نوآبادیاتی تسلط کے شکار ملکوں میں عوام دوہری غلامی کا شکار ہوتے ہیں ۔ایک تو بیرونی غاصب ملک طاقت کے بل بوتے پر ان پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔دوسرا مقبوضہ ملک کے مقامی گماشتہ حکمران ہوتے ہیں ،جو غاصب کے قبضے کو ہرطرح کا جواز مہیا کرتے ہیں ۔اور یہ دونوں مل کرعوام پر اندرونی و بیرونی غلامی برقرار رکھتے ہیں۔
غاصب کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ مقبوضہ ملکوں سے پیداوری عمل کا خاتمہ کرکے انھیں اپنی صارف منڈی بناتے ہیں۔جبکہ گماشتہ حکمران غاصبوں کے عوام کو غلام بنانے کے عمل کو مادی بنیادیں مہیا کرتے ہیں۔
غاصب کسی ملک یا قوم کو ثواب یا گناہ کے لیے اپنا غلام نہیں بناتے بلکہ ان کے مادی مفادات ہوتے ہیں ۔اس لیے انھیں غلام بناتے ہیں کیونکہ انھیں اپنی منڈی میں توسیع کرنی ہوتی ہے اور غلام ملک یا قوم کے وسائل لوٹنے ہوتے ہیں ۔
اسی صورتحال کا سامنا جموں وکشمیر کو بھی ہے ،غاصبوں نے قبضہ کیا اور پیدواری عمل کا مکمل خاتمہ کیا ۔پیدواری عمل کے خاتمے سے نہ صرف جموں کشمیر کے سماج کا ترقی کاعمل پچھڑ گیا بلکہ سماجی شعور بھی پچھڑ کررہ گیا ہے۔غاصبوں نے جہاں جموںو کشمیر کو صارف مندی میں تبدیل کیا وہیں جموںو کشمیر کے عوام کی قوت خرید کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں بیرون ملک محنت فروخت کرنے کے راستے پر لگا دیا تاکہ وہ بیرون ملک محنت کر کے غاصب کی منڈیوں سے مصنوعات خرید سکیں۔
انہوں نے بیرون ملک کا راستہ اس لیے نہیں دکھایا کہ محنت فروخت کر کے عوام سماج کی ترقی کریں گے بلکہ ان کی منڈیوں سے خریدیں اورخریدنے کے لیے جو سرمایہ درکار ہے وہ بیرون ملک سے کمائیں گے۔آج جموں وکشمیر اس کی بہترین مثال ہے۔
کسی سماج کی ترقی کا عمل پیداوار ی عمل سے مشروط ہوتا ہے ،پیداواری عمل کی ترقی سے پیداوری قوتیں اور پیداواری ذرائع ترقی کرتے ہیں ۔ان کی ترقی سے سماج اور سماجی شعور ترقی کرتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔بلکہ ہمارا سماج بچھڑ کر رہ گیا اور شعور بھی بچھڑ کررہ گیا۔جس کی وجہ سے معاشرے میں دوست اور دشمن کی تمیز نہیں آسکی۔
جس کی واضح مثال مقامی سطح پر پیداواری عمل بند ہے تو پیداواری قوتیں یعنی ہنر مندافراد تیار ہونے اورسائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا عمل بھی بند ہے یہی نہیں بلکہ انفراسٹرکچر کی ترقی کا عمل بھی مکمل طور تباہ وبرباد ہے۔یہی وجہ ہے کہ جموںو کشمیر 1947میں تقسیم ہوا تو ہم ابھی 1947کی سطح پر ہی کھڑے ہوکر سوچ رہے ہیں اور اظہار کررہے ہیں۔
گماشتہ حکمران جو غاصبوں کو عوام کو غلام بنانے کے لیے ہرطرح کی بنیادیں مہیا کررہے ہوتے ہیں۔وہ عوام کو پسماندہ رکھتے ہیں۔عوام کو زندگی کی تمام ضروریات سے محروم رکھنا،معاشرے کو جوں کا توں رکھنا ان کا فریضہ ہوتا ہے۔
غاصب اپنے غلام ملکوں کے وسائل مفت میں لوٹ کر واپس انھیں ہی مہنگا فروخت کرکے منافع کماتے ہیں ۔جس کی ایک مثال پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں میں بجلی کے منصوبوں کی ہے۔پہلے سے موجود اورنئے زیر تعمیر بجلی کے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے ۔تو مفت کے پانی کی وجہ سے پاکستان کو بجلی کی پیداواری لاگت فی یونٹ تین روپے سے کم پڑتی ہے جبکہ واپس پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو 23روپے فی یونٹ فروخت کی جاتی ہے ۔
نئے زیرتعمیر منصوبے جن علاقوں میں بنائے جارہے ہیں وہ معدنی ذخائر اور جنگلات والے علاقے ہیں۔لیکن ان کی تعمیر کے دوران نکلنے والی معدنیات اور کاٹے جانے والے جنگلات پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی حکومت سے کوئی معائدہ نہیں۔یہاں تک پانی کے استعمال پر بھی کوئی معاہدہ نہیں۔اور وہاں کی حکومت کی طرف سے ایساکوئی مطالبہ یا احتجاج بھی نہیں ہے۔
یعنی پاکستانی مقبوضہ کشمیر کا گماشتہ حکمران پاکستان کو وسائل لوٹنے میں مکمل تعاون دے رہاہے۔یہی نہیں بلکہ حالیہ مختلف ریسرچ رپورٹس کے مطابق مظفرآباد کے علاقوں نیلم وغیرہ میں معدنیات کے ذخائر کی بے دردی سے جاری لوٹ مار کے دوران استعمال کی جانے والی پسماندہ ٹیکنالوجی اور بلاسٹنگ سے سالانہ اربوں روپے کی قیمتی معدنیات تباہ کی جارہی ہیں۔
ان رپورٹس کے مطابق معدنیات کی صنعت کو ترقی دے کر نہ صرف لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاسکتا ہے بلکہ بیرون ملک سے مزدور درآمد کرنے پڑیں گے ۔ لیکن لوٹ مار کی ننگی خودغرضانہ پالیسی کے باعث عوام دربدر محنت فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال گلگت بلتستان میں بھی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو دہری غلامی کا سامنا ہے ایک بیرونی غاصبوں کی غلامی اور ایک مقامی گماشتہ حکمرانوں کی غلامی کا۔
دوسری طرف اس سارے عمل کے خلاف برسر پیکار قوم پرست و ترقی پسند قوتیں ہیں ۔جن کو ہم اس سماج سے کاٹ کر نہیں دیکھ سکتے وہ بھی اسی سماج کی پیداوار ہیں۔اور ان کا اظہار اور ردعمل بھی اپنے سماجی شعور کے تحت ہے۔
دیکھنا یہ ہے کیا جموںو کشمیر دنیا کی کوئی پہلی ریاست ہے جو نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہے۔کیا کسی ملک کے عوام نے اس سے قبل نوآبادیاتی تسلط کے خلاف جدوجہد کرکے نجات حاصل نہیں کی ۔تو اس کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے نوآبادتی تسلط سے آزادی لی اور آج وہ تیزی سے پیداوری عمل ،پیداواری قوتوں اور پیداواری ذرائع کو ترقی دے رہے ہیں ۔اور آج بھی اپنی سیاسی ،سماجی اور معاشی آزادی کو تحفظ دینے میں مصروف عمل ہیں۔ان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جس سے کسی حدتک سیکھا جا سکتا ہے۔
جموں وکشمیر میں ہمیشہ سائنسی تجزیے اور حکمت عملی کا فقدان رہا ہے اور رہتا ہے ۔جس کے باعث درست حکمت عملی بھی ناپید رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی جدوجہد بھی عوامی مسائل اور سماجی حرکت کے برعکس ہوتی ہے ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آج بھی بیرون ملک ترقی یافتہ معاشروں میں موجود کشمیری عوامی حقوق کی لڑائی لڑرہے ہیں اور اندرون ملک کشمیری عوامی حقوق سے کٹ کر قومی حقوق کی سیاست کررہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں حکمت عملی کے تحت توازن قائم کیاجائے اور اندرون ملک کی جدوجہد کو عوامی حقوق کے ساتھ جوڑا جائے ۔جب تک ان کی بنیاد عوام نہیں بنیں گئے عوام کی قومی جدوجہد میں شرکت ناممکن ہے ۔اور کسی بھی تحریک یا سماج کی نشوونماء کا زیادہ ترانحصار اندرونی پہلووں پر ہوتا ہے ۔اس سارے عمل سے یوں لگتا ہے کہ یہ جدوجہد ابھی سر کے بل کھڑی ہے جسے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔
اب بیرون ملک کی بات کی جائے تو یہ بات بالکل درست ہے بلکہ بیرون ملک سنجیدہ حلقوں کا تجزیہ درست ہے کہ اندرون ملک عوامی حقوق کی جدوجہد کی جائے ،اور عوام کو شریک کیا جائے ۔وہیں وہ سنجیدہ حلقے یہ تجویز دے کر بری الذمہ نہیں ہوجاتے بلکہ ان کی اپنی ذمہ بھی بنتی ہے کہ وہ بیرون ملک اس جدوجہد کو قومی جدوجہد بنانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں ۔
کیونکہ جب تک درست تجزیہ اور حکمت عملی نہیں ہوگی اسوقت تک کسی بھی سطح پر جدوجہد نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی نتائج مل سکیں گئے ۔کیونکہ جو جدوجہد سماج کی حرکت اور تضادات کو سمجھے بغیر کی جاتی ہے ۔وہ اپنی اہمیت کھودیتی ہے ،حکمرانوں کو فائدہ دیتی ہے اور عوام کو نقصان دیتی ہے۔اور بعض اوقات عوام کو آزادی اور انقلاب کے نام بے معنی اور کھوکھلے لگنے لگتے ہیں ۔اور جدوجہد کرنیوالوں کی غلط حکمت عملی اور بے جاء عمل سے عوام کو ان سے نفرت ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اور عوام مزاحمتی کردار ااختیار کرنے کی بجائے بیگانگی اختیار کرتے ہیں۔
بیرون ملک مقیم کشمیری قوم پرست و ترقی پسندوں کو چاہیے کہ وہ امریکہ ،کنیڈا ،یورپ اور برطانیہ میں مقیم کشمیریوں کو منظم کریں اور غاصب ممالک کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ دنیا کو کشمیری عوام کی تحریک کے ساتھ جوڑیں۔ہمارے ایک دوست اکثر مذاق کیا کرتے ہیں کہ برطانیہ میں کشمیریوں نے اس قدر سرمایہ کمایا ہے کہ ذاتی ہیلی کاپٹر لیے ہوئے ہیں لیکن جب وہ واپس ملک آتے ہیں تو ان کو اے ایس آئی ،ایس ایچ او ر مقامی لیڈروں،ملاؤں اور پیروں کی کاسہ لیسی کرنی پڑتی ہے۔ان کو مہنگے کھانے کھلا کر ان کے ساتھ سلفی بنانی پڑتی ہے ۔
اب برطانیہ کو ہی لے لیں تو دس لاکھ سے زائد کشمیری وہاں آباد ہیں۔انھیں اظہار کے مواقع چاہیے ۔ان کو اظہار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور قومی جدوجہد کا حصہ بنایا جائے۔اور جس دن پانچ ہزار آدمی بھی اس ترقی یافتہ معاشرے میں قابضوں کے بیانیہ اختیار کرنے کی بجائے قومی بیانیہ اختیار کرکے دنیا کو متوجہ کرنے نکلا تو اس کے نتائج مختلف ہوں گئے۔اس لیے اس جدوجہد کے کے دوہرے فرائض ہیں جنھیں مکالمہ بنانا ہوگا اور ایک مشترک حکمت عملی بنانا ہوگی۔
اسی طرح اندرون ملک بھی ریاست اور اس کے اداروں نے جو عوامی حقوق غصب کررکھے ہیں ۔ان حقوق کی آواز بلند کرنی ہوگی۔عوامی حقوق کی آواز بلند کرنے کا مطلب ہرگز تھانے اور تحصیل کی کاسہ لیسی کرنا نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھنا ہوگی کہ ریاست میں اداروں کا کردار کیا ہے ۔اور ہمارا کیا ہونا ہونا چاہیے ۔
عوامی حقوق کی جدوجہد کا مطلب عوام کو شعور دینا ہوتاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔اس کے لیے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تاکہ وہ انپا حق مانگیں۔اگر ہم حقوق کے نام پر ادروں کی کاسہ لیسی کریں گئے تو گماشتہ حکمرانوں میں اور ہم میں فرق نہیں رہے گا۔ حقوق کی جدوجہد کے اسی عمل سے ادارے طاقت ور کی شخصی جاگیر بننے کی بجائے ادارے بنیں گے ۔اس لیے ہمیں ہر محاذ پر جدوجہد کا جائزہ لے کر حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔یعنی ہمیں جدوجہدکے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا ۔اس میں ربط اور توازن پیدا کرنا ہوگا۔
♦