ڈی اصغر
جب بھی دسمبرآتا ہے، بندہ تھوڑا اداس ہوتا ہے۔ کیوں کہ سردیوں کے یہ دن پرانے زخموں کو پھر سے تازہ کرتے ہیں۔ گو کہ کئی بار اپنی انگریزی کی تحریروں میں ان المناک واقعات کا تذکرہ کر چکا ہوں اس بار اردو میں کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہے۔ آپ نے اخبارات، رسائل و جرائد میں اور ٹی وی پر ایک اصطلاح ضرور پڑھی یا دیکھی اورسنی ہو گی۔ جسے کہتے ہیں سقوط ڈھاکہ۔ بندہ اس سے شدید اختلاف رکھتا ہے کیوں کہ یہ حقیقت کے منافی ہے ۔
ایک سادہ سا سوال ہے جو بندہ آپ کے گوش گزار بھی کرتا ہے۔ کیا اسقاط صرف ڈھاکہ کا ہوا تھا یا تمام مشرقی حصے کا ؟ کیا چٹاگانگ، کھلنا، کومیلا، مغربی پاکستان سے ملحق رہے تھے؟ جیسے ڈھاکہ کوئی ننھا منا بچہ تھا جو بے چاری ماں کی بے پرواہی سے، ماں کے شکم میں ضائع ہو گیا۔ سو اس بندے کی ناقص رائے میں اسے سقوط مشرقی پاکستان کہا جانا چاہیے۔ اب آئیے ایک اور جھوٹ جو ہمیں جیسے گھٹی میں پلایا گیا ہو۔ ایک اور اصطلاح کو اس واقعے سے منسوب کیا جا تا ہے اور وہ ہے، سانحہ مشرقی پاکستان۔ بھائی ایمانداری سے بتائیے، کوئ کام آپ بقائمی حوش و حواس اور ارادی طور پر کریں، کیا وہ سانحہ ہو گا؟
سانحات عموما حادثاتی طور پر رونما ہوتے ہیں ۔ یہ ظلم، یہ بربریت، یہ سفاکی کوئی غیر ارادی عمل نہیں تھا۔ یہ سب کچھ باقاعدہ سوچ سمجھ کر اور کمال بہیمانہ انداز میں کیا گیا۔ سو اسے سانحے سے تشبیہ دینا، قطعی بے بنیاد اور غلط ہے۔ جو کچھ وہاں ہوا اس کا سوچ کر بھی ، آج 46 برس گزر جانے کے باوجود انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو بد ترین تشدد اور ظالمانہ حرکات کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر یہ سب کیوں؟
کیونکہ نسلی تعصب تھا، پھر یہ خدشات اٹھائے گئے کہ چونکہ بھارت وہاں سازش کررہا تھا ، تو وہاں اسلام کو خطرہ ہے۔ الشمس اور البدر جیسی تنظیموں جو بظاہر مکتی باہنی (فریڈم فائٹر کو بنگلہ زبان میں مکتی باہنی کہا جا تا ہے ) کو جواب دینے کے لئے تشکیل دی گئی تھیں، انہیں ظلم اور بربریت کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ بے گناہ، نہتے، غریب اور لاچار لوگوں کو قتل کر کے لاشوں کے انبار لگا دئے گئے۔ کسی بھی غیر جانبدار خبر رساں ادارے کی وہاں کی کوریج کو بذریعہ گوگل اور دستاویزی فلموں کو بطور شہادت ہو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ سب حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور نا قابل تردید شواہد ہیں۔ تذکرہ ان باتوں کو دہرا کر یہاں کسی کی ہتک قطعأ مقصود نہیں، مقصد صرف ایک ہے۔ کیا اس دلخراش واقعے سے کوئی سبق سیکھا گیا، کیا خدانخواستہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما ہو سکتے ہیں؟ نظر بظاہر نہ کچھ اس سے اخذ کیا گیا اور نہ ہی کوئ ایسا قدم اٹھایا گیا کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ دوبارہ نہ دہرایا جا سکے۔ اس اجتماعی بے حسی کی وجہ یہ ہےکہ ہم اپنی اغلاط کو تسلیم کرنے کے بجائے، حریف ملک بھارت پر سازش کا الزام عائد کر کے، اس سے بری الزمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ جو کہ ایک سنگین غلط فہمی کے مترادف ہے.
کبھی سوچ کےگھوڑے کو دوڑائیے۔آپ اگر اپنے بچوں سے بھی پوچھیں گے جب وہ کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں تو مخالف ٹیم کی حرکات اور ان کی مدافعت پر نظر رکھ کر ہی کسی کھیل میں کامیابی مل سکتی ہے۔یہاں شروع دن سے لفظ سازش کا استعمال اس لئے ہوتا ہے کہ ہاتھ کھڑے کر دیے جائیں اور بس۔ حریف آپ کے خلاف سازش نہیں کرے گا تو کیا آپ کے حق میں نذر و نیاز یا دعوت کا اہتمام کرے گا. یہ توآپ کی قابلیت پر منحصر ہے کہ آپ اس کے ہر ایک قدم اور ہر ایک چال کو کیسے قبل از وقت ناکام بناتے ہیں۔
جو ہوا اس کی تفصیلات کو بندہ دہرائےبغیر یہاں یہ عرض کرنا چاہے گا، کہ یہ قتل و غارت، یہ ظلم و زیادتی قطعی غیر ضروری تھی۔ جب انتقال اقتدار منصفانہ انداز میں نہ کیا گیا، تو رد عمبل جو اس جانب سے ہوا وہ بھی قدرتی تھا۔اس رد عمل کو نقارہ خدا سمجھ کر دانشمندی سے اس حصے کو اس کے اصل حق داروں کے حوالے کر کے، ہم تاریخ میں کچھ اچھی مثال قائم کرسکتےتھے۔
ایک دانش ور ہیں جو ٹی وی کی سکرین پر سیاست دانوں پر گرجتے اور برستے پایے جاتے ہیں. بندہ نثار ہے ان کے انداز بیان پر، مگر جب وہ بھی، ماضی کو یاد کرتے ہیں تو ان کے لبوں سے بھی تعصب کے پھول جھڑتے ہیں– گو وہ تنقید مغربی حصےکے سیاست دانوں پر کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن سابقہ مشرقی حصے کے لوگوں کے قد، رہن سہن، بود و باش، زبان میں تفریق بیان کرتے ہیں تو ان کے لہجے سے تحقیر جھلکتی ہے۔
ان جیسے ٹی وی کے دانشوروں کے لئے بندہ کچھ عرض کیے دیتا ہے۔کبھی پڑوسی ملک کے شمال اور جنوب کے باسیوں کا موازنہ فرمایے۔ کوئی ایک چیز ان کی نہیں ملتی، نہ رنگ، نہ زبان، نہ رہن سہن نہ بود و باش اور کبھی تو مذہب بھی۔ پھر بھی ان میں دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے اپنا تعلق بخوبی قائم رکھے ہوے ہیں۔ ایک تو ان کا وطن بھارت اور دوسری انگریزی زبان۔ جی ہاں جنوب میں اکثریت قومی زبان ہندی نہیں جانتی، اور انگریزی کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ کینیڈا میں بھی ایک صوبہ، کیوبیک ہے جہاں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اور تمام کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی بیک وقت رائج ہیں۔انگریزی کی ایک کہاوت ہے
where there is a will there is way
شاید اس وقت کے زمینی خدا یہ کہاوت بھلا بیٹھے تھے۔
پروپیگنڈا اس موضوع پر روز اول سے ایسا کیا گیا کہ گزشتہ 46 برسوں سے لوگوں کے اذہان پر اس کی مہر ثبت ہو چکی ہے۔ جہاں بھارت کو سازش کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے ، وہاں پر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان توڑا اور ذوالفقار علی بھٹو نے “ادھر تم ادھر ہم” کا نعرہ لگا کر دو لخت کردیا یا اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کرپاکستان کو دو لخت کردیا۔
ان تمام الزامات میں قطعاً کوئی صداقت نہیں ، پھر بھی عوام الناس ان کو آج بھی پورا سچ سمجھ کر من وعن تسلیم کرتی ہے۔ تحقیق کرنا کسی کو گوارا نہیں۔ بندہ اپنے انگریزی کے مضامین میں اس موضوع کوکئی بار زیر بحث لا چکا ہے اور حتی الامکاں لوگوں تک سچائی پہنچانے کی کوشش کر چکا ہے۔ بندہ نہ بھٹو کا رشتے دار ہے نہ ہی کوئی معتقد۔ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کافی غلطیاں کیں لیکن ایسی چیزیں ان کے سر تھوپنا جب وہ بے اختیار تھے، سراسر زیادتی اور بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے ۔
بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان میں نہ ہی” آپریشن سرچ لائٹ” شروع کیا تھا اور اور نہ ہی فوج ان کے زیر اثر تھی۔ پھر نہ ہی بھٹو صاحب نے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالے تھے۔ بھٹو صاحب انتخابات کے بعد ایک مہرے کے طور پریقیناً استعمال ہوئے تھے۔ لیکن یہ وہی بھٹو صاحب تھے جو بنا اختیار کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ پاکستان کا مقدمہ لڑنے گیے تھے۔ جن کاغذات کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہ ان کے نوٹس تھے جو انہوں نے سب کے سامنے غصے میں پھاڑ دیے تھے۔ بندے نے جب انگریزی مضمون لکھا تھا تو اس وقت اقوام متحدہ میں جو پاکستان کے صحافی اس وقت بطور خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے نمائندے وہاں موجود تھے، انہیں نے یہ حقیقت راقم سے بذریع ای میل بیان کی اور وہ ای میل اس ناچیز کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔
رہی بات نعرے کی، تو ملک کے مقبول اور معتبر ترین صحافی، جناب نصرت جاوید اپنے ایک پروگرام میں جناب عباس اطہر کو بذریعہ فون مدعوکر چکے ہیں۔ عباس اطہر صاحب وہ صحافی تھے جنہوں نے “ادھر تم ادھر ” والی سرخی اپنے اخبار لگائی تھی۔ بعد میں اس سرخی کو بھٹو صاحب کا لگایا نعرہ جس کے باعث، مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا بنا کر پیش کیا گیا۔ نصرت جاوید کے پروگرام کا کلپ آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے . بالفرض محل ایک لمحے کو مان بھی لیا جائے کہ ایسی کوئی بات بھٹو نے کی بھی تھی تو کیا آپ کا خیال ہے کہ بس اس نعرے کے لگتے ہی شیخ مجیب نے الگ ملک کا مطالبہ کر دیا۔
بات سرخی کی ہو رہی ہے تو امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر، جناب حسین حقانی ہر سال اس موقع پر16 دسمبر1971 کے انگریزی اخبار کی سرخی بطور یاد داشت ٹویٹ کرتے ہیں. یہ وہ دن ہے جب ذلت آمیزشکست کا اعتراف کرتے ہوئے، جنرل ایے کے نیازی نے پسپائی کے معاھدہ پر دستخظ کیے تھے اوراخبار کی سرخی تھی “فتح تک جنگ جاری رہے گی۔” کیا 46 سال بعد بھی ہمارے اعمال میں، قول اور فعل میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ فیصلہ ان سوالات کا یہ عاجز لکھاری قارئین پر چھوڑتا ہے۔
♦
One Comment