سجاد ظہیر
ہمارے خطے کو ترقی پسند اور خرد افروز بنانے کے خواب بہت لوگوں نے دیکھے تھے، ایسے لوگ جو اس سرزمین سے بہت پیار کرتے تھے۔ جنہوں نے سیاست کے لیے عملی کردار ادا کیا۔اس سماج کو انسانی تاریخ کا شاہکار سماج بنانے کا جو سپنا انہوں نے دیکھا ، اور اسی خواب کی تعبیرکو عملی جامہ پہننانے کے لیے ااپنی زندگی کی بازی تک لگا دی۔ یہ وہ لوگ تھے جو دہقان اور محنت کشوں کے فکر کو عالمِ انسان کے دکھوں سے نجات دلانے کا نظریہ سمجھتے تھے۔ ان کی تحریر دکھوں اور د وہیں میں لپٹے ہوئے محنت کشوں کی جب کہیں پکار بنتی تھی ، تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا درد ہے۔ یہ وہ لوگ تھے۔جو ادب کے ہر رومانس کو وطن پرستی، سامراج مخالف مزاحمت اور مظلوموں کی پکارکے سوائے کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، ایسے ادب کووہ ماسوائے خیال پرستی کے کچھ نہیں سمجھتے تھے۔
وہ ایک نیا سماج،نئی دنیا، نئی تاریخ اور نئی تبدیلی کے لیے لڑنے والے سماجی سائنسدان تھے۔ ان کے مطابق جب تک محنت کش اقتدار پر قابض نہیں ہوجاتے تب تک یہ آزادی جھوٹی ہے۔یہ وہ لوگ تھے بغیر کسی نسلی، گروہی، لسانی اور مذہبی فرق سے بالا تر ہوکر اپنا سیاسی اظہاکرتے تھے۔بے لاگ سچ بولنے والے ایسے راہنماؤں نے ہماری آزادی کی جنگ میں صفِ اول کا کردار ادا کیا۔ جب 1947 ء میں آزادی کا اعلان ہوا، ہر طرف نعرے گونجنے لگے، تو ایسے انقلابی وطن پرستوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بے دخل کردیا گیا۔ ایسے بہت نامور راہنماؤں کے نام آجاتے ہیں، جن کو تاریخ کا باب بنانے کی ضرورت ہے۔۔ایک ایسی تاریخ جس کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔جوعوام کی آوازکی پکار بنی رہی ہو ۔
ایسے ہی قبیلے کے ایک سرکردہ راہنما تھے۔ان کا نام حشوکیول رامانی تھا۔ جو سندھ کی بڑے بڑے مدبر راہنماؤں اور سیاسی کارکنان کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ سندھ کی سیاسی تاریخ کے بہت بڑے نام جی ایم سید نے کامریڈ حشمت ٹہلرام ” حشوکیولرامانی” کو اپنا سیاسی استاد تسلیم کیا ہے۔ سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر جس کو شاہ لطیف بھٹائی کے بعد بڑا مقام حاصل ہے اسی شیخ ایاز نے بھی کامریڈ حشو کو اپنا استاد اور اس کے پاؤں چھونے میں فخر محسوس کیا ہے۔حشو کیولرامانی اسی تقسیم کا شکار بنے جس نے لاکھوں حقیقی باشندوں کو اپنی جسرزمین سے الگ کیا۔
کامریڈ حشو کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں۔ وہ بہت بڑی شخصیت تھے۔ اس کی سیاسی زندگی کے کئی پہلو ہیں جن پر تفصیلی روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ان پر بہت سے مضامین لکھے گئے ہیں۔ جب کہ ایک دو کتابیں بھی حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں ان کے افکار اور حقیقت کے مطابق نہیں دیکھا گیا۔ آج بھی حشو کیولرامانی کو ان کے افکار اور ان کی سیاست کے اتار اور چڑھاؤ کے پیش نظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کو فلسفے کے بجائے ،تاریخ کے نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حشو ،ان کو پیار کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ جب کے ان کا اصل نام حشمت رائے تھا۔ سیاست اور ادب کے دنیا میں ہم انہیں حشو کیولرامانی کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں۔ آپ کا جنم بھریا ( آج کے تحصیل) ضلع نوشہروفیروز ( اس وقت ضلع نواب شاہ ) میں 20 دسمبر 1914 ء اتوار کی شب کو ہوا۔ آپ کے والدِ محترم کا نام دیوان تہلرام تھا، جو کہ روینو برٹش دور کے دوران سندھ میں مختیار کار تھے۔آپ کے والد بہت ہی ایماندار تھے۔ آپ کے دادا دیوان کھیؤ مل اپنے علاقے کے بہت بڑے زمیندار تھے۔ جب آپ آٹھ برس کے تھے تو آپ کے والدِ محترم 3 دسمبر 1922 ء کو انتقال کرگئے۔آپ کی پرورش آپ کی ماں نے کی۔
آپ کے علمی نشونما سے اندازہ لگایا سکتا ہے کہ آپ کی ماتا ایک بردبار خاتون تھی۔ آپ نے شروعاتی تعلیم اپنے آبائی شہر بھریا میں سے حاصل کی۔میٹرک کے لیے کراچی آگئے یہاں این جے وی اسکول سے آپ نے میٹرک پاس کیا۔ 17 سال کی عمر میں آپ ہندوستان سے باہر چلے گئے۔ 1935 ء میں حشو انگلینڈ گئے ، جہاں پہلے تو انہوں نے آئی سی ایس کی سروس اور ایرو ناٹیکل کے لیے پڑھائی شروع کی۔ یہ مضامین حشو کی پسند کے نہیں تھے۔ اسے خیر آباد کرکے آپ نے سیاست اور معاشیات کو پڑھنا شروع کیا۔ حشو کی اسکولنگ اتنی اچھی تھی کے وہ اگر ان مضامیں کو نہیں بھی پڑھتے تو تب بھی ان کے حافظ ہوتے۔ یہی ہوا کہ حشو کا من ان مضامین سے ہٹ گیا۔ انہوں نے اکیڈمک کے بجائے اپنے شوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف مضامین ادب ، فلسفہ اور تاریخ کا مطالعہ اکیڈمک تعلیم سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کیا۔
لندن میں ہندوستان کے بہت بڑے کانگریسی راہنما کرشنا مینن کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ کانگریس کے کی ذیلی شاخ کے دفتر ” انڈیا آفیس” میں کام کرنے اور نامور آزادی پسند راہنماؤں پنڈت جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی ، فیروز گاندھی اور بڑے بڑے مارکسسٹ راہنماؤ ں کے ساتھ بحث مباحث ہوئے۔ انہوں نے بہت سے نظریات کا مطالعہ کیاجس کے بعد ان اس نتیجے پر پہنچے کے مسائل کا حل سوشلزم کے نظریات میں ہے۔ سنہ1939 ء میں آپ سندھ واپس آئے یہاںآپ نے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنا شروع کیا۔یہ تنظیم سندھ میں طلبہ کے اندر ترقی پسند سیاست کے فروغ کے لیے کوشاں تھی۔
اس قافلے میں کامریڈ سوبھو گیان چندانی، کامریڈ جمال ادین بخاری، پوہو مل، گوبند مالھی، اے کے ہینگل اور دیگران وطن پرست ترقی پسند اپنی نظریاتی اساس سے کانگریس او لیگ کی سیاست میں طبقاتی اور مذہبی فرق کو واضح کرتے جارہے تھے۔حشو کیول رامانی نے ان تمام می بات رکھنے اور تقریر کے فن پہ مہارت رکھتے تھے۔ اس بات کی گواہی شیخ ایاز سے لیکر گوبند مالھی تک اور کیرت بابانی سے لیکر جی ایم سید کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ حشو کیولرامانی سندھ میں طلبہ سیاست کے بانی راہنماوں میں سے تھے۔ ان کی سیاست کا محور ترقی پسند سماج تھا۔ آپ کے قلم سے لکھے ہوئے وال پوسٹر اور ہینڈ بل اتنے طاقتور ہوا کرتے تھے کہ ان سے خوف زدہ ہوکر برٹش آرمی کے افسران آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے تھے۔
برِصغیر میں آزادی کی لڑائی کے دوران ” ہندوستان چھوڑو تحریک” کے نعرے گونجنے لگے ، تو کامریڈ حشو نے اس سے سخت اختلاف کیے۔وہ کسی بھی عالمی فارمولے کے تحت مقامی تحریک کو سبوتارژ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر ایک تحریک کو تنقیدی نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ بمبئی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے دفتر آکر ٹھہرے۔ دوسری عالمی جنگ اور خطے کی انقلابی عوامی سیاست پراپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے رہے۔ لیکن وہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نہیں منوا سکے۔اختلاف رائے رکھنے کے باوجو د جب ہٹلر نے سوویت یونیں پر حملہ کیا، تمام دنیا کے جمہوریت پسندوں اور ترقی پسند قوتوں نے نازی ازم کے خلاف آواز بلند کی۔تو حشو بھی سندھ کے راج دھانی کراچی سے اپنے ساتھیوں قاضی مجتبیٰ، سنتوش دھرمانی ، پریتم ٹہلرامانی، سوبھوگیان چندانی ، اوتار کرشن ہینگل اور گوبند مالھی کے ہمراہ جنگ مخالف جلوسوں کی قیادت کی۔ اور حملے کے کی سخت مخالفت کی۔ 1940 ء میں گرفتار ہوئے۔ ایک سال تک جیل میں رہے۔
بمبئی میں میں قیام کے دوران حشوکیولرامانی ایک کامریڈ خاتوں کو دل دے بیٹھے۔ جو ایک بڑے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ حشو سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن حشو نے نہیں کی۔شاید آپ میں اس تعلق کو نبھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے دھوکے سے شادی کرنے کو ٹھکرا کر اپنے کامریڈ ہونے کا ثبوت دیا۔ ایک وقت ایسا آیا جب برصغیر کو آزادی ملی دو ملک بنے سرحدیں بنیں۔ جنہوں نے بڑی بڑی خواہشوں کے ساتھ لوگوں کوبھی تقسیم کیا۔ انہیں اس کا شکار ہونا پڑا۔
حشو کے لیے سندھ کو چھوڑنا ایک عظیم گناہ کے برابر تھا۔ وہ ہندوستان کے بجائے انگلینڈ جانا چاہتے تھے ، تاکہ واپسی کے امکان باقی رہ سکیں۔وہ سندھ کے شہر ی بن کر یورپ جانے کے حق میں تھے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور چاہیے تھا۔ کامریڈ حشو کے تمام راستے تب بند ہوگئے جب انہیں سندھ چھوڑنے کا فرمان مسعود کھدر پوش کے ہاتھوں تھما دیا گیا۔ مسعود جسے وہ اپنا دوست سمجھتے تھے۔ لیکن انہوں نے دوستی کا حق یہ ادا کیا کے حشو کو یہاں سے نکالنے کے تمام اقدام اسی مسعود کے ہاتھوں ہوئے۔
یہ آزادی جس میں اس زمین کے بیٹوں کی عملی، علمی اورمالی جدوجہد شامل تھی۔لیکن اس آزادی نے حشو کیولرامانی کو یہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ حشوکیول رامانی کو تمام غیرمسلم آزادی پسند راہنماؤں کے ساتھ جیل میں بند کردیا گیا۔آپ نے جیل میں درخواست دی کہ سندھ میری ماں ہے، میرے آباواجداد کا وطن ہے، میں یہاں رہنا چاہتا ہوں ، لیکن حشو کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، دسمبر 1949 ء میں انہیں ایکروز جیل میں بتایا گیا ، کہ ان کی جانب سے سندھ میں رہنے والی درخواست رد کردی گئی ہے۔جیل سے ہی سیدھا ایئرپورٹ جانا پڑیگا۔
حشو جو کے اس وقت ایس ایم لا کالج کے قریب ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔وہ دل برداشتہ ہوگئے۔ کہا ” میں پہلے اپنے فلیٹ اور جی ایم سید کی رہائش گاہ، حیدر منزل جاؤں گا ، اس کے بعد ہی ائیرپورٹ جاؤں گا۔ یاد رہے کامریڈ حشو اپنا فلیٹ اور کتابیں شیخ ایاز کے سپرد کر کے گئے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کے وہ لوٹ آئیں گے۔ یہ فلیٹ حشو کے سیاسی دوست مونس ( جس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا ،حشو کے ساتھ رہتے تھے) نے بیچ دیا۔
ہندوستان جانے کے بعدحشو کیولرامانی نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ جہاںآپ نے سرلا نامی خاتوں سے شادی کی۔جسے حشو کراچی سے جانتے تھے۔ انگریزی صحافت کو جوائن کیا۔ حشو ہندوستان میں بے چین رہنے لگے ، آپ کی بے چینی کا اندازہ کوئی بھی نا لگا سکا۔اوروہ دہلی کو خیر آباد کرکے بمبئی میں آگئے۔کراچی میں حشو کے ہمراہ کام کرنے والے ترقی پسند راہنما کیرت بابانی کے مطابق ان کا ذہنی میزان ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ کیا ہوا کچھ پتا نہ تھا ، کیرت کے مطابق انہوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، قریبی دوستوں سے پیسے لیا کرتے تھے۔کہتے تھے کہ ’’کلاسک ورلڈ‘‘ لکھ رہا ہوں جس سے ملنے والی آمدنی کے بعد یہ ادھار واپس کردوں گا۔ کیرت نے مزید لکھا ہے کہ رہائش کے حوالے سے پہلے اپنی بوڑھی بہن کے گھر میں رہتا تھا، لیکن دیر سے آنے کی وجہ پر وہاں سے بھی نکال دیے گیے۔ اس کے بعد لاوارثوں کی طرح جہاں نیند آئی وہاں سو گئے۔
سندھ کے اس عظیم دانشور نے خود کو ہمیشہ جلاوطن سمجھا، ایک دن حشو کا غائب ہو جانا آج تک یہ بات ایک گمنام بنی ہوئی ہے۔ جس رات وہ غائب ہوئے ، اسی رات ممبئی میں بہت تیز بارش ہوئی۔ اور حشو کیول رامانی بمبئی میں سڑکوں پر ہی سوجاتے تھے۔ اسی بارش کی رات کے بعد کسی نے بھی حشو کو نہیں دیکھا۔کیرت کے مطابق آخری بار جس شخص نے انہیں دیکھا وہ حشو کے قریبی رشتے دار تھے۔یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہندوستان میں آباد سندھی بولنے والوں نے اس دانشور کیوں نہیں سنبھالا۔ حشو وہاں کے کم علموں سے عقل کی امید رکھتے رہے۔حشو کہا کرتے تھے کہ تم میری قدر کیا جانو؟ میری لیول کا پتا شیخ ایاز اور جی ایم سید سے جاکر پوچھو۔ سندھ والے میری قدر کریں گے۔
سنہ 1963ء میں جب شیخ ایاز ہندوستان گئے۔ ان کی دہلی میں حشو کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ شیخ ایاز کے مطابق حشو نے ان سے کہا ایاز! میرے پیروں میں بیٹھو تاکہ ان ہندوستانی سندھیوں کومعلوم ہو کہ میں کون ہوں؟۔ شیخ ایاز حشو کے پیروں میں بیٹھ گئے، اور کہا کہ میری تربیت میں حشو کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ رخصت ہوتے وقت حشو نے مجھے کہا کہ کہ ایاز ایک بات یاد رکھنا ! پاکستان میں کبھی بھی کسی رفیوجی پہ ہاتھ نہیں اٹھانا، اٹھایاتو سمجھنا کے حشو ہندوستان میں ہے۔
حشو سندھ میں مارکسسٹ تحریک کے بانی کارکنان میں سے تھے، وہ ایک سوشلسٹ وطن پرست تھے،۔ایسے وطن پرست راہنماؤں کو ہندوستان میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ بھارت میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لیے فریڈم فائیٹر ز کا وظیفہ مقر کیا تھا، جو ہر ماہ دیا جاتا تھا۔ لیکن حشو کیولرامانی نے وہ وظیفہ لینے سے انکار کیا تھا۔ میرے خیال میں کامریڈ حشو کو یہ اعزاز لینا چاہیے تھا۔ کیوں کہ وہ اس کے حقدار تھے۔ سوویت یونین بھی ایسے سوشلسٹ آزادی پسند جس نے درانتی اور ہتھوڑے کے سائے میں محنت کشو ن کے شانہ بہ شانہ آزادی کی جنگ لڑی ہو انہیں برے وقت میں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ حشو اتنا دور سوویت یونین سے کیسے رہا ؟
میری جانکاری کے مطابق افغانستان کے عظیم سوشلسٹ راہنما ببرک کارمل نے بھی زندگی کے آخری ایام سوویت یونیں میں ہی گزارے ، میرے خیال میں ان کی وفات بھی سویت یونین میں ہوئی۔ حشو ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے اتنے دور کیسے اور کیوں رہے ؟ یہ سوالات بھی اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔ کیوں کے کیرت بابانی نے لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد جب وہ ہندوستان پہنچے تو وہ بہت عرصہ کمیونسٹ پارٹی کے آفس میں رہے۔ کیا حشو اس قابل نہیں تھے؟
حشو کی داستان غم میں نڈھال کر دیتی ہے۔آنکھیں نم دیدہ ہوجاتی ہیں،جگر دردیدہ ہوجاتا ہے اور دل غم دیدہ ہوجا ہے۔فن، محبت اور فکر کسی بھی رکاوٹ سے نہیں رک پاتا۔ پاک اور ہند کی سیاست پر سینکڑوں مضامیں لکھنے والے اس عظیم انقلابی کے لیے اچھا اعزاز یہ ہوگا کہ ایک پروگریسو انسٹیٹیوٹ تشکیل دیکر آزادی اور آزادی سے پہلے سماجی اور سیاسی سطح پر عوامی ادب اورعوامی تاریخ کو یکجا کیا جائے۔جس میں تاریخ اور ادب میں سینکڑوں ایسے وطن پرست ترقی پسند ملیں گے جن کی فکری نشوو نما حشو کیول رامانی جیسے مدبر دانشور کی ہے۔
آئیے ہم حشو کیولرامانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے ذہنوں میں ترقی پسندی اور انسان دوستی کے فکر کو مسکن بنائیں۔ ایسے نظریات کو آگے بڑھائیں ، جو علم کی تقسیم کے بجائے ان کے حفاظت کے لیے کوشاں رہیں۔ سچے جذبات گواہی دیں گے کہ ہم ہی اس سماج کو بدلیں گے جس کو بدلنے کے لیئے حشو کیولرامانی کی طرح بہت سے ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگیاں گنوا دیں۔
♦