محمد کاظم کی سوانح عمری

ڈاکٹر پرویز پروازی

مشفق خواجہ مرحوم کو خودنوشت سوانح عمریوں سے یک گونہ شغف تھا اور وہ ان کے حصول کی جستجو کرتے رہتے تھے۔ لکھنو اور اودھ کے تعلق میں لکھی جانے والی سوانح عمریوں میں محمد کاظم کی سوانح کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ فارسی میں لکھی گئی مگر اب اردو میں منتقل ہوچکی ہے۔ فارسی سے اردو میں ترجمہ کس نے کیا ہے اس کا علم نہیں ہوسکا ۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ’’تاریخ لکھنو کے سوانحی مآخد‘‘ والے مضمون میں لکھا ہے کہ مشفق خواجہ کے انتقال کے بعد ان کے کاغذات سے اردو ترجمہ کا مسودہ دستیاب ہو امگر اس پر ترجمہ کرنے والے کا نام نہیں۔ بہر حال 1888ء میں لکھی گئی اس سوانح عمری کا جائزہ پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ سوانح عمری لکھنؤ کی تاریخ کا ایک چشم دید اہم ماخذ ہے۔ یہ سوانح عمری پہلی بار1891ء میں لکھنؤ کے مکتبہ گنگا پرشادوور مابرادران سے فاسی میں شائع ہوئی۔

محمد کاظم اس سونح عمری کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کی بے حد تعریف اور شکریہ کہ ان مبارک ایام میں خالق زمان وزمین کی مدد سے یہ رسالہ موسوم بہ’’ سوانح عمری‘‘ مرتب ہوا۔ جس میں مولف نے اپنے آباؤ اجد اداور ان کے بعض حالات جناب مجہتد العصر (غفران مآب سیددلدار علی) کے خاندان کا تذکرہ اور اپنی زندگی کے حالات واقعات بیان کئے ہیں نیز اپنے عہد کے ارباب کمال جیسے علمائے کامل، حکمائے حاذق اورقادر الکلام شعرا اور ان شاہان ملک اودھ کا مجملاََذکر ہے جو غازی الدین حیدر سے لے کر واجد علی شاہ تک حکمرانی اور فرماں روائی کے مرتبہ تک پہنچے۔ اور وہ حالات تحریر کئے ہیں جوواجدعلی شاہ کے زوال سلطنت کے بعدزمانہء غدر میں واقع ہوئے جب باغی فوج نے اپنے انگریز افسروں کے خلاف قتل و غارت کا آغاز کیا۔ بعدازں انگریزی فوج سے نبردآزما ہوکر غلبہ پایا رؤسائے’’بھٹوا‘‘ اور گورا فوج میں لڑائی اور باغی سرداروں کا انجام یہ تمام حالات نہایت اجمال واختصار کے ساتھ قلم بند کئے گئے ہیں‘‘(سوانح عمری صفحہ2)۔

گویا یہ سوانح عمری نہ صرف ان کے خاندان کی تاریخ ہے بلکہ سلطنت اودھ کے عروج وزوال کے زمانہ کی مستند معلومات سے مملو ہے۔ ابتدا میں اپنے اسلاف میں مُلامحمد عابد کے حالات اور سیرت کا بیان ہے۔ ان کی دیانت اور تقویٰ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ آپ جہان آباد میں تھے کہ ’’ایک عورت ایک پیتل کا لوٹا بیچنے کولائی۔ آپ نے لوٹا پیتل کے بھاؤ خرید لیا بعد کو پتہ چلا کہ وہ لوٹا پیتل کا نہیں سونے کاہے۔ لوگ دوڑائے گئے کہ اس بڑھیا کو ڈھونڈیں وہ لائی گئی اور اس لوٹا واپس کردیا گیا کہ پیتل کی قیمت پر خریدا گیا تھا مگر سونے کا ہے اس لئے اپنا لوٹا واپس لے جاؤ اور جس کا ہے اسے دے دو‘‘(صفحہ7)۔ یہ دستور تو غربت کا شکار ہونے والے معززین کا تھا ہی کہ ضرورت کے وقت بزرگوں کی نشانیاں یا گھر کی چیزیں بیچ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرلیتے تھے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔ 

سلطنت اودھ کے بارے میں جو تاریخی معلومات دستیاب ہیں وہ بہت کم ہیں۔اس کی ایک وجہ لکھنؤ والوں کااسلوب تحریر ہے جو اپنی نظیر آپ تھا۔ مقفیٰ مسجع عبارت اور عریض وطویل لفظ آرائی اس کا طرہء امتیاز تھا۔ ذراسی بات کو بھی بنا سجا کر محمد حسین آزاد کے لفظوں میں ’’لفظوں کے طوطے مینا بناتے تھے‘‘ مگر یہی اس زمانے کا دستور تھا اس کتاب میں بھی وہی لکھنوی عبارت آرائی موجود ہے۔ غازی الدین حیدر کی تخت نشینی سے قبل نوابان اودھ نواب کہلاتے تھے۔ اب بادشاہ کہلانے کے سزاوار ہوئے، جشن تخت نشینی پر عبارت آرائی دیکھئے ’’مقررہ روزتمام امراء عظام،اراکین ذوی الاحتشام،اورصاحبان ذی شان نے جمع ہوکر دردولت واقبال کو بساطِ عشرت وابہتاج بنایا اور اسباب طرب وشادمانی اور سامان بہجت وکامرانی مہیا کئے ۔ نقارے کی آواز گنبد زمردیں سپہر میں گونج اٹھی اور آوازہء خوش دلی ونشاط اقصائے عالم میں پہنچ گیا۔ بادہء عشرت جام مبارکبادمیں جوش زن ہوانغمہء بے غمی نے طنبور کے تارِطرب نواسے بلند ہوکر پردہء گوش تک رسائی کاقصد کیا۔۔۔‘‘(صفحہ19)۔

یہی اسلوب عبارت آرائی ساری کتاب میں جاری وساری ہے اور ہر تخت نشینی کا بیان ایسی ہی عبارت میں کیا گیا ہے۔ میں نے محض نمونہ کے طور پر یہ عبارت درج کی ہے ورنہ عام قاری توشاید ان الفاظ کے معانی تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔ شاہان اودھ کی عیش وعشرت بادہ نوشی اور ہمہ گیر عیاشی سلطنت اودھ کے زوال کا سبب ہوئی۔ غازی الدین حیدر کے عہد سے لے کرواجد علی شاہ کے دور تک کے شاہان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہیں سوائے اپنے عیش کے اور کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ ایک امجد علی خاں تھے جن کے عہد مبارک میں دینداری کا ذراساچر چاسننے میںآتا ہے۔ ’’آپ مبانیء دین و ملت کے استحکام، اتباع احکام شریعت،اور کرم وسخاوت میں بے عدیل نظیر تھے، تقدس ورع اور راستبازی آپ کی طبیعت (میں) اس قدر مضمر تھی کہ مجہتد العصر کی اجازت کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے اور تمام کلی وجزوی امور میں احکام شریعت کی پیروی لازمی خیال کرتے تھے‘‘ (صفحہ31)۔

ان کا ایک واقعہ ڈاکٹر آغا سہیل کی خودنوشت ’’خاک کے پردے‘‘ میں درج ہے کہ ’’کسی عالم دین نے امجدعلی شاہ سے شکایت کی کہ آپ کے صاحبزادے پری خانے میں رقص کا شغل فرمار ہے ہیں۔ باپ نے بیٹے کو طلب کیا کہ وہ جس حالت میں ہوں حاضر ہوں۔ وہ حاضر ہوئے۔ دیر تک باپ بیٹے میں مکالمہ ہوا اور پھر اجازت ملنے پروہ واپس چلے گئے۔ عالم دین نے کہا آپ نے شہزادے کو تنبیہہ نہیں کی۔ امجد علی نے کہا قبلہ آپ نے دیکھا کی اس کے دونوں پاؤں گھنگھروؤں سے لدے ہوئے تھے لیکن ایک گھنگھروکی بھی آواز پیدا نہیں ہوئی۔ میں امجد علی کو سزاروں یااس کے فن کو قتل کروں؟‘‘ (’’خاک کے پردے‘‘۔صفحہ53)۔

فن کے ساتھ ایسی دل بستگی رکھنے کے باوجود امجد علی خاں دینی معاملات میں سخت گیر واقع ہوئے تھے۔ شراب کی بھٹیاں بند کردی گئیں۔ بھنگ خانے برباد کردئے گئے، تاڑی کا استعمال روکنے کے لئے تاڑکے درخت بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکے گئے۔ ہیجڑوں پر قہر نازل ہوا۔ ’’ ایک ہیجڑا’’اناردانہ‘‘ جو بڑا مشہورتھا اس نے آپ کو پیغام بھیجا میں چاہتی ہوں کہ اس گنہگار کے غریب خانہ پر تشریف لاکر دعوت قبول کریں۔ قوی امید ہے آپ انکار نہیں فرمائیں گے کیونکہ دعوت قبول نہ کرنا گناہ ہے۔آپ نے فرمایا اگر تم تو بہ اختیار کروتو بہتر ہے نسوانی وضع ترک کرکے داڑھی رکھ لو تو ضرور دعورت قبول کروں گا ورنہ نہیں‘‘ ( صفحہ34)۔ 

مولف اس بارہ خاموش ہیں کہ حضور پر نور کی تحریک اور حکم پر ’’اناردانہ‘‘ نے کیا وضع اختیار کی؟ امجد علی خاں نے پانچ سال سے کم عرصہ تک حکومت کی اور 45یا47سال عمر میں رہگزائے قضاہوئے۔ ان کے بعد ان کے فرزنددلبند واجد علی خاں تخت نشیں ہوئے۔ آغاز سلطنت میں تمام تربحث عدل گستری وانصاف کے قیام اور ظلم وتشدکودور کرنے پر مرکوز تھی۔۔۔ کچھ عرصہ بعد شاہ کی طبیعت عیاشی اور لہوولعب سے نشاط اندازی کی طرف بے انداز مائل ہوئی۔۔۔ امورسلطنت کا نتظام ناٹیوں اور کار گزاروں کے حولے کردیا اور سرتا پا عیش وعشرت میں مصروف رہتے۔ تمام ازواج ومحلات سے شغف پیدا کرلیا آپ نے اس قدرازواج اور محلات وبیگمات جمع کیں کہ حدشمار سے باہر ہیں۔ موسیقی، سرودوغنا اور رقص کا بے اندازہ شوق تھا۔۔۔ اس تمام عیش وعشرت اور سامان فرحت کے باوجود اس قدر پابند صلوٰۃ تھے کہ پانچوں وقت باقاعدگی سے نماز ادا کرتے اور نکاح یا متعہ کئے بغیر کسی عورت پر ہاتھ نہ ڈالتے‘‘(صفحہ36)۔

سلطنت میں بدنظمی پیدا ہوئی تو انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ شاہ کو ایک لاکھ روپے کا وظیفہ دے کر رخصت کردیا۔ کلکتہ میں سلطان عالم نے مٹیا برج کے قیام پر زمین خرید کرایسی عالیشان عمارتیں باغات اور کوٹھیاں بنوائیں کہ قیصر باغ ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔۔۔۔ وہاں بھی بہت سی بنگالی عورتوں سے شادی کی اورداد عیش وعشرت میں مشغول رہے اور رنگ رلیوں میں زندگی بسر کی‘‘۔(صفحہ41)۔ ایسی رنگ رلیوں کے لئے ایک لاکھ ماہانہ ناکافی تھا۔

رائٹ انریبل سید امیر علی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ’’1878ء میں حکومت نے سابق شاہ اودھ(واجد علی شاہ) کے معاملات کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بد نصیب حکمران اپنے ناقص مصاحبوں کے ہاتھوں جلد ہی بری طرح مقروض ہوگیا۔ اس وظیفہ کا بڑا حصہ جو برطانوی حکومت اسے دیتی تھی قرض خواہ چھین لیا کرتے تھے۔ اسکے بچے جن کے بارہ میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہت سے اتالیقوں سے تعلیم سے محروم ہی رہے‘‘(سید امیر علی کی آپ بیتی صفحہ62)۔ حکومت نے اس کمیشن کی سفارش پرجس کے ایک رکن جسٹس امیر علی بھی تھے واجدعلی شاہ کے وظیفہ سے پانچ ہزار روپے کی رقم بچوں کی تعلیم کے لئے مخصوص کردی مگر بادشاہ اودھ اس بات پر بہت باراض ہوئے۔

ہمارے ہاں جنرل شاہد حامد نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں لکھا تھا کہ ’’ میرے دل میں ہمیشہ سے ایسی کتاب لکھنے کی خواہش موجودر ہی جس میں واجد علی شاہ پر عائد کردہ الزامات کا جواب دیا جائے سلطان عالم کے باب میں انگریزان تمام حوالوں اور آراء کو عوام سے چھپانے میں کامیاب ہوگئے تھے جو اصل حقائق کو ظاہر کرتی تھیں۔ آج بھی ایسی دستاویزات عوام کے لئے دستیاب نہیں کیونکہ انہیں حساس تصور کیا جاتا ہے‘‘۔(ایک جنرل کی آپ بیتی ضمیمہ اول) جنرل صاحب نے ڈنکے کی چوٹ پہ اعلان کیا تھا۔ جو کچھ لکھنو میں ہوتا تھا اس کی تمام ملک میں نقل کی جاتی تھی۔ سامراجی حکمرانوں کے نزدیک یہ ثقافتی سرگرمیاں انحطاط اور بدکاری کی علامتیں تھیں اگر اس طرح ہوتا تو اودھ کی مسلم فوجیں جدوجہد آزادی کی مشعل بردار ہراول دستہ کس طرح ثابت ہوتیں۔ مجھے اس تہذیب کا ساختہ پرداختہ ہونے پر فخر ہے جس نے مہذب معاشرہ کی بنیاد رکھی (ایک جنرل کی آپ بیتی صفحہ207) مگر واجد علی خاں کے ہمعصر کاظم علی کی آپ بیتی تو ان تمام الزامات کی تصدیق کررہی ہے جن کی تردید کا خیال جنرل صاحب کے لئے سوہان روح بناہوا تھا۔

چھپن صفحات کی اس کتاب کے آخر میں مصنف پھر اپنے حالات کی طرف لوٹتاہے اور مجمل طور پر اپنے حالات بیان کر کے کتاب کو ختم کرتا ہے۔ ’’مخفی نہ رہے کہ جو کچھ اس رسالہ میں درج ہے کچھ تو میں نے خود دیکھا ہے اور کچھ دوسرے معتبر لوگوں کی زبانی سنا ہے اور کچھ ایک تاریخ میں دیکھا۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘ (صفحہ56) کتاب کا مجموعی تاثر صداقت اور سچائی کا بنتا ہے اور تاریخ کو روایت کرنے کو یہی ایک صفت کا فی ہے۔ محمد کاظم کی سوانح عمری ادب اور تاریخ میں معتبر نگاہوں سے دیکھی جائے گی۔

One Comment