چنگیز خان اور انگریز خان

طارق احمدمرزا

نواب اکبربگٹی صاحب کے فرزند جناب نوابزادہ جمیل بگٹی صاحب نے اخبار ‘‘ روزنامہ آزادی ’’سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کا قتل بلوچستان کا مسٔلہ نہیں ،اسے زبردستی یہاں کا ایشو بنایا جا رہا ہے۔دیگر شیعہ برادری کو کیوں نہیں ماراجارہا؟ صرف ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہاہے یہ تو افغان،طالبان اور ہزارہ کی صدیوں سے چلتی آئی جنگ ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب سے چنگیز خان انہیں چھوڑ کر گیا ہے یہ جنگ چلتی آرہی ہے لہٰذہ ہزارہ کمیونٹی کی جنگ کو بلوچستان سے جوڑنا غلط ہے۔ (اردوویب ڈاٹ آرگ۔محفل تھریڈ نمبر۶۴۹۰۱ ) ۔

میانمار کی قومی رہنما آنگ سان سوکی اور ان کے ہمنوافرماتے ہیں کہ روہنگیاکمیونٹی کا قتل میانمار کا مسٔلہ نہیں،اسےزبردستی یہاں کا ایشوبنایا جارہاہے۔دیگر مسلم برادری کو کیوں نہیں مارا جارہا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب سے انگریز ان غیر ملکی بنگالیوں کو یہاں چھوڑ کر گیا ہے یہ فسادات چلتے چلے آرہے ہیں لہٰذہ روہنگیا کمیونٹی کی جنگ کومیانمار سے جوڑنا غلط ہے وغیرہ۔(متعدد اخبارات)۔

قارئین افغانستان پاکستان کی ہزارہ کمیونٹی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور دوسری طرف بنگلہ دیش نے میانمار سے آئے ہوئے چار لاکھ بنگالی النسل پناہ گزینوں کو قبول کرنےسےانکار کردیا ہے۔ایک کمیونٹی کو چنگیز خان کہاں سے لاکر کہاں چھوڑ گیا تھاتودوسری کو انگریز۔ میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان مہاجرین کو قومی شہریت کا حقدار سمجھتے ہیں جو انگریزوں کی آمد سے پہلے میانمارمیں اپنی آمد ثابت کر سکیں۔

ہزارہ اگر چنگیز خان کی آمد سے قبل بلوچستان میں اپنی موجودگی ثابت کر سکیں تو پھر شاید تھوڑی سی گھاس ان کو ڈالدی جائےلیکن اپنے گھر کا نہیں بلکہ ‘‘ہمسایہ’’ سمجھ کر۔جیسا کہ محترم جمیل بگٹی صاحب نے بلوچستان میں موجود پشتونوں کا ذکر کرتے ہوئےاسی انٹرویو میں یہ بھی فرمایا تھا کہ مستقبل میں ہم نے بلوچستان کے پشتونوں کے ساتھ بطور ہمسایہ رہنا ہے۔بلوچستان کا ریفرنڈم پشتونوں کو الگ کر کے کروایا جائے۔

استعمار ہمیشہ سے یہی کام کرتاچلا آیا ہے۔قوموں کو تقسیم کرنا،یاقوموں کو زبردستی ایک دوسرے میں مدغم کرکے انسانوں کے غیر فطری مجموعے بنانا۔جغرافیائی حدیں تبدیل کرنا،یا انسانوں کو ان کی آبائی جغرافیائی حدود سے اتنا دور لے جا کر ‘‘چھوڑدینا’’جہاں سے وہ واپسی کی کوئی راہ یا امید نہ سجھائی دے۔یہ قوموں میں خیا نت اور ملاوٹ کرنےکے مترادف ہے۔

میں نے جو عنوان میں چنگیز اور انگریز کے ساتھ لفظ خان لکھا ہے وہ اردو یا پشتو کا‘‘خان’’ نہیں بلکہ عربی کا لفظ ‘‘خَانَ’’ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ‘‘فلاں نے خیانت کی’’۔(عربی میں اکثر آخری حرف کا زیر زبر پیش ساکت ہو جاتا ہے اور وہ لکھا یا بولا نہیں جاتا)۔

امریکہ میں بھی سفید فام اور سیاہ فام باشندوں میں جو جھڑپیں جاری ہیں وہ اسی بین الاقوامی خیانت اور ملاوٹ کی ایک اور مثال ہے۔آسٹریلیا میں مقامی ایبوریجنی باشندوں سے ہزار ہا بچے زبردستی چھین لئے گئے تھے جنہیں ‘‘سٹولین جنریشن’’ یعنی چوری شدہ نسل کہا جاتا ہے۔سفید فام استعمار نے خود اپنی قوم کا بھی لحاظ تو نہیں کیا۔سوڈیڑھ دوسو برس قبل برطانیہ سے کتنے ہی نو عمر لڑکے لڑکیاں ان کے والدین کی اجازت کے بغیر گھروں سے اٹھا کر سمندری جہازوں میں بھر بھر کر ہزارہامیل دور آسٹریلیالیجا کر چھوڑ دیا صرف اس لئے کہ ان میں سے اکثر یتیم تھے یا ان کے والدین چھوٹےموٹے جرائم کی وجہ سے جیلوں میں سزائیں بھگت رہے تھے۔اور استعمارخود کو ان کے نان نفقہ کے نازاٹھانے،تعلیم و تربیت کا بار اٹھانے کا متحمل نہیں سمجھتا تھا۔

استعمار ایسا کیوں کرتا ہے،وہ توقابل فہم ہے لیکن دوسرے انسان ان مجبور،سمگل شدہ،چوری شدہ انسانوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں ۔ان کے دکھوں اور مسائل سے خود کو لاتعلق رکھنا اور لاتعلقی کا اظہار کرنا صرف اس بنا پر کہ انہیں تو کوئی لا کر یہاں چھوڑ گیا تھا کیا انسانیت ہے؟۔کیا قوم پرستی خود غرضی، نفرت اور بغض کا دوسرا نام ہے؟۔کیا کسی کو یہ پوچھنے کا بھی حق ہے کہ تم خود کیا آسمان سے ٹپکے تھے یا زمین میں سے اُگے تھے ۔

اگر ہسٹری کھنگالی جائے تو نہ پنجابی مقامی ہیں نہ پشتون،نہ سندھی اور نہ بلوچی،نہ بنگالی اور نہ برمی۔حدتو یہ ہے کہ یہ برصغیر پاک وہند خود بھی مقامی نہیں۔یہ بھی جنوبی امریکہ سے کٹا ہوا ایک خطہ ہے جسے سمندر کی لہریں اربوں سال پہلے شمال میں لاکر چھوڑ گئی تھیں۔تو جب سب کی حیثیت ایک سی ہے تو لاتعلقی اور بے حسی کیسی۔رنگ،نسل،زبانیں،قبائل اور شعوب صرف تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہیں تو مؤاخات قائم کرنے میں کیا نقصان ہے۔یہ سبق تو ہم جانوروں سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔

استعمار ہمیشہ عصبیتوں،نفرتوں اورتفرقہ کے جذبات کا استحصال کرکے اپنا کام چلاتا ہے۔ایک استعمار کےخاتمہ کے بعدمزید کتنے ہی نئے استعمار اسی لئے جنم لیتے ہیں کہ عصبیتوںاور نفرتوں کے پرانےجراثیم نئے جینیٹک کوڈ کو استعما ل کر کے نئی کلوننگ شدہ شکل میں نمودار ہوجاتے ہیں۔نیاا ستعمار ایک نئے چنگیز خان کے روپ میں پھر کسی کمزور مجبور انسان کو کہیں سے اٹھا کر کہیں لا کرچھوڑ دیتا ہے اورایک نیا ہزارہ ،ایک نیاروہنگیا بزبان حال یہ کہتا نظر آنے لگ جاتا ہے کہ

نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے

کہاں پہ لاکے چھوڑا ہے کسی نے

4 Comments