رعایت اللہ فاروقی
کیا آپ نے کبھی یہ بات محسوس کی کہ کافی عرصہ ہوا میں نے فوجیوں کی شہادت پر اظہار افسوس یا خراج تحسین والی پوسٹیں لکھنی چھوڑ دی ہیں ؟ میں تو عام آدمی ہوں کیا آپ نے کبھی یہ غور فرمانے کی زحمت کی کہ اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیرپاؤ اور محمود خان اچکزئی بھی اس نوعیت کا کوئی اخباری بیان جاری نہیں کرتے ؟
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ شہادت کے ہر واقعے پر پنجابی اور سندھی لیڈر ہی خراج عقیدت والے بیان کیوں جاری کرتے ہیں اور پختون و بلوچ رہنماء کیوں نہیں کرتے ؟ چلئے میں سمجھاتا ہوں
مجھے کچھ عرصہ قبل سوات میں واقع فوجی چیک پوسٹوں سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہ عرصہ تھا جب میں پنڈی میں واقع اپنے گھر سے پاک فوج اور اس کے آپریشنز کی حمایت میں دن رات پوسٹیں کیا کرتا تھا۔ ایک چیک پوسٹ پر طویل قطار میں لگی ہماری گاڑی کا نمبر آیا تو چونکہ مہینہ جولائی کا تھا سو اے سی آن تھا اور شیشہ چڑھا ہوا تھا۔ گاڑی فوجی جوان کے قریب پہنچی تو شیشہ نیچے کرلیا۔ اس فوجی نے مجھ سے کہا
“شیشہ چیک پوسٹ تک پہنچنے سے پہلے نیچے ہوجانا چاہئے، اگلی بار ایسا نہ ہوا تو بٹ مار کر شیشہ توڑ دوں گا“
میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس فوجی کی یہ بکواس کسی خنجر کی طرح آج بھی میرے دل میں پیوست ہے۔ اور یہ زخم بھرنے کا نام نہیں لیتا۔ اسی سفر میں جب میں سوات سے شانگلہ میں داخل ہوا تو رات دس بجے کا وقت تھا۔ ایف سی چیک پوسٹ پر ہم پہنچے تو سپاہی نے آکر پہلے سلام کیا اور پھر پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جانے کا قصد ہے ؟ ہم یہ بتاچکے تو اس نے کہا
“چائے بالکل تیار پڑی ہے، ایک ایک کپ پی لیں آپ کا سفر آسان ہوجائے گا“
کیا آپ جانتے ہیں فوجی اور نیم فوجی کے رویے میں یہ زمین و آسمان کا فرق کیوں تھا ؟ کیونکہ فوجی پنجابی تھا اور ایف سی والا پختون۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں بکواس کر رہا ہوں تو وقت نکالئے اور اس ملک کے عظیم تر قومی مفاد میں میرے ساتھ ان علاقوں کا بھی سفر کر لیجئے جہاں چیک پوسٹوں پر فوج کا پنجابی افسر و جوان کھڑا ہے اور ان علاقوں کا بھی سفر کر لیجئے جہاں چیک پوسٹ پر ایف سی یا چترال سکاؤٹس کے افسر اور جوان کھڑے ہیں۔ اگر آپ کو فرعونیت اور انسانیت جتنا واضح فرق نظر نہ آیا تو اسی لمحے میرے منہ پر تھوک دیں اور میں مر جاؤں تو مری قبر پر پیشاب کر ڈالیں۔
اس فوج نے اب اپنی فرعونیت میں ایک نئی جدت پیدا کی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس علاقے میں ان پر دہشت گرد حملہ کردیں یہ آدھی رات کو اس علاقے کا گاؤں گھیر کر عورتوں بچوں اور بوڑھوں سمیت سب کو ٹھٹرتی سردی میں گھروں سے باہر نکال کر ان کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں اور پھر پورے گاؤں کے ساتھ تذلیل کے وہ تمام حربے اختیار کئے جاتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی کرتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس پوسٹ کے نتائج مجھے بھگتنے پڑیں گے مگر مجھے نہیں چاہئے یہ ذلت والی زندگی، بیشک میری کھال اتار اس میں بھس بھر دی جائے مگر اس فوج کی تذلیل قبول نہیں کروں گا جس کے پنجابی اور سندھی افسر و جوان بھیجے ہی میرے علاقوں میں اس لئے جاتے ہیں کہ وہ مجھے اپنے تعصب کا نشانہ بنا سکیں۔
ہر بار فوجی لاشیں پنجاب، سندھ، یا کسی بھی غیر پختون علاقوں میں کیوں جاتی ہیں ؟ اس لئے کہ بھیجے ہی غیر پختون جاتے ہیں تاکہ ہمدردی کا امکان بھی باقی نہ رہے۔ میں آپ پنجابی دوستوں سے دست بستہ گزارش کر رہا ہوں کہ اس پوسٹ میں میں جان پر کھیل کر آپ کو باخبر کر گیا ہوں، آج تو صورتحال یہ ہے کہ ہم پنجابی فوجی کی قربانی کو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد پوری پختون قوم اور پنجابی فوج آمنے سامنے ہوگی۔
ہمارے لئے ٹی ٹی پی اور پنجابی فوج میں کوئی فرق ہے تو بس یہ کہ ٹی ٹی پی ہمارے وجود کو زخمی کرتی ہے اور پاک فوج ہماری روح کو۔ پلیز اس سلسلے کو رکوائیں۔ مجھے تو وہ متعصب یا دہشت گرد قرار دے کر مار دیں گے اور آپ پوسٹ میں یہی لکھیں گے کہ “ہم رعایت اللہ فاروقی کو کیا سمجھتے تھے اور وہ نکلا کیا ؟ اچھا کیا پاک فوج نے ماردیا” لیکن جب آپ پنجابی دوست اس مسئلے کو اٹھائیں گے تو کوئی بھی آپ کو متعصب یا دہشت گرد ہونے کا الزام نہیں دے گا۔
محض میری ہی گزارشات پر بھروسہ نہ کیجئے بلکہ وقت نکال کر ان علاقوں کا وزٹ کیجئے۔ اور ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ وزٹ کے لئے آئی ایس پی آر کے ہیلی کاپٹر پر نہ جائیے گا ورنہ آپ صرف وہی دیکھ پائیں گے جو جنرل آصف غفور آپ کو دکھانا چاہے گا۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عامر خاکوانی اور آصف محمود و دیگر پنجابی دوستوں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اس مسئلے پر آواز بلند فرمائیں !
(نوٹ: اٹھانے والوں سے گزارش ہے کہ گاڑیاں بھیج کر قوم کا پٹرول ضائع نہ کیجئے گا، فون کردیں خود آجاؤں گا)
♦
رعایت اللہ فاروقی روزنامہ 92نیوز میں کالم نگار ہیں اور یہ مضمون ان کے فیس بک پیچ سے لیا گیا ہے۔۔۔۔