سِول سوسائٹی کی قوّتِ متحرکہ انسانی ضمیر کی آواز اور فکری بیداری ہوتی ہے۔ زندہ معاشروں میں چونکہ سوچ و فکر کی آزادی ہوتی ہے، جان کو خطرات لاحق نہیں ہوتے، لہذا ایسے معاشروں میں سِول سوسائٹی بہت فعال اور کارآمد ہوتی ہے۔ جبکہ ظلم و جبر کا شکار معاشروں میں سوچ و فکر آزاد نہیں ہوتی، جان کو خطرات ہوتے ہیں، لہذا یہی سِول سوسائٹی خوف کا شکار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ سِول سوسائٹی غیر جانبدار ہوتی ہے، لہذا اسے کسی پریشر گروپ ، کسی طاقتور مافیا، کسی سیاسی جماعت، کسی مذہبی تنظیم یا کوئی ریاستی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔
اس صورتحال میں سِول سوسائٹی کو بہت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سِول سوسائٹی بہت غیر محفوظ ہے۔ پاکستان میں سِول سوسائٹی کو چاروں طرف سے چیلنجز ، خطرات اور مخالفت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سِول سوسائٹی کو ریاستی اداروں، مذہبی تنظیموں، انتہا پسند اورجہادی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب اپنی اور اہلِ خانہ کی سلامتی کا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ یہی استحصالی طبقات ہوتے ہیں، اور سِول سوسائٹی ان ہی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ ۔
پاکستان میں سول سوسائٹی بہت زیادہ منظّم تو نہیں ، مگر کچھ حد تک فعال ضرور ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ریاستی جبر و تشدّد ، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشوں ، مذہبی و ریاستی دہشت گردی اور ریاست کی سرپرستی میں “تزویراتی اثاثوں ” کے نام پر مذہبی انتہا پسندوں، جہادی گروپوں اور طالبان کی سرگرمیوں کے موضوعات پر انسانی حقوق کے عمل پرستوں اور سِول سوسائٹی کے کچھ نڈر اور بے خوف لوگوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنی آواز بلند کی ہے۔
مگر ان تمام مسائل پر منظّم احتجاج اور بلند آہنگ مخالفت سِول سوسائٹی کی طرف سے کبھی اس طرح سے نہیں کی گئی جیسا کہ زندہ معاشروں کا دستور ہوتاہے۔ سِول سوسائٹی کی اِس پرسرار خاموشی و چشم پوشی نے پاکستان میں سول سوسائٹی کے کردار، فعالیت اور جانبداری پر بھی کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ اور یہ بے حِس رویّہ بہت ہی حیران کُن ہے۔ یہ قومی اخلاقی جرم ہے، جسے تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرسکے گی۔ پاکستان میں سوِل سوسائٹی کو اس الزام سے بری ہونے کے لئے فعال اور متحرّک اور غیر جانبدار ہونا ہوگا۔
مگر ٹھہر جائیے، یہ سکّے کا صرف ایک رخ ہے۔ سکّے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں، جنون، وحشت اور بربریت کا دور ،دورہ ہے۔
کسی بھی معاشرتی مسئلے پر سوال اٹھا نا ، منطقی بات کرنا، دلیل اور گفتگو کا کا راستہ اختیار کرنا، احتجاج کرنا اور ریاستی بیانیے کے خلاف بات کرنے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔
ریاستی اداروں کی سرپرستی میں پلنے والے “تزویراتی اثاثے” نامعلوم مسلّح افراد کے رُوپ میں سول سوسائٹی کی طرف سے احتجاج کرنے والوں اور مسائل اٹھانے والے عمل پرستوں کو بڑی سنگدلی اور بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ خرّم ذکی اور سبین محمود اور پروین رحمان کی سفّاکانہ موت اس امر کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
پاکستان میں سوِل سوسائٹی کے لوگ حق بات کرنا تو چاہتے ہیں۔ مگر جان کے خوف سے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جان ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔ خود ہمارے پیارے نبی تاجدار دو عالم، سرورِ کائنات، نبیِ آخری الزماں حضرت محمّد کو حق کی دعوت دینے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی پاداش میں اپنی جان بچانے کے لئے اللہّ کے حکم سے مکّہ سے مدینہ ہجرت کرنا پڑی تھی۔
اس مرحلے پر اہلِ دانش سے میرا یہ سوال ہے کہ پاکستان کی تمام سوِ ل سوسائٹی باطل کے سامنے ڈٹ جانے اور حق بات کرنے کے لئے اپنے نبی کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے،ہجرت کرکے کہاں جائے؟؟؟،جہاں سوِ ل سوسائٹی کے عمل پرستوں کی جان محفوظ ہو؟ ؟؟
♦
One Comment