پاکستان کی سفارتی تنہائی یا تباہی ؟

ایمل خٹک 

پانچ ملکی بین الاقوامی اتحاد بریکس کی حالیہ کانفرنس کے اعلامیے میں پاکستان کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں کا ذکر انڈیا کی سفارتی کامیابی اور پاکستان کی بد ترین سفارتی ناکامی ہے ۔ پانچ  ملکی اتحاد میں انڈیا کے علاوہ چین ، برازیل ، روس  اور جنوبی افریقہ شامل ہے ۔  پہلی بار چین کی موجود گی میں کوئی ایسا اعلامیہ جاری ہوا جس میں پاکستان کی حمایت یافتہ تنظیموں جیسے لشکر طیبہ وغیرہ کا ذکر ہوا کیونکہ چین اس سلسلے میں پاکستان کی خوشنودی کیلئے ابھی تک بین الاقوامی فورموں میں ان کو دہشت گرد قرار دینے کی مخالفت کرتا رہا ہے ۔

پانچ ملکی اتحاد کا اجلاس جو چین میں منعقد ہوا تھا کا اعلامیہ جو پیر کر روز جاری ہوا میں علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر شدید تشویش کا اظہار کیاگیا ۔ داعش اور القائدہ اور اس سے جڑی ہوئی تنظیموں  لشکر طیبہ ، جیش محمد ، طالبان ، حقانی نیٹ ورک ، تحریک طالبان پاکستان،  مشرقی ترکستان اسلامی موومنٹ ، اسلامک مومنٹ آف ازبکستان اور حزب آلتحریر کو علاقے میں تشدد یعنی دھشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔  یاد رہے کہ پچھلے سال بریکس کانفرنس کے موقع پر چین نے لشکر طیبہ وغیرہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ 

اس اعلامیے نے پاک چین اور روس ممکنہ اتحاد کے بارے میں بھی کئ سوالات کو جنم دیا ہے۔ روس اور چین کا افغانستان اور انڈیا میں سرگرم پاکستان کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں جیسے لشکر طیبہ ، جیش محمد ،افغان طالبان ، حقانی نیٹ ورک وغیرہ کو علاقے میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرانا بذات خود بہت بڑی پیشرفت ہے۔  ایک تو یہ اس بات کی غمازی ہے کہ چین اور روس بھی پاکستان کی عسکریت پسندوں کی حمایت کی پالیسی سے مطمئن نہیں ۔ دوسرا بہت سے حوالوں سے یہ اعلامیہ امریکی انتظامیہ کی نئی پالیسی سے ھم آھنگ نظر آتا ہے ۔ جو علاقے میں ان تنظیموں کو دہشت گردی کا بنیادی عامل سمجھتی ہے ۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ امریکی پالیسی میں عسکریت پسندوں کی حمایت اور مدد کرنے کے حوالے سے پاکستان کا بھی نام لیا گیا ہے جبکہ بریکس کے اعلامیہ میں اس کا ذکر نہیں۔ 

بریکس بنیادی طور پر پانچ ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں کی اقتصادی تعاون کی تنظیم ہے مگر آہستہ آہستہ رکن ممالک میں اقتصادی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سیکورٹی امور پر بھی باہمی مشاورت اور تعاون بڑھ رہا ہے ۔ فورم کے تحت کاؤنٹر ٹیررازم گروپ قائم ہے جہاں پانچوں ممالک کے متعلقہ حکام باقاعدگی سے ملتے ہیں اور انسداد دہشتگردی کے حوالے سے تعاون بڑھانے کے ذرائع اور طریقوں پر غوروحوض کرتے ہیں۔ 

کانفرنس سے پہلے انڈیا نے اس اہم علاقائی کانفرنس یعنی بر یکس کانفرنس میں لشکر طیبہ وغیرہ کا مسئلہ اٹھانے کاعندیا دیا تھا۔  اگرچہ کانفرنس سے پہلے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں کسی بھی ایسی کوشش کی مخالفت کا عندیا دیا تھا اور کہا تھا کہ ایسے مسائل اٹھانا یا اس پر بحث فورم کے مینڈیٹ میں نہیں آتا ۔ مگر انڈیا کی خوشنودی کیلئے چین کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔ سرحدی تنازعہ اور کئی دیگر علاقائی امور پر اختلافات کے باوجود چین اور انڈیا نے بہت سے دو طرفہ اور بین الاقومی فورموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔  دونوں  ممالک کے درمیان اقتصادی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سیکورٹی ایشیوز پر بھی تفاہم اور تعاون بڑھ رہا ہے۔ 

ایسی اطلاعات عام تھی کہ چین نے پاکستان پر واضح کیا تھا کہ شاید مستقبل میں عسکریت پسند تنظیموں کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی مزید حمایت ان کیلئے مشکل ہو۔ بین الاقومی فورموں میں پاکستان کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں اور اس سے وابستہ افراد جیسے حافظ محمد سعید وغیرہ کو بین الاقوامی دھشت گرد قرار دینے کی کوششوں کی مخالفت پر چین کو اکثر و بیشتر خفت اٹھانی پڑتی تھی ۔ چونکہ چین خود بھی دہشت گردی کا شکار ملک ہے اسلئے انڈیا وغیرہ اس کو سخت تنقید کا ہدف بناتے تھے کہ ایک طرف چین دہشت گردی کے خلاف ہے اور دوسری طرف عالمی سطح پر مطلوب یا دہشت گرد قرار دے دئیے گئے دہشت گردوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سےحالیہ پالیسی بیان کے بعد بہت سے علاقائی ممالک محتاط ہو گئے ہیں اور امریکہ کی ناراضگی مول لینے کیلئے تیار نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکی پالیسی کا محور دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کیلئے دباؤ ہے جبکہ علاقے کے اکثر ممالک حتیٰ کہ چین اور روس خود بھی مذھبی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہیں اور دھشت گردی کے ڈانڈے کسی نہ کسی شکل میں پاکستان اور پاک افغان سرحدی علاقوں سے ملتے ہیں ۔ 

عسکریت پسندی کے خلاف اقدامات اور اس کی کمر توڑنے کے تمام تر دعووں کے باوجود عسکریت پسندی موجود ہے ۔ کئی علاقوں میں عید قربان کے موقع پر کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی قربانی کی کھالیں اور چندے جمع کرنے کی اطلاعات ہیں ۔  اس حوالے سے بعض کیسوں میں باقاعدہ اجازت اور بعض میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی اور خاموشی بہت سے سوالات کو اٹھا رہی ہے ۔  جس طرح ملک میں کھلم کھلا عسکریت پسندوں کی رضاکار بھرتی اور فنڈز جمع کرنے کی سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی ہے تو اس کے پیش نظر پاکستان پر عسکریت پسندوں کی حمایت اور امداد کے حوالے سے امریکہ اور بعض علاقائی ممالک کی تحفظات، خدشات اور حتی کہ الزامات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ 

سب اچھا اور غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کے مارے پاکستان کے پالیسی ساز ابھی تک شیخ چلی کی طرح بے بنیاد اور خیالی مفروضوں کی دنیا میں رہتے ہیں جبکہ پڑوسی حریف ملک جارحانہ سفارتکاری کے زریعے پاکستان کو سفارتی تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ پاکستان کی سفارتی تنہائی میں حریف ملک کی سفارتکاری کا بھی شاید کچھ عمل دخل ہو مگر بنیادی کردار ناعاقبت اندیش اور غلط ریاستی پالیسیوں کا ہے۔ پالیسی بحران اتنا شدید ہوچکا ہے کہ شیخ رشید جیسے ریاستی بھونپو بھی کھلے عام ان تباہ کن پالیسیوں کا اعتراف کر رہا ہے۔   

امریکی صدر کے بیان پر پاکستان میں کافی لے دے ہو رہی ہے ۔ لیکن ایک اچھا خاصا طبقہ علاقے میں امن اور دہشت گردی کے خلاف ان کی دو ٹوک پالیسی کے حامی ہیں ۔ دہشت گردی سے متاثرہ شورش زرہ علاقوں میں امریکی پالیسی کی کافی حمایت موجود ہے ۔ کیونکہ عسکریت پسندی کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں خاص کر وزیرستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سخت کنٹرول اور زیادتیوں کی وجہ سے اور غیر ضروری کرفیو اور بلاوجہ اور بیگناہ شہریوں کی گرفتاریوں سے  عوام میں غم وغصہ پایا جاتا ہے ۔جنوبی وزیرستان میں بروند جیسے واقعات بھی ہو ر ہے ہیں ۔ کئی جگہوں پر عوامی احتجاج تک نوبت پہنچی ہے ۔

کبھی ہم انڈیا کو سبق سکھانے کی کوشش میں ہوتے ہیں کبھی افغانستان اور کبھی ایران کو۔مگرہم بھول جاتے ہیں کہ وہ یہ سبق یا سیکھیں گے یا نہیں مگر وہاں کے عام شہریوں میں مخاصمانہ جذبات ضرور پیدا ہوجاتے ہیں اور بعض کیسوں میں خطرناک حد تک  بڑھ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر افغان طالبان ، حقانی نیٹ ورک یا داعش کے بعض گروپوں جن پر پاکستانی اداروں سے تعلق اور سرپرستی کا الزام ہے کی دھشت گرد کاروائیوں کی وجہ سے افغان عوام میں پاکستان مخالف جذبات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔   

چاہے افغانستان ہو یا انڈیا میں سرگرم عمل عسکریت پسند مثلا حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان یا کشمیر میں برسرپیکار تنظیمیں کی سرپرستی کے الزامات پاکستان پر صرف پڑوسی ممالک نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی لگاتے ہیں ۔ امریکہ ، یورپ اور اقوام متحدہ کئی پاکستانی عسکریت پسندوں کو عالمی دہشت گرد افراد کی فہرست میں شامل کرچکی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان بین الاقومی سطح پر مطلوب افراد میں سے بعض عسکریت پسندوں نے پاکستان میں کھلم کھلا اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے ۔ باقاعدگی سے چندہ جمع کرتی ہیں۔ عسکری تربیت کیلئے رضاکار بھرتی کرتی ہین ۔ ایک تنظیم پر پابندی کے بعد دوسرے نام سے کام جاری رکھتی ہیں ۔ ریاستی حفاظت اور سرپرستی میں عوامی ریلیاں اور اجتماعات منعقد کر رہے ہیں۔   

اصلاح احوال کیلئے ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر فوری تجدید نظر کی ضرورت ہے ۔ ان پالیسیوں پر وسیع قومی بحث اور مشاورت کی ضرورت ہے ۔ قومی پالیسی بنانے  وضع کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کی نگرانی اور وقتا فوقتا جائزہ لینے کیلئے پارلیمان کو اہم رول دینا ہوگا۔ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر کام کرنا ہوگا پالیسی سازی پر بعض اداروں کی غیر آئینی تجاوز کا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ مزید تباہی اور بربادی کو نہیں ٹالا جاسکتا ۔