۔ 

ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے ذہن میں ابھرتا رہا ہے وہ میں گرو گول والکر سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ بتایئے کہ مسلمانوں اور عیسایؤں سے دشمنی کی حد تک مخالفت کیوں؟ کہنے لگے میں کمیونسٹوں کا بھی سخت مخالف ہوں کیونکہ وہ بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح اس لحاظ سے غیر ملکی ہیں یہ غیر ملکی نظریہ سے منسلک ہیں۔ میں انہیں ملک کا داخلی دشمن تصور کرتا ہوں۔ 

مگر ہیں تو یہ اس دیش کے رہنے والے، یہیں پیدا ہوئے ہیں ان کے آباو اجداد اس دھرتی کے باسی تھے اوریہ سب اپنے آپ کو ہندوستانی کہلاتے ہیں، میں نے کہا۔ گرو گول والکر کہنے لگے ’’ میرا سیدھا سادا کہنا ہے کہ جو لوگ ہندو مت میں نہیں ہیں وہ بے حد بد قسمت ہیں اور ان کا اس دیش سے کوئی سمبندھ نہیں اور انہیں یہاں رہنے کو کوئی ادھیکار نہیں۔مسلمان اور عیسائی باہر سے اس ملک میں آئے ، انہیں ہندوستانی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق ہے۔ 

میں نے یہ دلیل پیش کرنے کی ہمت کی کہ باہر سے جو لوگ ہندوستان آئے مثلا مغل انہوں نے اس ملک کو اپنا وطن تصور کیا اور اس ملک کو بہت کچھ دیا۔خوب صورت اور شاندار عمارتیں ، موسیقی اور تابناک تہذیب اس کا ثبوت ہے۔ کہنے لگے ، مسلمانوں سے پہلے ، چندر گپت موریہ اور اشوکا کے دور میں بھی ہندوستان اپنی ترقی اور تہذیب کے میدان میں عروج پر تھااور ایک لاجواب اتحاد اور یک جہتی تھی اور زندگی چین ، امن اور آشتی کی تھی۔ مسلمانوں کے آنے کی وجہ سے مذہب کے ٹکراو نے پورے ملک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ 

اسلم شیخ نے کہا کہ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ مسلمانوں کے تو اس بناء پر خلاف ہیں کہ وہ باہر سے آئے ہیں لیکن انگریز بھی تو باہر سے آئے تھے ، آپ نے اور آر ایس ایس نے ان غیر ملکی انگریز حکمرانوں کے خلاف کسی تحریک میں حصہ نہیں لیا ؟ قومی آزادی کی تحریک سے آپ بالکل الگ رہے ، وہ کیوں؟ کہنے لگے کہ اس زمانہ میں ہماری تمام کوشش ہندو دھرم کے تحفظ کی تھی ہم نہیں چاہتے تھے کہ انگریز حکمران ہم پر پابندی لگا دیں اور ہمارے دھرم پر کوئی آنچ آئے۔ ہماری آزادی کی جدو جہد اپنے ہندو دھرم اور اپنی ثقافت کے دفاع کے لیے تھی ۔ ہماری پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسری جنگ اور آزادی کے بعد مسلمانوں اور اپنے مخالفوں سے لڑنے کے لئے اپنی طاقت کو مضبوط بنائیں اور اسے محفوظ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین تھا کہ جنگ کے بعد ہندوستان میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوگی، اور آپ نے دیکھ لیا کہ آزادی کے بعد پورے ملک میں ہندو مسلم فسادات کی کیسی آگ لگی تھی۔

میں نے گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے کے بارے میں سوال، ذہن میں رکھتے ہوئے گرو گول والکر سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ گاندھی جی کے قتل سے چند ہفتے قبل دسمبر 1947میں آپ نے دلی کے قریب گووردھن کے قصبہ میں آر ایس ایس کے کارکنوں کے اجتماع میں اس معاملہ پر گفتگو کی تھی کہ کانگریس کے ممتاز شخصیتوں کو کس طرح قتل کیا جائے تاکہ عوام میں دھشت پھیلائی جائے اور ان کے ذہنوں پر تسلط جمایا جاسکے۔گرو گول والکر نے اس سے صاف انکار کیا لیکن اس کا اعتراف کیا کہ ان ہی دنوں روھتک میں ایک اجتماع میں انہوں نے کہا تھا کہ آر ایس ایس اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک پاکستان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور جو اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا ہم اسے بھی ختم کردیں گے ، چاہے نہرو کی حکومت ہو یا کوئی اور حکومت۔

اسلم شیخ نے بڑے دھیمے سے کہا کہ اس میں اب تک تو آپ کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ گرو گول والکر نے یہ ظاہر کیا کہ جیسے انہوں نے یہ بات نہیں سنی، بلکہ وہ کہنے لگے کہ دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے نہیں دے سکتی ، مسلمانوں کو اس دھرتی سے نکلنا ہوگا۔ 

میں نے کہا کہ روھتک کے جلسے کے چھ ہفتے بعد گاندھی جی کا قتل ہوگیا ۔ کیا یہ محض اتفاق تھا۔ اس پر گرو گول والکر نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دئے۔ کہنے لگے کہ مجھے گاندھی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال کے بعد مجھے رہا کرنا پڑا۔ 

اسلم شیخ نے پوچھا کیا یہ صحیح ہے کہ سردار پٹیل نے آپ کو اکتوبر 1947کو کشمیر بھیجا تھا تاکہ آپ مہاراجہ ہری سنگھ سے مل کر اسے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے اعلان پر آمادہ کریں۔ گرو گول والکر نے اعتراف کیا یہ صحیح ہے لیکن کہا کہ مہاراجہ نے اس تجویز سے اتفاق تو کیا لیکن فوری طور پر الحاق کا اعلان نہیں کیا۔ کہنے لگے مہاراجہ بہت ڈرپوک شخص تھا، شاید وہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت سے خوف زدہ تھا۔ 
میں نے پوچھا کہ آپ مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے سخت خلاف ہیں ، دوسری مذہبی اقلیتوں، سکھوں ، پارسیوں اور یہودیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ سکھ تو اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہندو دھرم کا مسلح بازو ہیں ۔ پارسی اور یہودی ہمارے مہمان ہیں ۔ 

اسلم شیخ نے پوچھا کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس بے حد خفیہ اور فوجی تنظیم ہے۔ گرو گول والکر نے کہا یہ بات صحیح نہیں ۔ البتہ تنظیم میں اتنا سخت ڈسپلن ہے کہ اس کی وجہ سے لوگ اسے خفیہ فوجی تنظیم سمجھتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اتنے سخت ڈسپلن کا کیا راز ہے اور آپ نے جب سر چالک کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت آر ایس ایس کے ممبر ایک لاکھ سے بھی کم تھے لیکن اب کہا جاتا ہے یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ کیا راز ہے اس کامیابی کا؟ گرو گول والکر نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کیا آپ پاکستان میں آر ایس ایس قایم کرنا چاہتے ہیں۔قہقہہ کے بعد بھی دیر تک ان کا دبلا پتلا جسم سخت جنبش میں تھا ،ایسے جیسے زلزلہ کے بعد کے جھٹکے۔ 

میں نے یہ جھٹکے روکنے کے لئے کہا کہ لوگ آپ پر نسل پرستی کا الزام لگاتے ہیں ، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ جرمنی سے یہودیوں کی تطہیر اور ان کے مکمل اخراج کے بارے میں ہٹلر کی پالیسی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ہٹلر سے سبق لینا چاہیئے کہ کس طرح مختلف نسلوں اور ثقافتوں کے اختلاف اور تضاد کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ کہنے لگے کہ اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے اس دھرتی پر قدم رکھاتھا اب تک ہندوستان اس ملک کو تباہ کرنے والوں سے لڑر ہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ سیکولر ہندوستان کے خلاف ہیں۔ گرو گول والکر نے کہا جی ہاں میں سیکولر مملکت کا سخت مخالف ہوں۔ ہندوستان کے غیر ہندووں کو ہندو دھرم ، ہندو سنسکرتی ، زبان اختیار کرلینا چاہیئے اور اس کے علاوہ سب کچھ ترک کردینا چاہئے ۔ 

مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں گرو گول والکر کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ نسل پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔وقت بھی بہت ہو گیا تھا۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ ان سے اجازت لی جائے۔ 

اب جب بھی میں اس ملاقات کے بارے میں سوچتا ہوں توایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنے گرو جی کے ہندو نسل پرست خیالات اور نظریات کے عین مطابق ہندوستان کو ڈھال رہے ہیں جس میں غیر ہندووں کا زندگی گذارنا محال ہو جائے گا۔ 

Comments are closed.