میں قلم کار ہوں کوئی پبلک پراسیکیوٹر نہیں

آصف جاوید

سوشل میڈیا پر میرے بلاگ شائع ہونے کے بعد تبصروں ،تنقید اور گالیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ریاست کی پروپیگنڈہ مشینری کے دفاعی کارکن بڑی جانفشانی سے اپنا حق ادا کرتے ہیں۔ شدید تنقید، منفی تبصروں اور گالیاں کھانے کا اب میں عادی ہوچکا ہوں۔

مگر میرے اکثر دوست سوشل میڈیا پر جب بھی میرے پیجز کا وزٹ کرتے ہیں، تو مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ میں ان منفی تبصروں اور تنقید کا جواب کیوں نہیں دیتا ، گالیاں دینے والوں کو بلاک کیوں نہیں کرتا ہوں، تو میں ان کو ایک ہی جواب دیتا ہواکہ میں سیاسی اور سماجی مسائل پر کالم نگاری کرتا ہوں ، سماجی مسائل اُجاگر کرنے والا ایک ادنی قلم کار ہوں، کوئی پبلک پراسیکیوٹر نہیں کہ پہلے فرد جرم عائد کروں پھر ملزمان پر جرح کروں۔ اور انہیں مجرم ثابت کروں۔

میں مسائل اُجاگر کرتا ہوں، عدالت نہیں لگاتا۔میں تو تاریخ، سیاسیات اور سماجی علوم کا طالبعلم ہوں اور ایک سوشل ایکٹیوسٹ ہوں۔ قلم میرا ذریعہ اظہار ہے۔ قلم میری زندگی اور پاکستان میرا وطن ہے، جسمانی طور پر کینیڈا میں رہتے ہوئے ، روحانی طور پر پاکستان میں ہی بستا ہوں۔ چاہوں تو پاکستان کی محبّت دل سے نکال کر ، کینیڈا کی خوشحال زندگی میں مست ر ہ سکتا ہوں۔

مگر اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ میں بے حس ہوجاؤں اور پاکستان میں سماجی ناانصافیوں، معاشرتی محرومیوں اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پرخاموش رہوں۔ معاشرتی نا ہمواریوں، قومی وسائل کی غیر مناسب تقسیم، میرٹ کے قتل، کرپشن کی فراوانی ، اور صنفِ نازک کے بے احترامی کا تماشہ دیکھتا رہوں۔

لسّانی اور مذہبی دہشت گردی، احمدی اور شیعہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور ان کے قتلِ عام اور اقلّیتوں کے حقوق کی پامالی ، سرائیکیوں کے حقوق کی جدوجہد، مہاجروں ، بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ریاستی دہشت گردی ، مہاجر اور بلوچ نوجوانوں کے اغوا، جبری گمشدگیوں، زیرِ حراست انسانیت سوز تشدّد اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایک لفظ نہ بولوں، ، ریاستی اداروں پر تنقید نہ کروں۔ اور اپنے کھلے الفاظ ،تبصروں اور تجزیوں سے آقائوں کو ناراض نہ کروں۔

مگر ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں تو ضمیر کا قیدی ہوں۔ میں مجبور ہوں، میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رِہ سکتا ۔

میرے احباب کہتے ہیں یہی ایک عیب ہے مجھ میں ،سرِ دیوار لکھتا ہوں، ،،،،،،،،،،،پسِ دیوار کے قصّے

میں ضروری نہیں سمجھتا کہ ڈر کر خاموش ہوجاؤں، یا لکھنا بند کردوں، یا اپنی ہر تحریر شائع ہونے کے بعد ان پر ہونے والے منفی تبصروں، تنقید اور گالیوں کا جواب دیتا پھروں اور اپنی تحریروں کا دفاع کر تا رہوں۔

جس طرح مجھے اپنی سمجھ ، معلومات اور علم کے مطابق اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے، بالکل اس ہی طرح ہر قاری کو میری تحریروں اور میرے نظریات و خیالات سے اتّفاق اور اختلاف کا حق حاصل ہے۔ کسی کا بھی کا مجھ سے متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے علم، سمجھ اور صوابدید کے مطابق میری تحریروں پر تنقید کرسکتا ہے، تبصرہ کر سکتا ہے، ، اعتراض اٹھا سکتا ہے۔ ۔

میں اظہارِ رائے کی آزادی کے احترام اور اظہارِ رائے کے حق اور اختلافِ رائے کے احترام کے آفاقی اصولوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں کسی بھی اعتراض یا تنقید پر دلیل، منطق، او علمی بحث و مباحثہ کے ساتھ گفتگو کر تو سکتا ہوں، مگر گالیوں کے جواب میں گالیاں نہیں دے سکتا، یہی میری معذوری ہے۔

میری زندگی اور جدوجہد کا مقصد اور محور یہی ہے کہ میں انسانی زندگی سے جڑے سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرتا رہوں اور اُن پر گفتگو اور بحث کا دروازہ کھلا رکھوں۔ ، مسائل گر حل نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم اتنا تو ہوجائے کہ مسائل اربابِ اختیار اور پالیسی سازوں وفیصلہ سازوں کی توجّہ حاصل کرلیں۔ عوام میں شعور و ادراک تو بیدار ہوجائے۔

بطور قلم کار اگر میں شعور و ادراک کی بیدار ی اور بحالی میں کامیاب ہوجاتا ہوں ، اور عوام کو ریاستی میڈیا کی پروپیگنڈہ مشینری کے حصار سے باہر نکال کر عوام کے کریٹیکل تھنکنگ سسٹم کو بیدار کر نے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔ عوام کےاپنے ریشنل سسٹم کے ذریعے عوام کو اپنی ذاتی رائے قائم کرنے تک کی منزل تک پہنچانے میں ان کا معاون ہوجا تا ہوں ، تو اس سے بڑی نیکی کیا ہوگی؟؟؟۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میری سماجی ذمّہ داری ہے۔ جو میں ادا کررہا ہوں۔ اور جب تک زندگی رہی کرتا رہوں گا۔ فیض احمد فیض نے ہم جیسے ہی راندہِ درگاہ قلمکاروں کے لئے کہا تھا کہ

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

2 Comments