بیرسٹر حمید باشانی
عام طور پر عوام کو اپنے رہنماوں سے کئی شکوے ہوتے ہے۔ ان کے رہنما نے ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ عوام سے جھوٹ بولا۔ عوام کو دھوکہ دیا، عوام سے یا وطن سے غداری کی۔ ان شکوے شکایات کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو اپنے رہنماوں سے توقعات ہوتی ہیں۔ وہ مشکل وقت میں ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک رہنما کی بھی عوام سے کئی توقعات ہوتی ہیں۔ وہ آزامائش کی گھڑی میں ان کے ساتھ کی توقع رکھتے ہیں۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینے، ان کے لیے لڑنے کی امید رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اپنی موت کے بعد عوام سے اپنی سیاسی میراث اور ترکہ کی حفاظت کی توقع رکھتے ہیں۔
عوام اگر کسی لالچ میں، یا کسی آمر کے ڈر و خوف کی وجہ سے اپنے لیڈر کا ساتھ چھوڑ دیں، اس کے سیاسی ورثے سے منہ موڑ لیں، حق و سچ کی لڑائی میں خاموشی اختیار کر لیں، اپنی صفیں بدل لیں تو پھر شکوہ رہنما کا بنتا ہے اپنے پیرو کاروں سے اورعوام سے۔ ایسے نابغہ روزگار رہنماوں میں ذولفقار علی بھٹو سے لیکر شیخ محمد عبداللہ تک چند نام شامل ہیں۔ اس کالم میں مگر ذکرصرف شیخ محمد عبداللہ کا مقصود ہے۔
شیخ صاحب کا شمار دنیا کے ان معدودے چند لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عوام کی خاطر زندگی کا طویل حصہ جیل یا جلاوطنی میں گزارا۔ لیکن کشمیری عوام نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ان کی زندگی میں جب قابض قوتوں نے ان پر غداری کے الزامات لگائے تو ان کے پیروکارخاموش رہے۔ ان کی موت کے بعد جب رجعت پسند اور بنیاد پرست عسکریت پسند قوتیں ان کے ورثے پر حملہ آور ہوئیں تو ان کے کئی پیروکاروں نے چپ سادھ لی یا اپنی صفیں بدل ڈالیں۔ شیخ عبداللہ کی جدوجہد کو درست تناظر میں سمجھنے کے لیے کشمیر کی تاریخ جاننا ضروری ہے۔ اورکشمیر کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے اسے تین حصوں میں تقسیم کرکہ دیکھا جا سکتا ہے۔
پہلاحصہ ریاست جموں کشمیر کے معرض وجود میں آنے سے قبل کا ہے۔ یہ تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور زیادہ تر وادی کشمیر اور اس کے گرد و نواح کے ان علاقوں تک محدودہے جہاں کشمیری قومیت آباد ہے، اور کشمیری زبان بولتی ہے۔ یہ وہ عرصہ ہے جس میں کشمیریوں نے اپنی وسیع سلطنتیں قائم کیں۔ ان سلطنتوں کی وسعت برصغیر اور جنوبی ایشیا کے طول و عرض تک پھیلیں۔ اس حصے میں وہ طویل عرصہ بھی شامل ہے جسم میں کشمیر بیرونی طاقتوں کے زیر نگین رہا۔ یہاں پر مغلوں، سکھوں اور افغانوں کی حکومتیں اور سلطنتیں قائم رہی۔
تاریخ کا یہ حصہ ہندوستان کی تاریخ کی طرح جنگ و جدل، فتح و شکست، باد شاہوں کے عروج و زوال، تخت و تاج اور محلاتی سازشوں سے جڑے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ تاریخ کہ اس حصے میں تاریخ نویسوں نے عوام کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ اگر کہیں ذکر کی زحمت گوارا کی بھی تو قحط، بھوک اور بیماریوں کے ان قصوں کے ساتھ جن میں کسی دریا دل یا سخی حکمران کی رحم دلی کا قصیدہ مقصود تھا۔ یہ تاریخ پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وادی کشمیر کی اس پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ میں عوام نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی ، بس حکمران تھے یا فوج و لشکرتھے۔
یہاں یاد رکھنے کی چیز یہ ہے کہ یہ پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ کشمیری قومیت کی تاریخ ہے۔ یہ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ نہیں ہے۔ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ1846 کے معاہدہ امرتسر سے شروع ہوتی ہے۔ گویا یہ وہ مقام ہے جہاں سے ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔
معاہدہ امرتسر کے تحت ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل میں آیا۔ اس معاہدہ کے تحت جموں کے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ ریاست کے حکمران قرار پائے۔ مہاراجہ نے بعد میں کچھ دیگر علاقوں کو شامل کر کہ ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل علاقے پر مشتمل ایک بڑی نوابی ریاست قائم کی۔ ریاست کی حکمرانی تقسیم ہند تک گلاب سنگھ کے خاندان میں رہی اور مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کے آخری مہارا جہ ہوئے۔
ریاست کی تاریخ کا تیسراحصہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں شروع ہوا جب کشمیری عوام کے اندر شعورکی ایک چھوٹی سے چنگاری پیدا ہوئی۔ لوگوں نے اپنے بنیادی انسانی حقوق، ریاستی انتظام ا نصرام میں اپنی شمولیت اور معاشی انصاف کی بات شروع کی۔ شعور کی یہ چھوٹی سی چنگاری صدی کے تیسرے عشرے تک ایک با قاعدہ شعلہ بن چکی تھی۔ چنانچہ اس عرصے میں عوامی بیداری کی لہر پیدا ہوئی جس سے ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کے مقبول ترین عوامی لیڈر شیخ محمد عبداللہ نے جنم لیا۔
عوامی بیداری کی یہ لہر کچھ پر تشدد واقعات سے گزرتی ہوئی ایک با قاعدہ منظم عوامی تحریک بن گئی جس کے بطن سے جموں کشمیر مسلم ، کانفرنس، نیشنل کانفرنس اور کسان کانفرنس جیسے سیاسی پلیٹ فارم معرض وجود میں آئے۔ یہ وہ عوامی بیداری کی لہر تھی جس نے کشمیر کے اندر سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
ایک طرف آخری ڈوگرا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھا جو پہلے ہی بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ریاستی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کئی اقدامات شروع کر چکا تھا۔ لازمی تعلیم، عورتوں کے حقوق ، عوامی نمائدگی اورریاستی اسمبلی کا قیام جیسے اقدامات ہری سنگھ کو ہندوستان کی دیگر پرنسلی سٹیٹس یعنی نوابی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں سے ممتاز کرتے تھے۔ لیکن کشمیرکے اندر نیا نیا ابھرتا ہوا شعور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اس سے کئی آگے کے مطالبات کر رہا تھا اور اس شعور کی قیادت شیخ محمد عبداللہ کر رہا تھا۔
کشمیر کی تاریخ میں سیاسی جماعتوں یا کسی منظم سیاسی جہدوجہد کی کوئی روایات موجود نہیں تھی۔ چنانچہ جب پہلی دفعہ کشمیری لوگ اس عمل میں آئے تو یہ ایک طرح کا ” ٹرائل اینڈ ایرر” کا دور تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نے مسلم کانفرنس تو بنا لی تھی مگر جلد ہی انہیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ کہ ریاست جموں کشمیر جیسے کثیرالمذہبی اور کثیر الثقافتی سماج میں ایک سیکولر اور ترقی پسند سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے جلد ہی مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا۔
اس تبدیلی کے بعد شیخ عبداللہ کی قیادت میں جو تحریک ابھری وہ بنیادی طور پر ایک سیکولر اور ترقی پسند تحریک تھی۔ اس تحریک کے اندر پنڈت، ڈوگرے، سکھ مسلمان سب شامل تھے۔ نیشنل کانفرنس کا منشور لکھنے والوں میں زیادہ تر مارکسسٹ پنڈت تھے۔ یہ لوگ سب مذاہب کو لیکر ایک کثرت پسند روادار سماج کے قیام پر متفق تھے۔ شیخ عبداللہ کی قیادت میں یہی وہ سوچ تھی جس نے اس وقت باقی بر صغیر کے بر عکس کشمیر میں مذہبی ہم آہنگی کا پر چار کیا اور بڑی حد تک فرقہ وارانہ فسادات کو روکے رکھا۔
اس بات پر پورااتفاق موجود نہیں کہ شخصیتیں تاریخ کی پیداوار ہوتی ہیں یا یہ شخصیتیں ہوتی ہیں جو تاریخ بناتی ہیں۔ یہ سوال ابھی تک پنچائیت میں ہے۔ لیکن شیخ محمد عبداللہ کے بارے میں دونوں باتیں درست ہیں۔ وہ اس وقت تاریخ کی ضرورت تھے چنانچہ تاریخ نے ان کو جنم دیا۔ اس وقت کشمیر میں جتنابڑا بحران تھا اس کے اندر سے اتنے ہی بڑے لیڈر نے جنم لیا۔ کشمیر کی تاریخ میں اس کے بعد اور اس سے پہلے اس قد کاٹھ کا کوئی مقبول عوامی لیڈر پیدا نہیں ہوا۔
مہاراجہ ہری سنگھ کا حکمرانی کا جو قدرتی حق بنتا تھا وہ بر صغیر کے اندر پیدا ہونے والی نئی مذہبی دشمنی اور نفرت کا شکار ہو کر چیلنج ہو چکا تھا۔ ایسے میں سیکولر اور ترقی پسند عبداللہ وہ واحد شخص تھا جو لیڈرشپ کا خلا بھر سکتا تھا۔ وہ پنڈتوں، بدھوں، سکھوں اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اور اپنی دھرتی کے لیے یکجا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طرح شیخ نہ صرف تاریخی ضروورت کی پیداوار تھا بلکہ وہ اس پوزیشن میں تھا کہ وہ تاریخ بنا سکتا تھا۔
کہتے ہیں آدمی جتنا بڑا ہوتا ہے اتنی ہی بڑی وہ غلطی کرتا ہے۔ کشمیر کے اس افسانوی کردارسے بھی ایسی ہی غلطی ہوئی۔ یہ ہمالیہ سے سے بھی بڑی غلطی تھی۔ یہ غلطی1946 کی کشمیر چھوڑ دو کی تحریک تھی۔ اس تحریک کے تحت شیخ عبداللہ نے مہاراجہ ہری سنگھ سے کشمیر چھوڑدو کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے کا واضح مطلب مہاراجہ ہری سنگھ کو دھرتی کا بیٹا ماننے سے انکار تھا ۔ یہ حقائق کا منہ چڑانے والی بات تھی۔
مہاراجہ کے آبا وا جدادنے ریاست کی موجودہ تشکیل کی تھی۔ انہوں نے ایک صدی تک ریاست پر حکومت کی تھی۔ بطور حکمران انہوں نے کئی اچھے برے کام کیے جس پربات ہو سکتی تھی مگر ان کے ریاستی باشندہ ہونے پر اعتراض دوسری بات تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست میں پیدا ہوا تھا اور ہر لحاظ سے دھرتی کا بیٹا تھا ۔ اس کے خلاف کشمیر چھوڑ دوتحریک ایک غلطی تھی۔ اور قرین انصاف بات نہ تھی۔ شیخ صاحب کی طویل سیاسی جہدو جہد اور سیاسی زندگی کے بے شمار کارناموں میں یہ غلطی سیاہ دھبے کی طرح موجود ہے کہ اس سے کشمیر کے اندر مذہبی ہم آہنگی اور ہندو مسلم بھائی چارے کے تصورات کو شدید دھچکا لگا ۔
شیخ صاحب کی خدمات اور ان کے کارناموں کا احاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں۔ شیخ صاحب کی جہدوجہد نصف صدی پر محیط ہے ۔ ان کی اس جہدو جہد کا طویل حصہ انہوں نے پس دیوار زنداں یا جلا وطنی میں گزارا۔ ن کی زندگی کے کئی ماہ و سال ایسے بھی ہیں جو انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں گزارے ۔ ان کی زندگی اور جدو جہد پر کئی کتابیں اور دستاویزات موجود ہیں۔ ان میں ان کی اپنی سوانح عمری آتش چنار بھی ہے، مگر اس کے باوجود ابھی تک ان کی زندگی اور فلسفے کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکا۔ ان کی زندگی کے کئی گوشے ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آئے۔
یہ کام کرنے کا بیڑا کچھ عرصے سے ڈاکٹر نائلہ علی خان نے اٹھایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نائلہ علی خان ، جو شیخ صاحب کی نواسی بھی ہیں وقتا فوقتا شیخ صاحب کی شخصیت اور جہدو جہد کے خفیہ گوشوں سے پردہ اٹھاتی رہتی ہیں۔ ان کی اس کوشش کا تازہ ترین نتیجہ ڈاکٹر نائلہ علی خان کی شیخ صاحب پر نئی کتاب ہے جو اگلے ماہ چھپ رہی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر نائلہ علی خان نے بڑی عرق ریزی سے شیخ صاحب کے خطوط ، تقاریر اور انٹرویوز جمع کیے ہیں۔ ان میں کئی انٹرویوز اور خطوط ایسے ہیں جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں اورایسے لوگوں کی نظروں سے بھی اوجھل رہے ہیں جو شیخ صاحب کی شخصیت اور فلسفے پر لکھتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر نائلہ علی خان کی یہ کتاب کشمیر کے موجودہ حالات میں نوجوان نسل کے لیے رہنمائی کا کام دے گی۔ کشمیر گزشتہ طویل عرصے سے جس طرح کے سیاسی، سماجی اور نفسیاتی حالات سے گزر رہا ہے وہ تشویشناک ہیں اور کشمیر کی نئی نسل کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
کشمیر کی نئی نسل کے ذہنوں سے شیخ عبداللہ جیسے صاحب بصیرت رہنماوں اورہیروز کے نام محو ہو رہے ہیں یا شوعری طور پر مٹائے جا رہے ہیں۔ اور بسا اوقات ایسے ہیروز ان کے سامنے ولن بنا کرپیش کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں نوجوان نسل کو رجعتی قوتوں کے ہاتھوں گمراہ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نائلہ علی خان کی کتاب اس حوالے سے ایک اہم اور بروقت کوشش ہے۔ کسی افریکی دانشور نے کہاتھا کہ اگر تم مجھے اپنے وہ ہیرو دکھاو جن کی طرف تمہاری نوجوان نسل فخر سے دیکھتی ہے تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ تمہارے ملک کا مستقبل کیا ہے۔