دیوالی اور اقلیتوں کے حقوق

لیاقت علی

انیس اکتوبر کو دنیا بھر میں ہندو دیوالی کا تہوار منایا جارہا ہے۔پاکستان میں بھی ہندو برادری دیوالی کا یہ تہوار منا رہی ہے ۔ سندھ میں کیونکہ ہندووں کی آبادی ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اس لئے سندھ حکومت نے اس موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ دیوالی کا تہوار ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال کا جائزہ لیں۔

حال ہی میں ہوئی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 21 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقلتیں پاکستان کی کل آبادی کا تین فی صد ہیں جو 63 لاکھ بنتی ہے۔ اقلیتوں کے سیاسی اور سماجی حقوق کے لئے متحرک کارکن اقلتیوں کی آبادی ایک کروڑ سے متجاوز بتاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اقلتیوں کی آبادی جان بوجھ کر کم دکھائی جاتی ہے۔

اگر 63 لاکھ ہی کو درست ہندسہ مان لیا جائے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا انھیں اپنی آبادی کے مطابق معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ میراتعلق کیونکہ شعبہ قانون سے ہے اس لئے میں خود کو اس تک محدود رکھتا ہوں کہ وہاں کیا صورت حال ہے۔ پاکستان کی شاذ ہی کوئی ایسی بار ایسویسی ایشن ہوگی جس کے ممبرز میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے وکلا شامل نہ ہوں۔

بلا شبہ اس وقت اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے وکلا ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔لیکن کیا وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی چاروں ہائی کورٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک بھی جج ایسا نہیں ہے جس کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہو۔ لاہور ہائی کورٹ میں 50 جج کام کر رہے ہیں لیکن ان میں ایک بھی غیر مسلم جج نہیں ہے۔ 2009 میں جمشید رحمت اللہ لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے تھے لیکن انھیں پی سی او ججز کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بدولت اپنی تقرری کے چند ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔

سنہ 2014 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ملتان سے رکھنے والے وکیل جیمز جوزف کو ایڈیشنل جج نامزد کیاتھا لیکن 2016 میں جوڈیشل کمیشن نے انھیں کنفرم کرنے سے انکار کر دیا تھا اب صورت حال ہے کہ اب کوئی جج اقلیتوں میں سے نہیں ہے۔

سندھ میں اس وقت ہندووں کی آبادی لاکھوں میں ہےاوران میں بہت سے نمایاں وکلا موجود ہیں لیکن سندھ ہائی کورٹ کے 34ججوں میں ایک کا تعلق بھی ہندو یا مسیحی برادری سے نہیں ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں اس وقت دس جج کام کر رہے ہیں ان میں اقلیتی برادری کا کوئی جج نہیں ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں 20 جج ہیں لیکن اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا ایک کوئی جج بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 6 جج ہیں لیکن اقلیتوں سے تعلق رکھنے ولا جج ندارد۔ 

کیا اقلیتوں کو صرف دیوالی پر رنگ انڈیلنے اور کرسمس پر کیک کاٹنے تک محدود رکھنا ہےیا انھیں ان کے سیاسی ۔ سماجی اور معاشی حقوق بھی دینا ہیں؟

One Comment