عامر راہداری
شیدے کی نئی نئی شادی ہوئی ، بیوی خوبصورت تھی ۔ شیدے کا زیادہ وقت پہلوانی کرتے اکھاڑے میں گزرتا تھا ۔شیدے کی بیوی کا شادی سے پہلے ایک مولوی سے چکرچل رہا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد شیدے کے گھرسے باہر رہنے کا فائدہ اٹھا کر بیوی نے مولوی کو گھر میں بلانا شروع کردیا۔
کچھ عرصہ مولوی کے ساتھ خوب مزے اڑائے ایک دن یونہی اچانک شیدا جلدی گھر آیا تو اپنی بیوی کومولوی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے دیکھ لیا ،خاموشی سے مولوی کو گھر سے باہر نکالا اور دوسرے دن ہی اینٹوں کی ٹرالی ڈلوا کر گھر کے گرد اونچی چار دیواری کھڑی کردی اور بڑا سا گیٹ لگوا کرچابی اپنے پاس رکھ لی ۔جب بھی گھر سے باہر جاتا گیٹ کو تالا لگا کر جاتا ۔
شیدے کی بیگم بھی کچھ عرصہ تو شرمندہ رہی لیکن پھر آخر اس کا دل دوبارہ مولوی سے ملنے کو کرنے لگا ۔شادی کو کافی ماہ ہو گئے تھے بیوی کو کوئی اور بہانہ نہ سوجھا تو شیدے کو کہا کہ اسے متلی آرہی ہے کسی دائی کو دکھا دے ۔ شیدے نے خوشی خوشی ایک دائی بلوا دی ۔ شیدے کی بیوی نے دائی کو کچھ پیسے دے دلوا کر مولوی کو پیغام پہنچا دیا کہ وہ ملنا چاہتی ہے۔ دائی نے پیغام پہنچا دیا ۔ چند دن بعد دائی پھر حاضر ہوئی اور شیدے کی بیوی کو مولوی کا پیغام دیا ، اور ان کی ڈیٹ فکس کروا دی ۔
دو دن بعد دائی نے شیدے کو پیغام بھیجا کہ تمہاری بیوی کا وقت قریب ہے میرے گھر سے سامان کا صندوق اٹھوا کر لے جاو تاکہ ڈیلیوری کی جا سکے، شیدا فوراً دائی کے گھر پہنچا ، خوشی خوشی صندوق سر پر رکھا اور دائی کو ساتھ لے کر گھر پہنچ گیا ۔ دائی اور شیدے کی بیوی کمرے میں اکیلے ہوئے تو دائی نے صندوق کھولا اور اس میں سے مولوی برآمد ہوا۔ شیدے کی بیوی اور مولوی نے پھر ایک دفعہ’’ اپنا کام ‘‘مکمل کیا ۔ سب کچھ ہونے کے بعد مولوی پھر صندوق میں گھس گیا ۔
دائی نے شیدے کو آواز دی اور کہا ’’ چیک اپ ہوگیا ہے ابھی چند دن بعد ہی ڈیلیوری ہوپائےگی‘‘ شیدے نے پھر صندوق سر پر رکھا اور دائی کے ساتھ چل پڑا ۔ تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ شیدا پھسل کر گر پڑا اور صندوق دور جا گرا ، گرتے ساتھ ہی صندوق کا دروازہ کھل گیا اور اس میں سے وہی مولوی برآمد ہوا ۔ شیدے نے مولوی کو دیکھا اور چپ کرکے واپس گھر آگیا اور بیلچہ اور کسَی لے کر چار دیواری گرا دی اور ساتھ تاریخی الفاط کہے
’’جب مولوی کو اتنی عزت و احترام کے ساتھ خود اپنے سر پہ بٹھا کے گھر لاکر بیوی سے ملوانا ہے تو اس چاردیواری کی کیاضرورت ہے؟؟‘‘
اور یہی میں بھی کہنا چاہ رہا ہوں کہ جب وہی بے تُکی ،گھٹیا ،ذلالت زدہ،دقیانوسی اور کچرا سوچ کو ہی پروان چڑھانا ہے تو لبرلزم اور سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت ہے۔؟؟
’’ہم سب‘‘ بلاشبہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر طبقہ فکر کی رائے کو آزادی کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ جو کچھ شائع کریں اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔
اسی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ہم سب‘‘ کی ٹیم لدھیانوی صاحب کاانٹرویو شائع کرتی ہے ، انٹرویو پر کوئی اعتراض نہیں آتا لیکن لدھیانوی صاحب کی اصل سوچ جس کی وجہ سے ان پر تفرقہ بازی کے الزامات ہیں، کو سامنے لائے بغیر، ان سے چند ’’اہم ‘‘ سوال کئے بغیر اسے ’’فریڈم آف سپیچ ‘‘ کہتے ہیں تو ان پر اعتراض اٹھے گا۔
’’ہم سب‘‘ کی ٹیم ثانیہ مرزا کو برتھ ڈے وش کرتی ہے ، ایک ٹینس اسٹار کی مناسبت سے اس پر ایک نہیں ہزار کالم چھاپ دیں، کیکوں کی بارش کردیں، کوئی اعتراض کر ہی نہیں سکتا لیکن اگر اس کی ایک انتہائی فحش اور ہیجان خیز ’’بُوبصورت‘‘ تصویر کے ساتھ وش کریں گے تو اعتراض ہوگا۔
نو رجہاں کی ذاتی زندگی پر اس طرح کا کیچڑ سوچ پر مبنی کالم شائع کرکے اگر ہم سب والے اسے ’’فریڈم آف سپیچ ‘‘ کہتے ہیں تو کہتے رہیں میں اسے سراسر کردار کشی کہوں گا ۔ نور جہاں کوٹھے سے کوٹھی تک کس طرح پہنچی یا کس کس کے ساتھ ناجائز تعلقات میں بدمست رہی یہ سوچنا جس سوچ کے حامل افراد کا کام ہے وہ سوچتے رہیں ، ہمارے لئے وہ ایک عظیم گلوکارہ تھیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
اور ہاں میرا ’’ہم سب‘‘ کی ٹیم کو ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ ’’نصرت فتح علی خان کی زندگی پر اس طرح کی سوچ پر مبنی کالم شائع کرنے کی غلطی نہ کریں، لاشیں گریں گی لاشیں۔۔۔
♦