دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم بریکس نے پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔
بریکس کے ارکان میں انڈیا، چین، برازیل، روس جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
پیر کو چین میں ہونے والی تنظیم کی کانفرنس کےاعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔
اس اعلان کو انڈیا کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پانچوں ممالک کے سربراہان نے مشترکہ اعلامیے میں ایسے تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔43 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔
بریکس ممالک نے خطے میں بدامنی اور طالبان، دولتِ اسلامیہ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی۔
تنظیم نے اس بات کو دہرایا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اولین طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے اور بین الاقوامی معاونت کو خود مختاری اور عدم مداخلت کی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ اس اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہمیں پتا ہے کہ انڈیا کے پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے خدشات ہیں ہمیں ہمارے خیال میں بریکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ بریکس اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے گروہوں کو اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ حالانکہ گذشتہ اجلاس اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہورہا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اقوام متحدہ کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دینے کی کوشش پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔
یاد رہے کہ کوئی دو ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ‘اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔‘
صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔‘
پاکستانی ریاست کی طرف سے دہشت گردوں کی مسلسل حمایت کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے جس کی بازگشت ڈان لیکس میں بھی سنی گئی تھی۔پاکستان کے اس وقت اپنے تینوں ہمسایوں، افغانستان، ایران اور بھارت سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
تینوں ممالک نے باہمی تجارت کے کئی معاہدے کیے ہیں جس سے پاکستان محروم ہو چکا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی ریاست ان تنظیموں کے خلاف کوئی کاروائی کرتی ہے یا ان کو تحفظ دینے کی پالیسی جاری رکھے گی۔
BBC/News Desk
♦
One Comment