ایران میں جمعرات سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اب ملک کے دیگر بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شمال میں راشت اور مغرب میں کرمانشاہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ شیراز، اصفہان اور ہمدان میں مظاہرین کی تعداد کم ہے۔
یہ احتجاج شروع تو بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ہوئے لیکن بعد میں یہ بڑھ کر عالم دین کی حکومت پر کیے جانے لگے۔
ایران کے دارالحکومت تہران میں چند افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ایران کی لیبر نیوز ایجنسی کو بتاتے ہوئے تہران کے سکیورٹی افیئرز کے نائب گورنر جنرل نے کہا کہ یہ لوگ ان 50 افراد میں شامل تھے جو شہر کے مرکزی مقام پر جمع ہوئے۔
گورنر جنرل نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس طرح کہ کسی بھی اجتماع سے پولیس کے ذریعے نمٹا جائے گا۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے2009 میں ہونے والے احتجاج کے بعد سب سے زیادہ شدید احتجاج ہیں اور اس کے ذریعے عوامی بے چینی نظر آ رہی ہے۔
کچھ تجزیہ نگار اسے مُلا کنٹرولڈ جمہوریت کے خلاف بغاوت بھی قراردے رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے غیرقانونی اجتماع کے خلاف وارننگ جاری ہونے کے باوجود ملک بھر سے سوشل میڈیا پر احتجاج کی کالز دی جا رہی ہیں۔
جبکہ جمعے کو ہونے والے احتجاج کی ویڈیوز جو سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں ان میں سکیورٹی فورسز اور بعض مظاہرین کے درمیان کرمانشاہ میں ہونے والی جھڑپیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ان مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر حسن روحانی کی حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور صرف ایک ہی ہفتے میں انڈوں کی قیمتیں دوگنا بڑھ گئیں۔
تاہم بعض مظاہروں کا دائرہ کار بڑھ کر حکومت مخالف احتجاج تک پھیل گیا، اور سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پولیس کی جانب سے مار پیٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
اس دوران مشہد میں ’نہ لبنان، نہ غزہ، میری زندگی ایران کے لیے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس حوالے سے مظاہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی تمام تر توجہ ملکی مسائل کی بجائے خارجہ پالیسی پر مرکوز ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’مشہد میں اس لیے گرفتاریاں عمل میں آئیں کیونکہ وہ سخت نعرے بازی کر رہے تھے۔‘
BBC/News Desk