سرمست بلوچ
جمہوریت اک سراب سے زیادہ کچھ نہیں اسے خوشنما نعروں میں پرو کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوریت اپنی اصل میں دُنیا کے کسی گوشے میں بھی رائج نہیں حتی کہ پہلی دُنیا میں بھی اس کا خام مال بک رہا ہے گر کسی کو یقین نہ آے تو الیکشن سے پہلے کے کمپینز و اشتہاری و سرمایہ دارانہ مافیاز کو سامنے رکھ کر جمہوری آواز کو پرکھ لے۔
ان مافیاز کے علاوہ جو مافیاز پس پشت میں کارفرما ہوتےہیں وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اب جمہور کے نام پہ اکثریتی رائے خیالی پلاؤ کے علاوہ کچھ نہیں رہا ۔ویٹو پاور جمہوریت کے گلے کی وہ ہڈی بن چکی ہے جو نہ نگل سکتے ہے اور نہ اُگل سکتے ہیں جمہوریت کو گر فلاسفیانہ تناظر میں بھی دیکھیں تو افادیت کی اک نئی شکل ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کی بنیاد ہی افادیت ہے جس میں اکثریت کی خوشی کو اولین درجہ دیا گیا ہے۔
ا گر تھوڑی دیر کے لیے فرض بھی کر لیں کہ اکثریت کی خواہش کا نام جمہوریت ہے تو پھر اقلیت کو کس طاق میں رکھ کر سجایا جائے؟ افادیت میں اقلیت کی کوئی رائے نہیں ہوتی یعنی ان افادی فلاسفرز کے ہاں اکثریت کے لیے اقلیت کو گر قربانی کا بکرا بننا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی پالیسی جمہوریت کے دعوے دار ترقی یافتہ تہذیب یافتہ ممالک کے فیصلوں میں نظر بھی آتی ہے۔
وہ اپنے ممالک کے شہریوں کے لیے کمزور ممالک میں نو آبادیات کو قتل گاہ بھی بنادے تو ان کے ضمیر پہ یہ کبھی بھی گراں نہیں گذرتا انسانی حقوق ،انٹرنیشنل ازم ، گلو بلائزیشن ، جمہوریت یہ وہ دلکش پوشاکیں ہیں جن کو زیب تن کر کے اپنی نو آبادیاتی سوچ کو نئے طرز میں تشکیل دیا جارہا ہے سرمایہ دار کی نظر سرمایہ سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ان کی شاطرانہ نظر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی فائدہ در فائدہ سود در سود جبکہ سود و زیاں کا ترازو ہاتھ میں پکڑ کر انسان انسان فقط اس لیے پکاررہا ہے کہ عوام کی نظر دلکش و دلفریب نعروں میں گم ہوجاے نہ کہ اُس ترازو پہ ٹک جاے جہاں سُود و زیاں کی اک پوری تاریخ رقم ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس سراب (جمہوریت) کی دہائی سے چھٹکارہ پانا کیسے ممکن ہے کیونکہ سرمایہ دار جمہوریت کے مخالف ہر آواز کو یہ کہہ کر دبا دیتے ہیں کہ دیکھو یہ جمہور کا نہیں آمر کا ساتھی ہے اور آمرانہ سوچ کا مالک ہے ،دیکھو یہ ترقی مخالف ہے دیکھو یہ تو انسانیت کی کی نہیں قوم و نسل و شناخت کی بات کرتا ہے لیکن کیا عوام کو اس سراب کی حقیقت کو نہیں دکھانا چاہیے؟ کہ کہیں یہ آمرانہ لیبل ہی چسپاں نہ ہوں یا قوم پرستی کو کم تر سمجھ کر انسانیت کی کلب میں ممبر شب کے لیے درخواست گذار بن جائے اور عوام کو اس سراب پہ چلنے دیا جاے جہاں ہر تھوڑی دیر بعد عوام خود یہ کہتے ہوے نظر آئے کہ یہ وہ خواب تو نہیں ہے جو دیکھا گیا ہوں میں۔
سب سے اہم سوال کہ آخر کیا وجہ ہے اتنی ترقی یافتہ ،تہذیب یافتہ ( دوسروں کی خون پہ قائم دائم ترقی و تہذیب) ممالک اک صحت مندانہ معاشرہ بنانے سے قاصر رہے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ سوچا جائے دنیا میں ترقی و تہذیب کسی طبقہ ،اقلیتی قوم ، نسل ،اقلیتی مذہب یا کمزور ممالک کے عوام کی خون کی آبیاری سے ممکن نہیں رہا۔ چہ جائیکہ اس سیکورٹی ریاست پاکستان میں اقلیتی اقوام کے وسائل و خون کی آبیاری سے ترقی و تہذیب و جمہوریت ممکن ہو پائے۔