داغ اچھے ہوتے ہیں یا صفائی جزو ایمان ہے

علی احمد جان

گھر کی صفائی پر جھگڑا ہے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ صفائی جزو ایمان ہے ہمیں اپنے گھر کو صاف رکھنا ہے اور دوسرے کا خیال ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں کیونکہ ہر داغ کی ایک کہانی ہوتی ہے اور ہماری کہانی چالیس سال پرانی ہے جس سے ہمیں پیار ہے۔

صفائی اور داغ سے پیار نے سب کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ صفائی کے حامی کہتے ہیں کہ بہت ہوگئی ہم جھوٹ بول بول کر تھک گئے ہیں اوپر سے دنیا والوں کو بھی اب پتہ چل گیا ہے کہ گند تو ہمارے ہی آنگن میں ہے۔ ہم نے جو گند اکھٹا کیا ہے اس سے ہمارے گھر میں یہ بد بو تو پہلے سے ہی تھی اور آس پاس میں بھی شکایت تھی مگر اب تو سات سمندر پار سے بھی ناطہ توڑنے کی ندا آئی ہے۔ ہم کب تک چھپائیں گے اب تو سب جانے ہے ۔

داغ کے اچھے ہونے کی دلیل میں کہا جاتا ہے کہ اتنے داغ تو ہر جگہ ہوتے ہیں ہر آنگن میں ہوتے ہیں اور ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ ان داغوں کو دنیا والوں کو دکھایا نہیں جاتا بلکہ چھپایا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی پوشاک جس محبوب کی محبت میں داغدار کی ہے وہی محبوب ہمیں اب داغوں کے طعنے دیتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ہمیں ان داغوں کو سنبھال کر رکھنا ہوگا ہو سکتا کل یہ پھول بن جائیں۔

بات نئی نہیں ہے کہ کسی نے گھر کے آنگن کو صاف کرنے کی بات کی ہو ۔ اسّی کی دھائی میں جب افغانستان میں ایک آگ لگی ہوئی تھی تو اس کے شعلے کبھی کبھار ہمارے گھر میں بھی بھڑکتے تھے۔ بوہری بازار صدر کراچی کا بم دھماکہ ایک ایسا ہی واقعہ تھا جس پر اس وقت ولی خان جیسے لوگوں نے کہا کہ افغانستان میں بم پھینک کر وہاں سے پھولوں کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں جب مجاہدین بر سر اقتدار آگئے تو امریکہ سمیت سب ہی اپنے اپنے پیا دیس سدھار گئے ہمیں افغانستان کا گند صاف کرنے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ ہم افغانستان کا گند تو کیا صاف کرتے جو آج تک اپنے آنگن کی صفائی پر گومگوں کی کیفیت میں ہیں۔

سعودی عرب جس نے۱۹۷۹ میں جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے خانہ کعبہ کے محاصرے کو ناکام بنانے کے بعد ایک تو ان سب کے سر قلم کردئے تھے اور ملک میں باقی ماندہ ان کی سوچ سے متاثر لوگوں کو افغانستان کی راہ دکھا کر ان سے وقتی طور پر جان چھڑالی تھی۔ افغانستان کی جنگ ختم ہوئی تو جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا تھا وہ جب واپس آگئے تو سعودی عرب میں دوبارہ ایسے واقعات پھر سے شروع ہوگئے۔ سعودی حکام نے اسامہ بن لادن سمیت کئی ایسے جنگجوؤں کا دیس نکالا کیا جو وہاں سے پہلے سوڈان اور پھر افغانستان واپس آگئے جن کی وجہ سے ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعات رونما ہوئےجس سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

سعودی عرب میں رہ جانے والے ایسے لوگ جو افغانستان کی جنگ میں حصہ لے چکے تھے اور سعودی طرز حکمرانی سے خائف تھے حکام کے لئے مسلسل درد سر بنے رہے۔ ان لوگوں کی جنگ کے علاوہ کسی کام میں مہارت نہیں تھی اور بہت سارے ایسے تھے جن کے پاس اپنی زندگی کو جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد دینے کے لئے مالی وسائل بھی نہیں تھے۔

ا یسے لوگوں کا نفسیاتی تجزیہ کروایا گیا تو یہ بات بھی سامنے آئی کہ سعودی عرب میں کسی مرد کو شادی کرنے کے لئے دلہن کی ایک قیمت ادا کرنی ہوتی ہے جو بہت سارے نوجوانوں کے بس میں نہیں ہوتا ہے نوجوان اس لئے جہاد میں شریک ہوتے ہیں کہ ان کو شہادت کے بعد حوریں ملیں گی ۔ سعودی حکام نے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جہادی نکتہ نظر سے متاثر نوجوانوں کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا جس میں ایسے نوجوانوں کو ایک ایک پک اپ گاڑی، کاروبار کے لئے سرمایہ اور دلہن کی قیمت چکانے کا پیسہ بھی دیا گیا۔ اس سے بڑی تعداد میں نوجوان دوبارہ اپنی زندگی نئے ڈگر سے شروع کرنے کے قابل ہوئے اور سعودی حکومت اپنے آنگن کو کسی حد تک صاف کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جہادی نفسیات پر جس انداز میں ہمارے ہاں کام ہوا یہ بھی دنیا میں اپنی نوعیت کا انوکھا تھا۔ امریکی امداد سے افغان مہاجرین کے لئے مدرسے کھول کر بچوں کو تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا گیا۔ ان سکولوں میں مختلف مضامین پڑھائے جاتے تھے ان مضامین کو پڑھانے اور سمجھانے کے جہادی طریقے میں اگر حساب میں منفی کے تصور کو سمجھانا ہو تو مثال یوں دی جاتی تھی کہ دس میں سے اگر پانچ کافر مار دئے گئے تو پانچ پچ جائیں گے یا گرائمر میں ماضی اور مستقبل کے صیغے یوں سکھا ئے جاتے تھے کہ فلاں جہاد پر گیا اور فلاں جہاد پر جائیگا ۔

اس دور کے لوگ جانتے ہیں کہ کہ جہادی مدارس بہت جلد کیسے مہاجر کیمپوں سے باہر آگئے اور جہادی تصورات ہمارے دیگر مدارس میں کیسے داخل ہوگئے۔ اگر کوئی اعداد و شمار کو دیکھے تو یہ نظر آتا ہے کہ دینی مدارس کہ تعداد ۱۹۴۷ میں صرف ۱۸۹ تھی ستر کی دھائی میں نو سو سے ہزار تک پہنچی تھی جو ایک دم اسی کی دھائی میں پچیس ہزار سے زائد ہوئی اب یہ تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زیادہ ہے۔

مدرسے ایک طرف جن میں سے بہت سارے جہاد اور انتہا پسندی کی تعلیم نہیں بھی دیتے ہیں مگر تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر تعلیمی اداروں بشمول جامعات اور کالجوں میں پڑھنے والے نوجوان اب جہادی تصورات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ایسے کئی نوجوان داعش سے متاثر ہوکر براستہ ترکی شام پہنچے تو کئی ایک ملک کے اندر دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث پائے گئے۔ متمول گھرانوں کے کھاتے پیتے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا ایسے نظریات اور تصورات سے متاثر ہونا ایک نئی لہر ہے ۔

گزشتہ پچاس سالوں سے تعلیمی اداروں کے اندر بوئے جانے والے ایک خاص طرز فکر کے بیچ اب سرکاری اور ادارہ جاتی سرپرستی سے تناور درخت بن چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اس خاص سوچ کے حامل افراد جو اسی کی دہائی میں نوجوان طالب علم تھے اب ان اداروں کو بحیثیت استاد اور معلم چلاتے ہیں اور اپنی سوچ و فکر کی پرچار کرتے ہیں جس سے نئی نسل متاثر ہورہی ہے۔

جہادی تصورات اور نظریات کا پر چار صرف مساجد، مدارس، سکولوں، جامعات اور کالجوں تک محدود نہیں رہا اب یہ پریس، سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں سے بھی ہوتا ہے۔ اس پروپیگنڈے میں صرف مساجد سے وابستہ مولوی ہی نہیں بلکہ مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل انگریزی بولتے بغیر داڑھی کے دانشور بھی پیش پیش ہیں۔ ایک طرف روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کو مغربی تصورات کی غلامانہ ذہنیت سے تعبیر کرکے ہر سطح پر اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو دوسری طرف انتہا اپسندی اور متعصبانہ سوچ کو تنگ نظر قوم پرستی کے پیراہن میں قومی طرز عمل کا آئینہ دار بناکر پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ داڑھی اور بغیر داڑھی کے دانشور اپنے فکر سے اختلاف کرنے والوں کافر ، ملک کے غدار اور ان کو قابل گردن ذدنی قرار دینے تک نہیں چوکتے۔

سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں آزادی تحریر و تقریر کی آزادی نہیں ، ریاست کا تعلیمی اداروں، مساجد ، میڈیا اوراور پریس پر مکمل کنٹرول ہے جس کی وجہ سے ایسے تصورات اور نظریات کا فروغ ممکن نہیں جو ریاستی پالیسی سے متصادم ہوں ۔ سعودی عرب کے وہ لوگ جو ایسے تصورات کے حامی ہیں وہ اپنی سوچ و فکر کی ترویج بھی ہمارے جیسے ممالک میں کرتے ہیں جہاں اظہار رائے کی نسبتاً آزادی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ لوگ اپنے گندے کپڑے بھی ہمارے دالان میں لاکر دوھوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی طرف سے دی جانے والی خیرات کی وجہ سے انتہا پسندانہ سوچ کے فروغ کے لئے مالی وسائل کی کمی نہیں رہتی اور اس امداد سے چلنے والے ادارے سرکاری امداد کے محتاج نہیں رہتے جس کی وجہ سے ان اداروں پر ریاستی کنٹڑرول بھی نہیں رہتا۔ ان اداروں کو تطہیر اور ان سے ایسے تصورات کو ختم کرنا بھی آسان نہیں۔

اگر ہم ان داغوں کو اچھا سمجھ کر ان سے محبت کرتے رہیں گے اور ان کو چھپاتےرہیں گے تو یہ ہمارے چہرے کو اور بدنما کردیں گے اور ہو سکتا ہے یہ سرطان میں بدل جائیں اور ان کو مٹانے کے لئے ہمیں اپنے جسم کے ان حصوں کو ہی کاٹنا پڑے جن پر یہ داغ لگے ہیں ۔

صفائی جزو ایمان والے طبقے کی بات مان بھی لی جائے تو اس کام کے لئے سالوں کی نہیں دہائیوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سوچ صرف مدارس اور سکولوں کے نصاب تعلیم تک ہی محدود نہیں ، صرف میڈیا پر بیٹھے دانشوروں کے بھاشن میں ہی نہیں اور نہ لکھاریوں اور قلمکاروں تک ہی محدود ہے یہ اب ہمارے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہوچکی ہے۔ اس سوچ سے معاشرے کی تطہیر سے زیادہ معاشرے کی تشکیل نو کی ضرورت ہے جو نئے زمانے کے نئے میلانات اور رجحانات سے موافق ہو اور آنے والے زمانے کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو اپنے اندر سمو سکے۔ اگر ہم نے اس کام کا آغاز جلد سے جلد نہ کیا تو پہلے ہم دنیا کے میلے میں تنہائی کا شکار ہونگے اور پھر یہ تنہائی جلد ہی ہمارے معاشرے کا گلہ گھوٹ دے گی۔

Comments are closed.