طارق احمدمرزا
پیر خواجہ افضل نظامی صاحب حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی اولاد میں سے ہیں اور آستانہ عالیہ درگاہ شریف دہلی کے گدی نشین ہی نہیں سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے روحانی سربراہ بھی ہیں اور مریدین سے بیعت لینے کے مجاز ہیں۔ان کا خانوادہ گزشتہ آٹھ سو سال سے ہندوستان میں تصوف کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ ان کے عقیدت مندوں میں مسلمان ہی نہیں،ہندو سکھ عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔آپ خود بھی وسیع المشرب ہیں۔دنیا کے بہت سے ممالک کا دورہ کر چکے ہیں جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
آپ پہلی بار سنہ 2007 میں بھارتی مسلمانوں کے ایک وفد میں شامل ہوکراسرائیل گئے تھے جہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ وہ خود کو اپنے چچیروں کے درمیان پا کر بہت ہی طمانیت اور فرحت محسوس کر رہے ہیں کیونکہ وہ طرفین سے سید زادہ ہونے کے ناطے آل اسمٰعیل میں سے ہیں اور یوں بنی اسرائیل ان کے کزن ہوئے۔بنی اسرائیل کے ساتھ اہل کتاب ہونے کا ہی نہیں بلکہ حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی حیثیت سے میرا توان سے خون کا بھی رشتہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں سمجھتا تھا کہ اسرائیل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہوگی لیکن صورتحال اس کے برعکس پاکر اب میری رائے تبدیل ہوچکی ہے۔
پیر خواجہ افضل نظامی کی ہمرکابی میں آستانہ عالیہ خواجہ معین الدین چشتی (المعروف خواجہ غریب نواز)اجمیر شریف کے سجادہ نشین خواجہ سید زین العابدین بھی اس وفد میں شامل تھے۔آپ بھی معتدل مزاج شخصیت ہیں،بین المذاہب ہم آہنگی کے پرچارک ہیں۔آپ نے مودی حکومت کے قیام کے چند ماہ بعد بھارتی مسلمانوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ گائے کا گوشت کھانا ترک کردیں۔اسی طرح سے آپ ایک ہی وقت میں دی گئی طلاق ثلاثہ کو طلاق تسلیم نہیں کرتے۔
یہاں یہ ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ سید زین العابدین صاحب کے چھوٹے بھائی علاؤالدین علیمی نے ان پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا اعلان کردیا تھااور خود سجادہ نشین بن بیٹھے۔تاہم زین العابدین نے اپنے بیٹے نصیرالدین چشتی کواگلا گدی نشین نامزد کرنے کا علان کرتے ہوئے کہا کہ وہ درگاہ خواجہ غریب نوازکے مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن جانے کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اسرائیل کا دورہ خیرسگالی کرنے والے اس بھارتی مسلم وفد کی سربراہی مولانا عمیراحمد الیاسی صاحب کر رہے تھے جو آل انڈیا ائمہ مساجدایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔یہ تنظیم بھارت کے پچاس لاکھ ائمہ کرام کی واحدنمائندہ تنظیم ہے۔
وفد کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر خواجہ افتخاراحمد بھی شامل تھے جو بین المذاہب فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔آپ2006 میں بھی اسرائیل کے دورہ پہ تشریف لے جا چکے ہیں،اور اسی طرح 2007 کے بعد2011 میں بھی بھارتی مسلمانوں کے ایک اور وفد کے ہمراہ اسرائیل گئے تھے۔محترم اخترالواسع بھی مذکورہ وفد کے ایک نمایاں رکن تھے آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ شعبہ اسلامک سٹڈی ہیں ۔ اایک اور نام جناب محمودالرحمٰن صاحب کا ہے جوسابق وائس چانسلرعلیگڑھ یونیورسٹی ہیں،آپ بھی اسی وفد میں شامل تھے۔
بھارتی مسلمانوں کے دورہ اسرائیل کا اصل مقصد بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو فروغ دینا،مسلمانوں اور اسلام پر انتہاپسندی اوردہشت گرد ہونے کی جو چھاپ اس زمانہ میں لگ چکی ہے اس کا اثر زائل کرنااور پھر دنیا بھر کوبھارت کی مثال اپنانے کی ترغیب دینا تھی ،جوایک کثیرالمذاہب لیکن سیکولرجمہوری ملک ہے۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبرپربھارت دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک گنا جاتاہے۔ اسی طرح شیعہ مسلمانوں کی تعدادکے حوالہ سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک شمارہوتا ہے۔ایک اسرائیلی جریدے کے مطابق دنیا بھر میں بھارت ہی واحد ملک ہے جہاں کے مسلمان آزادی کے بعد سے مسلسل جمہوریت اور جمہوری حکومتوں سے فیض یاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار نے بجا طور پر لکھا ہے کہ دنیا میں صرف بھارتی مسلمان ہی ہے جو آپ کو مذہب کے نام پر کی گئی کسی بھی سطح کی دہشت گردی میں ملوث ہوتا دکھائی نہیں دے گا۔
مولانا عمیر الیاسی سے جب ایک اسرائیلی صحافی نے سوال کیاکہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے دورہ اسرائیل کے تناظر میں فلسطینی ایشوکو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ فلسطینیوں کاہر مسئلہ اسلام کا بھی مسئلہ ہو۔بعض غیر جمہوری عناصر مذہب کے نام پر یہودیوں،مسلمانوں اور عیسائیوں کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔مولانا الیاسی نے اسرائیل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جمہوری سیاسی اقدارکی رو سے اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے،مذہبی وجوہ پر کسی ملک کو تسلیم نہ کرنامناسب فعل نہیں۔
وفد نے ارض مقدس کے کئی تاریخی مقامات دیکھے اور اسرائیلی عمائدینِ حکومت نیز مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کیبھارتی مسلمانوں کے اس وفد کے دورہ اسرائیل کی خبریں دنیا بھرکے میڈیا نے نمایاں طور پر نشر کیں۔
اس دورہ کی کامیابی کے بعد اگلے سال سنہ2008میں بھارت سے حضر ت مولانا جمیل الیاسی بھی اسرائیل تشریف لے گئے تھے جہاں آپ نے اسرائیلی صدر شمعون پیریزسے ان کی سرکاری رہائش گاہ میں ملاقات کی اور انہیں اعزازی خلعت پہنائی۔ان دنوں مولاناصاحب ائمہ مساجد تنظیم بھارت کے سیکرٹری جنرل تھے۔
مولاناصاحب موصوف نے بتایا کہ وہ اسرائیل پہنچنے کے بعد یہ جان کر حیران ہوگئے کہ اسرائیلی حکومت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتی ہے اور اسرائیل میں اسلامی شرعی عدالتیں تک موجود ہیں۔
اسرائیلی صدر نے آپ سے ملاقات میں کہا کہ جب ہم سب کا خدا ایک ہے اوریہودیت،عیسائیت اور اسلام تینوں ادیانِ براہیمی ہیں تو پھرایک ہی گھرانے کے افراد کا آپس میں لڑناجھگڑناکیسا۔
بھارتی مسلمانوں کے وفود کے دورہ جات اسرائیل کا یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے۔دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹرتوقیر احمد2013 والے مسلم وفد کا حصہ تھے۔
بھارت میں اسرائیلی سفارتخانہ بھی بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کے لئے متعدد تقاریب اور محافل کا اہتمام کرتارہتا ہے۔جن میں شمولیت کے لئے اسرائیل سے یہودی ربی خصوصی طور پربھارت آتے ہیں۔ان تقاریب میں بھارتی مسلم علماء شریک ہوتے ہیں۔
سنہ 2010 میں اسرائیلی سفیر نے درگاہ اجمیر شریف پہ حاضری دی ،پھول چڑحائے اور دعاکی۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے’ سیکولر‘مغل بادشاہ جلال الدین اکبرؔ کی تتبع میں ایسا کیا جو درگاہ اجمیر شریف پہ حاضری دینا باعث افتخار سمجھتا تھاکیونکہ خواجہ غریب نواز صاحب ہندو مسلم سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک فرماتے اورہندومسلم بھائی چارہ کے علمبردار اور پرچارک تھے۔
اخبارات کے مطابق اسرائیل انڈین مسلم ڈائیلاگ کے داعی آصف اقبال صاحب ہیں جو انڈواسرائیل سوسائٹی کے صدر ہیں۔اسرائیلی سفارتخانے میں افطار پارٹیاں منعقد کرنے کی روایت انہی نے شروع کی۔وہ وفود تیار کروا کر کئی نمایاں بھارتی مسلمان شخصیات کوتل ابیب لے جا چکے ہیں۔ آجکل وہ بھارتی کشمیر کے مسلمان طلبا کے لئے اسرائیلی کے تعلیمی وظائف کے حصول کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔کشمیرآبزرور نامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل ہندوستان،پاکستان اور کشمیر کے عوام کے ساتھ مستقبل میں اچھے تعلقات بنانا چاہتا ہے اور اس مقصدکے لئے کشمیر کے نوجوان مسلمانوں کوایک رول ماڈل بنتا دیکھنے کا خواہش مندہے۔
جریدے کے مطابق آصف اقبال بوسنیا اور اسرائیل کے سفارتی نمائندوں کے ہمراہ کشمیری لیڈرمیرواعظ عمرفاروق سے بھی ملے تھے جنہوں نے کشمیری مسلمان بچوں کے لئے اسرائیلی تعلیمی وظائف کی پیشکش اور انہیں قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ کہا کہ کشمیری یوتھ کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کی ہر پیشکش مستحسن ہے خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ سے آئی ہو۔آصف اقبال کا کہنا تھا کہ میرواعظ نے زیادہ تر بوسنیا اسرائیل تعلقات کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے میں گہری دلچسپی کا اظہارکیا۔غالباً وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کوئی مسلم اکثریتی ملک اسرائیل کے ساتھ کس طرح اور کس قسم کے دوطرفہ تعلقات قائم کرکے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
♥