کینیڈا ایک امیر ملک ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سات بڑے خوشحال صنعتی ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں رہائش، خوراک اور صحت جیسے زندگی کے بنیادی مسائل بڑی حد تک حل کیے جا چکے ہیں۔ اس ملک میں دولت ہے۔ استحکام ہے۔ ایک خاص ترتیب ہے، سلیقہ ہے۔ یہاں بنیادی مسائل نہیں رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سماج مکمل طور پر مسائل سے پاک ہو چکاہے۔ ایک ترقی یافتہ سماج کے طور پر یہاں اب حکمرانوں کو قدرے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں ایک مسئلہ غربت کا خاتمہ اور دولت کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔
جب ہم غربت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو گویا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس امیر اور ترقی یافتہ ملک میں بھی ابھی تک غربت موجود ہے۔ لیکن اس غربت کی وہ شکل نہیں ہے جو ہمارے ہاں یا تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں نظر آتی ہے۔ یعنی دور سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہاں غربت کو دیکھنے کے لیے اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ چل کر اس کے قریب جانا پڑتا ہے۔ یہ غربت گلیوں ، محلوں، سکولوں اور ہسپتالوں میں نظر نہیں آتی۔ یہاں غربت کا چہرہ ہی نہیں، اس کی تعریف بھی مختلف ہے۔
یہاں غربت کو تلاش کرنے کے لیے فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے بجائے تازہ رپورٹیں اور اعداد و شمار دیکھنے پڑتے ہیں۔ دو ہزار سترہ کی رپورٹ میں میں یہ اعداد و شمار موجود ہیں۔ خصوصا یہاں بچوں میں غربت کی شرح عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کینیڈامیں ایک ملین سے بھی زیادہ بچے غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔
یہاں غربت کا سراغ لگانے یا اسے ناپنے کے لیے جو طریقہ کار یا فارمولہ استعمال کیا جا تا ہے وہ ہمارے فارمولے سے تھوڑا مختلف ہے۔ اس فارمولے کے مطابق جن لوگوں کی آمدنی متوسط لوگوں کی آمدنی سے نصف ہے وہ غریب تصور کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ایک متوسط خاندان کی آمدنی تقریبا اسی ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ جن لوگوں کی آمدنی اس کے نصف سے کم ہے وہ کم آمدنی والے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
اس طرح سرکاری سطح پر غریب قرار دیا جانے ولا شخص ہمارے غریب کے بر عکس وہ ہوتا ہے جس کے پاس ہو سکتا ہے ایک چھوٹا موٹا روزگار ہو، اپنی کار ہو، رہنے کے لیے جگہ ہو اور اپنی پسند کے مطابق کھانے اور پہننے کی استطاعت رکھتا ہو۔ یہ وہ غریب ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی نہ کوئی روزگار ہوتا ہے، ذریعہ آمدن ہوتا ہے مگر ان کی آمدنی یہاں کے متوسط طبقے کے خاندان کی آمدنی سے کم ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو عام طور پر غریب کے بجائے کم آمدنی والے لوگ بھی کہا جاتا ہے۔
غریبوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو بے روزگار ہیں ۔ یہ لوگ یا تو بے روزگاری الاونس پر ہوتے ہیں۔ یا پھر اپنی بچت وغیرہ پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ بے روزگاری الاونس عام طور پر ایک آدمی کی آخری تین تنخواوں کو سامنے رکھ کر نکالا جاتا ہے جو کل تنخواہ کا پنسٹھ سے پچھتر فیصد تک ہو سکتا ہے۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بے روزگاری الاونس اور اپنی بچت وغیرہ ختم کرنے کے بعد سرکاری وظیفے پر گزارا کرتے ہیں۔
یہ کم از کم آمدن ہوتی ہے جو عبوری مدت کے لیے صرف بنیادی اور ناگزیر ضروریات کے لیے حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ ایسے لوگ با مشکل ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں لہذا ان کی زندگیوں کو آسودہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ لوگ جلد از جلد دوبارہ روزگار لیکر زندگی کے عام دھارے میں شامل ہونے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں اور اکثر تھوڑی ہی مدت میں اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
گویا یہاں لوگوں کو ہماری طرح کھاتے پیتے اور بھوکے ننگے لوگوں کے خانوں میں تقسیم کر کے نہیں دیکھا جاتا ۔ ویسے بھی یہاں صاحب ثروت لوگ بہت کم کھاتے ہیں بلکہ اکثر ڈائٹنگ پر ہوتے ہیں۔ بعض غریب غربے یہاں جم کر کھاتے ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ پہلے خوب پیتے ہیں اور پھر کھاتے ہیں، اور کئی بے گھر غریب تو کھانے کے تردد میں پڑنے کے بجائے محض پینے پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ اس لیے یہاں غربت اور آمارت کا حساب آمدنی سے لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کا اصل مسئلہ بھوک ننگ ختم کرنا نہیں بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنا ہے۔
دولت کی منصفانہ تقسیم صرف کینیڈاکا ہی نہیں پوری ترقی یافتہ دنیا کا مسئلہ ہے۔ لیکن سویڈن اور ناروے کی طرح کینیڈا ان محدودے چند ممالک میں شامل ہے جس نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اپنے طاقت ور اور امیر پڑوسی امریکہ کی نسبت اس حوالے سے کینیڈاکی سعی قابل تعریف ہے۔ کچھ شعبوں ، جیسے صحت و تعلیم میں کینیڈاکی کارکردگی سوشلسٹ سماج سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ یہ وہ شعبے ہیں جن سے امیر و غریب بلا تفریق استفادہ کر سکتے ہیں۔
ان دو شعبوں میں قابل رشک کامیابی کے باوجود کینیڈا کے حکمرانوں کو امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ چیلنج اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو بہت ہی پڑھی لکھی اور با شعور رائے عامہ کا سامنا ہے۔ ایسی رائے عامہ جس میں 99 فیصد لوگ خواندہ ہیں، جن کو حکمرانوں کی طرف سے ہر سوال کا تسلی بخش جواب چاہیے ہوتا ہے۔ ان کو کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے نہیں ٹالا جا سکتا۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا یہ مسئلہ دنیا بھر کے حکمرانوں کو درپیش ہے خواہ ان کے شہریوں کی خواندگی کی شرح کوئی بھی ہو، اس میں امیر ، غریب، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سب شامل ہیں۔ ہر جگہ لوگ غربت اور نا ہمواریوں کے مسئلے پر ایک ہی طرح کے سوال اٹھاتے ہیں۔ ان نا ہمواریوں کی ایک بڑی وجہ نا ہموار معاوضے ہیں۔ ایک ہی طرح کی محنت کرنے والے لوگوں کو دن کے خاتمے پر جو معاوضے دیے جاتے ہیں وہ ان کی محنت سے میل نہیں کھاتے۔
ہماری اس دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے ہی ہیں جن کی آمدن دو ڈالر یومیہ سے زیادہ نہیں۔ اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کا ایک دن کا معاوضہ ملین ڈالرزمیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں صرف پچاسی امیر ترین لوگوں کے پاس اس دنیا کے آدھے غریب ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت ہے۔ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگ 99% دولت کے مالک ہیں۔
دنیا میں دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کی کئی مشترکہ اور الگ الگ تاویلیں اور جواز ہیں۔ کئی اسے قانون فطرت کہا جاتا ہے۔ کئی فطرت کا منشا اورکئی خدا کی مرضی قرار دیا جاتا ہے۔ کئی اسے آزاد معیشت کا تقاضا اور کئی آزاد مقابلے کا ناگزیر نتیجہ مانا جاتا ہے۔ لیکن اگر انصاف سے دیکھا جائے تو کائنات میں کوئی ایسا خدا نہیں جو اپنی مخلوق کو بلا تفریق روٹی، کپڑا اور مکان کے اسباب کرنے کے خلاف ہو۔ کوئی ایسا قانون فطرت نہیں جو ایک شخص کے کھدر کے کپڑے اتروا کر دوسرے کو ریشم کی پوشاک پہنانا چاہتا ہو۔
یہ فطرت کی منشا بھی نہیں انسان کا اپنا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب انسان آزادانہ طریقے سے اور اپنی مرضی سے کرتا ہے کہ کسی بھی سماج میں موجود دولت کو کس طریقے سے برتا جائے۔ یہ انتخاب کرنے سے پہلے کیسے اجتماعی اور انفرادی مفاد کے درمیان توازن رکھا جائے۔ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر کیسے مقدم جانا جائے ، یا انفرادی مفاد کو کیسے اجتماعی مفاد پر قربان کیا جائے۔
یہ محض انتخاب کا سوال ہے۔ یہ انتخاب کرنے کے لیے کسی خاص نظرئیے یا کسی خاص فلسفے کا حامی ہونا بھی ضروری نہیں۔ سرمایہ دار دنیا کے اندر موجود مختلف حکومتیں اپنی اپنی سوجھ بوجھ اور ضروریات کے مطابق یہ انتخاب کرتی ہیں۔ جہاں یہ انتخاب عوام کے حق اور اجتماعی مفاد کو سامنے رکھ کر ہوتا ہے وہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق کم دکھائی دیتا ہے۔
کینیڈا سرمایہ دارانہ دنیاکا اہم حصہ ہے۔ اور نیو لبرل ازم کے حامیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مگر یہ اپنے تمام شہریوں کو ان کی آمدنی اور طبقاتی حیثیت سے قطع نظر بلا تخصیص صحت کی بنیادی سہولت اور مفت لازمی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ اب حال ہی میں اس نے مکان یعنی رہائش کو انسان کا بنیادی حق تسلیم کر لیا ہے۔ جس کا لازمی مطلب یہ ہوگا کہ ریاست اپنے تمام شہریوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے آہنی اور قانونی طور پر پابند ہوگی۔
گویا ریاست ٹیکس ادا کرنے والے کو اپنی مرضی کا محل تعمیر کرنے کی اجازت تو بے شک دے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے فالتو پیسے سے کم خوش قسمت لوگوں کو با عزت رہائش فراہم کرنے کا لازمی بندو بست کرے۔ یہ انتخاب کا مسئلہ ہے جس پر کوئی ٹیکس ادا کرنے ولا ناک بھوں چڑا سکتا ہے، لیکن خدا یا فطرت کو اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
بدقسمتی سے تاریخ میں جتنے بھی عدم مساوات پر مبنی نظام اور نا ہموار سماج رہے ہیں ان کا جواز مذہب یا اخلاقیات میں ڈھونڈا جاتا رہا ہے۔ ہمیں یہ درس دیا جاتا رہا کہ معاشی اور سماجی ناہمواریاں خدا کے قائم کردہ نظام کا ناگزیر حصہ ہیں۔ گویا انسانیت کو مذہب کے نام پر لوٹا اور گمراہ کیا جاتا رہا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار دنیا میں مذہب کے لفظ کو آزاد منڈی کی معیشت کے قواعد و ضوابط سے بدل دیا گیا۔
آزاد منڈی کے یہ قواعد و ضوابط سرمایہ دار دنیا میں ایک نیا مذہب بن گئے ، جو پہلے والے مذہب سے بھی زیادہ مقدس اور لازمی قرار پایا۔ غیر مساوی آمدن یا سماجی نا برابری کو ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں جائز قرار دیا جانے لگا۔ اورآدم سمتھ کے خیالات و نظریات کو مقدس آیات کے برابر کا درجہ عطا کر دیا گیا۔ اس طرح سرمایہ داری کی موجودہ شکل قائم ہوئی جس میں آج ہم رہتے ہیں۔ اس نظام نے انسان کے کچھ سنگین مسائل تو ضرور حل کر دئیے مگریہ کوئی مثالی ، یا مقدس نظام نہیں۔
انسان تاریخ کے ہر دور میں بہتری کی تلاش میں رہا ہے۔ اس تلاش میں اس نے ایک نظام سے دوسرے کی طرف سفر کیا۔ بہتری کی طرف انسان کا یہ سفر ختم نہیں بلکہ ایک طرح سے شروع ہوا ہے۔ ایک جدید، مساوات پر مبنی اور استحصال سے پاک نظام ابھی اس کا منتظر ہے۔
♦
3 Comments