بیگم کلثوم نوازصا حبہ اگست 2017 میں حلقہ این اے 120سے منتخب ہوجانے کے بعد سے بوجہ علالت دمِ تحریراسمبلی سے غیرحاضر چلی آرہی ہیں۔آپ منتخب ہوجانے کے بعدبطورممبراسمبلی حلف بھی نہیں اٹھا سکی ہیں۔امید اوردعا ہے کہ وہ جلدشفایاب ہوکراپنے گھر اوروطن واپس تشریف لے آئیں گی۔
بیگم کلثوم نوازکا جو مرض ( لِمفوما)تشخیص ہوا ہے وہی مرض آسٹریلیا کی ریاست کوئینزلینڈکی پہلی خاتون وزیراعلیٰ محترمہ اینا بلائیگ کو بھی لاحق ہوا تھا،کیموتھیراپی کے بعد اب وہ تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہیں اورپھر سے رفاہ عامہ کے کاموں میں مصروف ہوگئی ہیں تاہم مرض کی تشخیص کی تصدیق اور اس کے باضابطہ اعلان سے چند ماہ قبل انہوں نے پارلیمنٹ سے ہی نہیں اپنی سیاسی جماعت بلکہ سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کرلینے کا غیر متوقع اعلان کردیا تھا۔اس کی وجہ ان کی گرتی ہوئی صحت کے علاوہ کچھ اوربھی تھی لیکن انہوں نے بتایا کہ وہ اسمبلی میں اپنی نشست کسی ایسے امیدوار کے لئے ازخود خالی کررہی ہیں جو اس ذمہ داری سے بہترطور پر عہدہ برآ ہو سکے۔
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دی تھی کہ بیگم کلثوم نواز کی اسمبلی سے مسلسل غیرحاضری اور اسی طرح ممبر اسمبلی منتخب ہوجانے کے کئی ماہ بعد بھی حلف نہ اٹھاسکنے کے بارہ میں رہنمائی کی جاوے۔مقصد یہ تھا کہ الیکشن میں ان کی جیت کواس بناپر کالعدم قراردلوا دیا جائے۔جواب میں بتایا گیا کہ منتخب ہوجانے کے بعدرکن اسمبلی کے لئے حلف اٹھانے کے لئے کسی خاص مدت کی پابندی قانون میں موجود نہیں۔غیرحاضررکن کی نشست کوبلاجوازمحض اس کی غیرحاضری یاحلف نہ اٹھانے کی بناپر خالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دنیا کے کئی دیگرممالک میں بھی ایسا ہی قانون موجود ہے۔آسٹریلیا ہی کی ایک مثال موجودہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں ایک ممبر اسمبلی جو الیکشن تو جیت گئے تھے لیکن بحیثیت ممبر اسمبلی حلف اٹھانے سے قبل فوج میں رضاکارنہ طور پر بھرتی ہوگئے اور بیرون ملک ایک محاذ پہ بھیج دئے گئے جہاں وہ جنگی قیدی بنا لئے گئے تھے۔آپ لگ بھگ دو سال دشمن کی حراست میں رہے اور اس تمام عرصہ میں پارلیمنٹ میں آپ کی نشست آپ کے نام پہ برقراررکھی گئی۔
بیماری اور حراست وغیرہ توخیر قدرتی اور ناگہانی آفات ہیں لیکن ایسی دلچسپ مثالیں بھی ہیں جب بعض ممبرانِ اسمبلی منتخب ہوجانے کے بعدنظریاتی وجوہات کی بنا پر احتجاجاًحلف ہی نہیں اٹھاتے اورایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک ان کی نشستیں ان کے نام پر یونہی برقرار رہتی ہیں۔قواعد کی رو سے حلف نہ اٹھانے والے ممبر کو اسمبلی کے کسی اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی لیکن اس کی مرضی کے بغیر اس کی ممبر شپ کینسل نہیں کی جاسکتی۔اس کی نمایاں مثال برطانوی دارالعوام کے آئرش قوم پرست ممبران پارلیمنٹ ہیں جن کا تعلق آئی آر اے اورکالعدم چھاپہ مارتنظیم شن فِین سے ہے۔ان کا مؤقف ہے کہ وہ ایسا کوئی حلف اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے جو ’’غیرآئرش‘‘ تاجِ برطانیہ کی وفاداری کے اعلان پر مشتمل ہو۔نتیجتاً اصولوں پہ سمجھوتا نہ کرنے والے یہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ سے مسلسل غیرحاضر رہتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی نومنتخب شدہ ممبر قومی اسمبلی بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی۔سوال یہ ہے کہ اگروہ وطن واپس آکرقومی اسمبلی میں حلف اٹھا بھی لیتی ہیں تو کیاوہ باقاعدگی سے قومی اسمبلی کے اجلاسات میں شرکت بھی کیا کریں گی یانہیں۔اس کا انحصار بڑی حد تک ان کی صحت پرتو ہوگا ہی لیکن ان کے موڈ اور مرضی پر بھی ہوگا۔ان کے شوہرِنامدارمیاں نوازشریف صاحب صحت مند اور لیڈرآف دی ہاؤس یعنی وزیراعظم ہوکر بھی قومی اسمبلی کے اجلاسات میں شرکت کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے اور اس حوالہ سے پوراایوانِ پارلیمنٹ ان سے بزبان حال شاکی ہی رہتاتھا۔گو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک قراردادجس کامقصد وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے تمام اجلاسات میں شرکت کرنے کا پابند بناناتھا،ان کی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ نے کثرت رائے سے ناکام بنادی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق میاں نوازشریف کی قومی اسمبلی میں کل حاضری کی شرح 6 فیصد سے بھی کم رہی۔یہی حال عمران خان کا رہا ہے جو اکثر مغربی جمہوری ممالک کی مثال دیتے رہتے ہیں۔ممبراسمبلی منتخب ہو جانے کے بعدعمران خان اسمبلی میں کم اورسڑکوں پہ زیادہ نظرآتے رہے ہیں۔ ان دونوں کے برعکس قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ باقاعدگی سے قومی اسمبلی کے اجلاسات میں شرکت کرتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق وہ قومی اسمبلی کے 98 اجلاسات میں سے 71 اجلاسات میں شریک ہوئے جبکہ میاں نواز شریف صرف نو اور عمران خان محض پانچ ا جلاسات میں شریک ہوئے۔
برطانوی وزراء اعظم کی پارلیمنٹ میں حاضریوں کا تناسب مارگریٹ تھیچر سے لیکر ڈیوڈ کیمرون تک اٹھاسی فیصد تا پچانوے فیصد تک رہا ہے۔لگ بھگ یہی شرح وہاں کے قائدین حزب اختلاف کی بھی رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی طرح وہاں بھی ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو اراکین پارلیمنٹ کو لازمی حاضری کا پابند کرتاہو لیکن وہ لوگ جمہوری اداروں کی پاسداری میں ،اپنے حلقہ کے ووٹرزکے عطاکردہ مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اور اپنے ضمیر کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے بحیثیت ممبر پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں اورمراعات کو حق حلال کی کمائی میں بدلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔کوئی بھی جمہوریت اور جماس کے ادارے اس اعلیٰ معیار کے احساسِ ذمہ داری اورجذبۂ فرض شناسی کے بغیر نہیں پنپ سکتی۔
قارئین یہ تو تھا ذکر پاکستانی اسمبلیوں میں اراکین پارلیمنٹ کی ’’جسمانی ‘‘حاضریوں کا۔ معدودے چند وہ اراکین جو کسی طور ایوان پارلیمنٹ میں بنفسِ نفیس جلوہ گر ہونے کا تکلف گوارا کرکے قوم پر احسان کربھی دیتے ہیں ،کیا وہ قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی کارروائی کے دوران ذہنی طور پر بھی حاضر یاموجود رہتے ہیں یانہیں یہ بیک وقت ایک مضحکہ خیز،شرمناک اور تلخ داستان ہے۔اعدادوشمار کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ایک سو دس اراکین قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے منتخب ہوجانے اور حلف اٹھانے کے بعد سے آج تک اسمبلی کے کسی اجلاس میں کبھی کچھ ارشاد نہیں فرمایا، نہ کبھی وقفہ سوالات میں کسی قسم کا کوئی سوال کرنے کی زحمت گوارا کی۔بت کے بت بنے صم بکم عمی فھم لایعقلون(گونگے ہیں،بہرے ہیں ،اندھے ہیں پس عقل سے عاری ہیں) کی عملی تفسیر بنے رہتے ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں کا حال اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔حاضریوں کا تناسب ہو یا بجٹ اجلاس کے دوران خراٹے لیتے رہنے کا ریکارڈ ہو،پاکستانی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اس میدان میں دنیا بھر میں ایک خاص امتیاز اور شان کے حامل نظرآئیں گے۔وجۂ المیہ یہ ہے کہ ان غائب دماغ نااہلوں کو منتخب کروانے والے حاضردماغ پاکستانی ووٹر کبھی اپنے محلے کی نالی پختہ کروانے کے لئے یا محلے کے میٹر ریڈر کو تبدیل کروانے کی یقین دہانی پر جتوا دیتے ہیں توکبھی موٹر سائیکل یا موبائل فون کی رشوت لے کر۔
ایک اسلامی سکالرنے اس قسم کے ووٹروں اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے بارہ میں درست فرمایا تھاتھا کہ زہریلے دودھ کو بلونے سے جو مکھن نکلے گا وہ سم قاتل ہی ہوگا۔
♦