محمود خان اچکزئی اور سچ کی نجی ملکیت

بیرسٹر حمید باشانی

سچ مقدم ہے ؟ یا حب وطن۔ مغرب میں یہ بحث اب ختم ہو گئی ہے۔ اہل علم و دانش یہاں ایک عرصہ تک اس بحث میں مصروف رہے۔ بلآخر ان کی اکثریت اس بات پر اتفاق کرنے پر راضی ہو گئی کہ مقدم بہرحال سچ ہی ہوتا ہے۔ حب وطن یا وطن سے وفاداری کے تقاضے صرف سچ بول کر، سچ جان کر اور سچائی کے راستے پر چل کر ہی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا کوئی شہری، کسی بھی حیثیت میں جھوٹ، فریب یا مکاری کے ذریعے اپنے دیس کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا نہ اس سے سچی محبت کر سکتا ہے۔

اگر کئی سچائی اور ملکی مفادات میں تضاد ہے تو اس کا مطلب ہے دونوں میں سے کسی ایک میں کوئی خرابی ہے۔ یعنی جس کو ہم سچ سمجھتے ہیں وہ در حقیقت سچ نہیں ہے۔ یا پھر جس چیز کو ہم ملکی مفاد سمجھتے ہیں وہ در حقیقت مفاد نہیں ہے۔ یعنی ملکی مفاد وہی ہے جو سچ ہے۔ یا جو سچ ہے اسی میں ملکی مفاد ہے۔ مغرب میں یہ اب امر فیصل ہے۔

ہمارے ہاں ابھی تک اس بحث کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اگر کوئی قابل ذکر آدمی، کسی اہم مسئلے پر سچ بول دے تو ہر طرف ہل چل مچ جاتی ہے۔ محمود اچکزئی کا کشمیر پر حالیہ اظہار خیال اس کی ایک شہکار مثال ہے۔ اچکزئی کی رائے پر شدید رد عمل دینے والوں میں آگے آگے وہ لوگ ہیں جن کی سچائی پر اجارہ داری ہے۔ یہ قوتیں سچائی کو اپنی نجی ملکیت سمجھتی ہیں۔ ان کے خیال میں ملک کے تمام سیاسی، سماجی،معاشی اور سفارتی مسائل پر ان کی جو رائے ہے وہی سچ ہے۔ اور جو کوئی اس رائے سے مختلف رائے رکھتا ہے وہ یا تو غدار ہے ، غیر ملکی ایجنٹ ہے یا پھر اس نے کسی سے پیسے پکڑے ہوئے ہیں۔یعنی سچ صرف وہ ہے جو سرکاری ہے یا پھر اسٹبلشمنٹرین ہے۔

اس رد عمل میں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کسی بھی مسئلے پر موجود روائتی اور لگی بندھی پالیسیوں کو ہی سچائی مانتے ہیں۔ بے شک یہ پالیسیاں کتنی فرسودہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانی دماغ میں نیوران کی صرف ایک خاص تعداد کو حرکت دینے کے حق میں ہیں۔ اور اگر کوئی شخص اس مقررہ حد سے زیادہ نیوران ٹکرائے، یعنی سوچنا شروع کر دے تو اس میں ان لوگوں کو غداری کے جر ثومے نظر آنے لگتے ہیں۔ 

محمود خان اچکزئی نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ انہوں نے وہ بات دہرائی جو قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی قیادت میں مسلم لیگ کی پالیسی تھی۔بر صغیر کی تقسیم کے وقت دیگر چیزوں کے علاوہ یہاں کی پانچ سو باسٹھ ریاستوں کے مستقبل کے سوال پر کانگرس اور مسلم لیگ کی رائے میں گہرا اختلاف تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو ایک مضبوط وفاق کے حق میں تھے جس میں ہندوستان کی ریاستیں مکمل طور پر ضم ہو جائیں۔

قائد اعظم کی رائے اس معاملے میں کافی لبرل تھی۔ وہ ریاستوں کی مکمل خود مختاری کے کے خلاف بھی نہیں تھے۔ ا ور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کچھ ریاستیں پاکستان کے ساتھ شامل بھی ہو جائیں تو ان کے اندرونی معاملات کو نہیں چھیڑاجائے گا۔ ریاست جموں کشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ معائدہ قائمہ یا سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ قائد اعظم کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ ریاست قلات کے ساتھ گفت و شنید اور خط و کتابت میں قائد اعظم نے اس پالیسی کا بر ملااظہار کیا۔ ریاست سوات بھی اسی کا تسلسل تھی۔ یہ ریاست انیس سو1969میں پوری طرح پاکستان میں ضم کی گئی۔

قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری جناب کے ۔ایچ خورشید پوری زندگی قائداعظم کی کشمیر پالیسی اور ریاستوں کے بارے میں ان کی پالیسی کی وضاحت کرتے رہے۔ کے ایچ خورشید جموں کشمیر لبریشن لیگ کے بانی قائد تھے۔اس جماعت کا بنیادی مطالبہ ہی یہ تھا کہ پاکستان آزاد کشمیر کو ایک آزاد ر ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔ کے ایچ خور شید آزاد کشمیر کے صدر اور قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ یہاں کا آئین بنانے میں انہوں نے کلیدی کرادر ادا کیا۔مگر آزاد کشمیر کو آزاد ریاست تسلیم کرو کا مطالبہ ہی ان کی اصل پہچان تھی۔ و ہ تا دم مرگ یہ مطالبہ دہراتے رہے۔ 

قائد اعظم نے جب یہ کہا تھا کہ پاکستان میں نے ، میرے پرائیویٹ سیکریٹری اور اس کے ٹائپ رائٹرنے بنایا تھا تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سیکرٹری سے مراد کے۔ ایچ خورشید ہی تھے۔ مگر آزادی اور تسلیم کرنے کی بات پر اسٹبلشمینٹرین ان سے بھی ناراض ہو گئے اور ان کو گرفتار کیا گیا۔ 

محمود خان اچکزئی نے جو بات کی ہے اس میں گہری دانش ہے۔ یہ بات پاکستان کو اس دلدل سے نکال سکتی ہے جس میں جنگ باز قوتوں نے اسے پھنسا رکھا ہے۔ یہ راستہ امن کی طرف جاتا ہے جو پاکستانی عوام کی بنیادی اور بڑی ضرورت ہے۔ہمیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں محمود اچکزئی جیسی مزید ہوشمند آوازوں کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.