آج ایک دوست اسلام آباد ہوٹل میں جاوید ہاشمی کی کتاب “زندہ تاریخ” کی تقریبِ رونمائی پر لے گئے۔ تقریب میں رضا ربانی، خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان، سیدہ عائشہ، عبد اللہ گل (جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے صاحبزادے)، جاوید ہاشمی، اور کچھ دیگر سیاسی مقررین شامل تھے۔ تقریب میں بہت سوں نے کتاب پڑھے بغیر کتاب پر تبصرہ کا حق ادا کردیا۔
پس ثابت ہوا کہ پاکستان کی “زندہ تاریخ” واقعی زندہ ہے۔ چند ایک نے تو یہ دعوی بھی کر دیا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہاشمی صاحب نے اپنے ملک کی تاریخ کے اس واقعہ کا تذکرہ بھی اپنی اس کتاب میں ضرور کیا ہوگا۔ سیاستدانوں کی لکھی گئی سیاسی کتابوں پر سیاسی تبصروں کے لئے کتاب کے پڑھنے جانے سے زیادہ سیاسی تقاریر اور اُن میں بھی ملکی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرنے سے بات بن ہی جاتی ہے اور یوں یہ محاورہ ” بات بنتی نہیں ساغر و مینا کہے بغیر” سفید جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے۔
کی گئی تقاریر سے جو کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ سیاستدان اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آرہی۔ اب یہ ریشہ دوانیاں عدلیہ کے ذریعے سے کی جارہی ہیں ۔ سیاستدانوں کو کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر بدنام کیا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کوٹکڑوں میں بانٹا جارہا ہے۔ ختمِ نبوت کی آڑ میں مسلح لشکروں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔
زیادہ تر سیاستدانوں نے “من توراحاجی بگویم تو میرا حاجی بگو” کے علاوہ جو کام کیا وہ سامعین کو یہ باور کرنا تھا کہ سیاستدانوں سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن سیاستدانوں کا احتساب عوام کرسکتے ہیں، اس کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کو ہے اور نہ ہی عدلیہ کو۔ یہاں عدلیہ کے ایک جج صاحب جن کا نام پانامہ لیکس میں موجود ہے کے احتساب نہ کئے جانے کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔
یہ معلومات بھی دی گئیں کہ سب جرنیل سروس کے بعد امریکہ بھاگ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں آئین کے آرٹیکل دو اے، تین اے اور 31 اور قراردادِ پاکستان کو ساتھ ملا کر پڑھنے کی معلومات بھی دی گئیں۔ پھر آئین کے آرٹیکل 256 کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ آخر پاکستان کی اکثریت مسلم ہونے اور اس کے آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیئے جانے کے باوجود کس سے اور کیوں خطرہ ہے۔
پھر یہ بھی سب نے دیکھا کہ کون کس طرح ایسے مسلح لشکروں کو اپنے آدمی کہہ رہا تھا۔ الغرض ایک روایتی شکایتی اندازتھا اور تمام سیاستدان اُسی لکیر کو پیٹے جارہے تھے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے شکایات کا ایک دفتر کھول دیا گیا۔ اس دفتر کے کھولے جانے پر کسی بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔سامعین اور ان کے ذریعے سے عوام تک جو پیغام پہنچائے جانے کی کوشش کی جارہے تھی وہ یہ تھی کہ جو لوگ ملک و قوم کی ترقی کے لئے کام کررہے ہیں، اُن کو کام ہی نہیں کرنےدیا جاتا۔
البتہ جوشِ خطابت میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اب وہ ملک میں کسی غیر آئینی اقدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ اب ملک میں آئین و قانون ہی کی حکمرانی ہوگی۔ خواجہ سعد رفیق نے یہ بھی فرمایا کہ سیاست قیادت کو بنتے بنتے تیس تیس سال لگ جاتے ہیں۔ وہ عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں اور عوام ہی ان کا احتساب کرتے ہیں۔
اس “زندہ تاریخ” سے مجھ جیسے خاموش سامع کے لئے جوسبق پوشیدہ تھا وہ یہ تھا کہ اداروں کے درمیان اختیارات کا توازن، اس کے لئے فضا کا ہموار کیا جانا، بدعنوانی کا خاتمہ، سیاسی پارٹیوں میں شفافیت اور اقتدار کی عدم مرکزیت اور مرکوزیت جن کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے، عوامی نمائندوں ہی کا کام ہے۔
یہ کس طرح سے ہونا چاہئے، اس مقصد کو کس طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے کیا حکمتِ عملی اور طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں، یہ انہی منتخب نمائندوں کا کام ہوتا ہے۔ اس کا تسلی بخش جواب بھی یہی دے سکتے ہیں اور انہی کو ہی دینا چاہئے۔
لیکن اقتدار میں آنے کے بعد طاقت کے نشے میں غرق ہوجانا، مطلق العنانیت قائم کرنا، بیرونی قرضے لینا، قرضے معاف کرانا، اعلٰی عہدوں حتیٰ کہ اعلیٰ عدلیہ تک میں ججز کی تقرریوں کے لئے اپنے اپنے نااہل لوگوں کو تعینات کرنا، مزدوروں، طلبا اور نچلے درجے کے ملازمین کے سیاسی و سماجی حقوق غصب کرنا وغیرہ وغیرہ وہ سیاسی سوالات ہیں جن کا جواب صرف سیاست دان ہی دے سکتے ہیں، ان کا جواب اسٹیبلشمنٹ نہیں دے سکتی۔ البتہ شکایتی انداز اپناتے ہوئے بلی کی بلا تویلے کے سر ڈالی جاسکتی ہے۔
لیکن عملاً ہوتا یوں ہے کہ اس طرح کے تمام معاملات میں عوام سے کوئی مشاورت کی جاتی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ان کی کوئی مشاورت کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسے تمام فیصلے بالا بالا کرلئے جاتے ہیں۔ اگر کسی بات کے لئے عوام یاد آتے ہیں تو وہ یہی روایتی جملے ہیں کہ گزشتہ سترسالوں سے پاکستان میں جمہوریت کو موقع نہیں دیا جارہا۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کو فوج کے بارے میں یہ گمان ہے کہ کیک بیکس اور فوج کی کارپوریٹو کریسی کی وجہ سے اب یہ جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں ہے، اس لئے اس کے پاس اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی مستقل خواہش پیدا ہوگئی ہے۔
اس کے برعکس فوج کو یہ زعم ہے کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہیں، یہ بدعنوان، نالائق اور نااہل ہیں، ان میں ملک کو چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یہ بلڈی سویلین ملک ہی کا سودا کربیٹھیں گے، اس لئے ملکی سلامتی کے لئے جمہوریت اور آئین وائین کو قربان کرکے اقتدار پر براجمان ہوجانا اور ملک کو سیدھی راہ پرڈالنا بھی صرف انہی کے بس کی بات ہے۔
دونوں کے بیانیوں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے، اس بعد المشرقین کو عوام نے نہیں بلکہ سیاستدانوں نے ختم کرنا ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے جب تک عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی، نہ فوج اور نہ ہی سیاست دان ملک کے الجھے ہوئے مسائل کی گتھی سلجھا سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو جتنا جلد اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان سمجھ لیں، اتنا ہی بہتر ہو گا۔“۔
♥