ریاست کا عدالتی نظام اس قابل نہیں کہ جرنیلوں سے باز پرس کر سکے

سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے آج پانچ ملزمان رفاقت حسین، حسنین گل، شیر زمان، اعتزاز شاہ اور عبدالرشید کوبری کر دیا اور سابق ڈی آئی جی راولپنڈی سعودعزیز اور سابق ایس پی راول ٹاؤن خرم شہزاد کو سترہ، سترہ برس قید کی سزا سنائی۔عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کومفرور قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم بھی دیا اور ن کے مستقل وارنٹِ گرفتاری جاری کرنے کا بھی حکم دیا۔

فیصلے کے فوراﹰ بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سب سے اہم بن گئی، جس پر تجزیے اور تبصرے ہورہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر مملکت برائے انڈسٹریز اور پیداوار، اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک مرکزی رہنما آیت اللہ درانی نے اس فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ جس طرح لیاقت علی خان کے قتل کی سازش بے نقاب نہیں ہوئی، بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کی حقیت آشکار نہیں ہوئی، جنرل ضیاء کے طیارے کے حادثے کی گتھی نہیں سلجھی ، بالکل اسی طرح ، اس قتل کی سازش بھی کبھی بے نقاب نہیں ہوگی۔ پولیس والوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا لیکن اصل کرداروں کو بے نقاب نہیں کیا گیا‘‘۔

پی پی پی کے ایک اور رہنما سینیٹر تاج حیدر نے کہا، ’’یہ فیصلہ نہ صرف مایوس کُن ہے بلکہ اس میں اصل کرداروں کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔ شروع سے ہی اس کو ص‍حیح معنوں میں چلایا نہیں گیا۔ پانچ یا چھ ججوں کو تبدیل کیا گیا۔ ایک پراسیکیوٹر کو قتل کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں فوری سماعت کے لیے بنی تھیں لیکن اس عدالت نے فیصلہ تقریباﹰ گیارہ سال میں دیا۔ ہمارے خیال میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش ان کے آنے سے پہلے بنائی گئی تھی اور اٹھارہ اکتوبر اور ستائیس دسمبر کے واقعات اسی سازش کا حصہ تھے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بے نظیر بھٹو نے تین افراد کے نام اپنے ایک خط میں لیے تھے۔ جن میں جنرل حمید گل، بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور چوہدی پرویز الٰہی کے نام شامل تھے۔ میرے خیال میں ان تینوں افراد سے تفتیش کی جانی چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو کا بھی اپنے ایک خط میں حوالے دیا تھا۔ اس حوالے سے بھی تفتیش ہونی چاہیے تھی‘‘۔

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے خود بھی اس مقدمے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ سیاسی مبصر مظہر عباس نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بے نظیر بھٹو کا قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔ پرویز مشرف اور پی پی پی کی حکومت دونوں ہی ناقص تفتیش کے ذمہ دار ہیں۔ جب آپ بے نظیر بھٹو کے خط کو نظر انداز کریں گے، ایک مشتبہ شخص کو باہر جانے دیں گے اور دوسرے کو حکومت کا حصہ بنا لیں گے تو ایسا ہی فیصلہ آئے گا۔ پی پی پی نے خود بھی اس مقدمے میں دلچسپی نہیں لی اور ایک بار بھی وہ مقدمے کی سماعت سننے کے لیے نہیں آئے۔ اگر اٹھارہ اکتوبر کے واقعے کی تفتیش صحیح طریقے سے ہوتی اور بے نظیر بھٹو کے خط کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو ستائیس دسمبر کا واقعہ نہ ہوتا‘‘۔

مقدمے کی کاروائی کے مطابق ڈی آئی جی سعود عزیز کو جائے حادثہ کی فوری صفائی کا حکم ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس میجر جنرل ندیم اعجاز نے دیا۔ سعود عزیز نے یہ حکم ایس ایس پی خرم شہزاد کو دیا۔ خرم شہزاد نے یہ حکم ڈی ایس پی کو پہنچایا، ڈی ایس پی نے ایس ایچ او کو۔ اور متعلقہ تھانے کے عملے نہ جگہ صاف کروا دی۔سوال یہ ہے کہ جج کا قلم سعود عزیز سے اوپر اور خرم شہزاد سے نیچے کیوں نہیں چلا۔میجر جنرل ندیم اعجاز سے کچھ سوالات ہی کر لئے ہوتے۔ کہ اسے حکم کس نے دیا۔ تو پورا کھرا مل جاتا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات طے ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ ملوث ہے اور ریاست کا موجودہ قانونی ڈھانچہ اس قابل نہیں کہ وہ جرنیلوں سے باز پرس کر سکے۔اسی لیے آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ کے کمیشن کے ذریعے اس کیس کی تحقیقات کروائی تھی جس پر پاکستانی میڈیا میں کافی شور وغوغا کیا گیا تھا۔کیونکہ اس میں سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کا نام آنا لازمی تھا اور یہی ہوا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ کر لیا جائے تو مجرموں کی نشاندہی ہوجاتی ہے جنہیں پاکستان کی عدالتیں سزا نہیں دے سکتیں۔لہذا پیپلز پارٹی کی مایوسی صاف نظر آتی ہے اور کیس میں کوئی دلچسپی بھی نہیں لی۔

DW/News Desk

One Comment