طارق احمدمرزا
قارئین کرام جب ہندو کے ڈر سے بالآخر پاکستان بن گیا تواس کے بعد پاکستانی مسلمان اطمینان کے ساتھ بلا خوفِ ہندو ایک دوسرے کی خبر لینے کے لئے کمربستہ ہوگئے۔پہلی فرصت میں احمدیوں (قادیانی،لاہوری)کو غیر مسلم قرار دلوا دیا اوراب انڈونیشیا کی طرح شیعوں کا ناطقہ بند کروانے کی خاطر ملک کو سنی سٹیٹ اور سنی سٹیٹ کے بعدبریلوی سٹیٹ قرار دئے جانے کی سکیمیں اندر ہی اندر پنپ رہی ہیں۔
مفسرِکلامِ اقبال ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم صاحب نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھاکہ ایک مخصوص سوچ کے حامل مذہبی سکالر اسی نیت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے کہ اپنے لئے ایک الگ مملکت کا حصول ممکن بنانے والے ان پاکستانیوں کو فرقہ واریت اور تکفیرو ارتداد کے جھمیلوں میں پھنسا کر انہیں چھٹی کا دودھ یادکروادیا جائے۔آپ لکھتے ہیں:۔
’’ مُلاکو کبھی تبلیغِ اسلام کی توفیق نہیں ہوئی۔اسے مومنوں کو کافر بنانے سے فرصت نہیں۔فلاں کے پیچھے نماز پڑھی تو کافریابیوی کو طلاق،فلاں فرقہ واجب القتل ،فلاں واجب التعزیر۔پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے مجھ سے حال ہی میں بیان کیاکہ ایک ملّاء اعظم اور عالم مقتدر سے،جو کچھ عرصہ ہوابہت تذبذب اور سوچ بچارکے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے ہیں،میں نے ایک اسلامی فرقے کے متعلق دریافت کیا۔انہوں نے فتویٰ دیا کہ ان میں جو غالی ہیں،وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ایک اور فرقے کی نسبت پوچھا جس میں کروڑپتی تاجر بہت ہیں،فرمایا کہ وہ سب واجب القتل ہیں۔۔۔انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے،اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی‘‘۔(اقبال اور ملا۔مصنفہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم۔ایڈیشن ہشتم، شائع کردہ بزمِ اقبال۔نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہورصفحہ ۱۹)۔
پاکستان میں ایک دوسرے کی خبر لینے کا یہ عمل توخیر سے مذکورہ مذموم پروگرام کے عین مطابق رواں دواں ہوچکاہے جس کی جھلک امیرالمجاہدینِ دھرنااسلام آباد المعروف’’ مولانا پین دی سری‘‘(جو جسٹس شوکت صدیقی کے نزدیک توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں) کی تائید میں کی گئی سیدغلام نظام الدین جامی سرکارکے شرکا ء دھرنا سے خطاب میں صاف دکھائی دی جب انہوں نے دیوبندیوں کے بار ہ میں ارشاد فرمایا’’کہ ان کے اکابرین نے توخود مرزا صاحب کو نبوت کا رستہ دکھایا تھا‘‘۔
ادھرہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس ’’کارِخیر‘‘سے محرومی کا احساس بابری مسجدکی وراثت کے شیعہ اور سنی دعویداروں کی خطرناک اور شرمناک چپقلش کی صورت نظر آیا ہے۔دونوں ہی اس طاق اور انتظارمیں ہیں کہ کب ہندو اپنے حق یا دعویٰ سے دستبردارہوتاہے اورکب ہم اس پر بلا شرکت غیرے قابض۔ لیکن یہ تو تب ہی ہوگا اگر بھارتی سپریم کورٹ اس عمارت کو رام جنم بھومی مندر کی بجائے بابری (یا عالمگیری)مسجد تسلیم کرکے اسے مسجدقرار دے دے۔اس کا فیصلہ توابھی ہوا نہیں لیکن بھارتی شیعہ اور بھارتی سنی وقف بورڈز دونوں نے اس مسجد پہ اپنی اپنی ملکیت کا دعویٰ پہلے ہی کردیاہواہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے اس ’’خدشہ‘‘ کا اظہارکیا جا رہاہے کہ مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا سامان کرنے اور ان کی اس باہمی فرقہ واریت کو دنیا بھر میں تماشہ بنانے کیلئے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں دے دیا جائے گاتا کہ پہلے شیعہ اور سنی اس مسجد کی ملکیت پر ایک دوسرے کے خون کی ندیاں بہادیں ،اتنی جو رام مندر کے دعویداروں نے بھی اب تک نہ بہائی ہوں۔ اور پھردوسرے مرحلے میں سنی مسلمان(اگر وہ اس مسجد پہ قابض ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو) اس مسئلے پہ ایک دوسرے کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیں کہ اس کے ماتھے پہ ’’یا اللہ ۔یا محمد‘‘ لکھنا جائز ہے یا صرف’’اللہ۔محمد‘‘۔
واضح رہے کہ پچھلے دنوں چھ دسمبر کو بابری مسجد کے ا نہدام کی ایک کوشش کو ربع صدی پوری ہوئی تھی۔اس پردعویٰ ملکیت کاکیس بھارتی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے جس کی اگلی سماعت 8 فروری 2018کو ہوگی۔
اس سے قبل 1946 میں اسی قسم کے ایک مقدمہ کے فیصلہ میں بابری مسجد کو ’’سنی مسجد‘‘ قراردیدیا گیا تھا ۔شیعہ فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجدمغلییہ فوج کے جس جرنیل نے اپنی نگرانی میں تعمیرکروائی تھی وہ شیعہ تھاجبکہ سنی فریق کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے نگران ، انجنیئر یا معمار جو بھی تھے بنوائی تو سنی العقیدہ بادشاہ نے ہی تھی۔
کوئی ہے جو ان فریقین سے پوچھے کہ مسجدنبوی کو تعمیر کروانے والا پیغمبر شیعہ تھا یا سنی ؟؟َ۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
♥
2 Comments