آٹھ سو سال پہلے ہندوستان میں سلطان شمس الدین التتمش کے دور میں نیشا پور ،ایران سے نقل وطن کرنے والے سید محمود نے اتر پردیش کے ضلع اناوٗ کی بستی موہان میں سکونت اختیار کی تھی۔ چھ سو سال بعد ان کے خاندان میں یکم جنوری 1875کو اپنی نانی کے مکان ، بارہ دری میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام سید فضل الحسن رکھا گیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ جو بڑا ہوکر حسرت موہانی کہلائے گا، ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کو للکارے گا اور پہلی بار ہندوستان کی کامل آزادی کا نعرہ بلند کرے گا۔ یہ بچہ نہ صرف بر صغیر کے سیاسی افق پر چھا جائے گا بلکہ شعر و شاعری ، صحافت ،ادب اور تنقید کے میدان میں درخشاں مقام حاصل کرے گا۔
حسرت موہانی اس اعتبار سے خوش نصیب تھے کہ ان کو ابتدائی تعلیم، ان کی نانی اور والدہ نے دی ، جو پڑھی لکھی تھیں اور جنہیں شعرو شاعری سے گہرا لگاو تھا، یہی وجہ ہے کہ حسرت میں بچپن ہی سے شعر و شاعری سے شوق پیدا ہوا ۔ اس کے ساتھ انہوں نے پتنگ بازی ،تیراکی اور لاٹھی چلانے کے فن میں بھی مہارت حاصل کر لی۔کہتے ہیں کہ پتنگ بازی میں سارے موہان میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔
پانچ سال کی عمر میں موہان میں میاں جی سید نظام علی کے مکتب میں دینی تعلیم کے لئے بٹھائے گئے۔ اس کے بعد مڈل اسکول میں تعلیم حاصل کی ، مڈل کے امتحان میں سارے صوبہ میں اول آئے ۔ میٹرک کی تعلیم کے لئے فتح پور بھیجے گئے اور 1898 میں گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور پورے صوبہ میں اول آئے۔ ایم اے او کالج علی گڑھ میں ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین نے جب گزٹ مین پڑھا کہ حسرت موہانی، پورے صوبہ میں اول آئے ہیں تو انہوں نے حسر ت کو علی گڑھ آنے کی دعوت دی ۔
حسرت کا حلیہ عجیب وضع کا تھا۔ پستہ قد، دبلا پتلا بدن،گندمی رنگ ، گول نقشہ اور اس پر ہلکے سے چیچک کے داغ ، آنکھوں پر چھوٹے سے گول شیشوں کی عنیک ۔ جب علی گڑھ کالج پہنچے تو ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ یہ حضرت یکے سے اتر کر بورڈنگ ہاوس میں داخل ہوئے تو ڈھیلا پائیجامہ پہنے ہوئے تھے ۔پاوں میں گٹھیلی جوتی ، ہاتھ میں پاندان، اس حلیہ کو دیکھتے ہی یاروں نے ’’ خالہ جان ‘‘کی پھبتی کسی۔
حسرت نے علی گڑھ سے 1903 میں بی اے کیا۔ وہ بی اے کے بعد ایل ایل بی کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں وظیفہ نہ مل سکا۔ سرکاری نوکری وہ نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے صحافت کو ذریعہ معاش بنایا اور علی گڑھ ہی سے اردوئے معلی کے نام سے ایک ماہانہ جریدہ جاری کیا ۔ حسرت نے اس جریدہ کا بڑا مقصد ، درستی مذاق قرار دیا تھا۔ اس میں اردو کے سینکڑوں ممتاز اور گمنام شعراء کے کلام کا انتخاب شایع کیا گیا ، یہ محض ادبی رسالہ نہیں تھا بلکہ اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست و حالات پربھی مضامین شایع ہوتے تھے۔
سنہ1908میں اردوئے معلی میں شایع ہونے والے ایک مضموں پر جس میں مصر میں انگریزوں کی حکمت عملی پر کڑی نکتہ چینی کی گئی تھی ، حکومت نے حسرت پر مقدمہ چلایا اور انہیں دو سال قید با مشقت کی سزادی۔ یہ شروعات تھی حسرت کی جیل یاتراؤں کی۔ حسرت تین بار جیل گئے اور تقریبا چھ سال جیل میں گذارے ۔جیلوں میں اذیت ناک زندگی کے بارے میں حسرت نے اپنی کتاب قید فرنگ میں پہلی بار جیل میں داخلہ کا احوال یوں لکھا ہے’’ قید سخت کا آغاز اس طور سے ہوا کہ کچہری سے جیل پہنچتے ہی ایک لنگوٹ ، جانگیہ اور کرتا اور ٹوپی پہننے کے لئے ایک ٹکرا ٹاٹ اور ایک کمبل اوڑھنے کے لئے اور لوہے کا ایک قدح رفع حاجت کے لئے دیا گیا۔ جیل کی سخت مشقت چکی سے پہلے ہی روز سابقہ پڑا۔ ہر روز ایک من گہیوں پیسنے کے لئے دیا جاتا تھااور اس میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں ہوتا تھا۔علی گڑھ سے حسرت کو الہ آباد سنٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس بڑے جیل میں تعلیم یافتہ قیدی کی حیثیت سے ان سے دفتری کام لیا جائے گا لیکن وہاں بھی انہیں چکی پیسنے سے نجات نہیں ملی۔
اردوے معلی سے آمدنی محدود تھی ، کبھی پانچ سو روپے سے زیادہ نہیں رہی۔ان کے جریدہ پر جب جرمانہ عائد کیا گیا تو اس وقت ان کے پاس پانچ سو روپے بھی نہیں تھے کہ وہ جرمانہ ادا کر سکیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کی نایاب کتابیں حکومت نے ساٹھ روپے میں فروخت کر دیں اور یہی نہیں انہیں ایک سال کی قید با مشقت بھی بھگتنی پڑی۔
حسرت ابھی علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم تھے کہ ان کی شادی نشاط النساء بیگم سے ہوئی۔یہ شادی حسرت اور نشاط النساء کی باہمی مرضی سے ہوئی ۔ دونوں کا عشق زندگی بھر رہا ۔ ان کی شریک حیات پڑھی لکھی خاتون تھیں اور اردوے معلی کے اجراء کے بعد وہ علی گڑھ آکر حسرت کے ساتھ رہتی تھیں ۔ بیگم حسرت کے لئے بہت بڑا سہارا تھیں ، حسرت جب پہلی بار جیل گئے تو اس وقت ان کی نومولود بچی تھی جو بیمار تھی۔ بیگم نے ان حالات میں بھی اپنے شوہر کا خیال رکھا اور کئی بار ان کی خیریت معلوم کرنے اور ان کی ہمت بندھانے جیل گئیں اور ان کے مقدمات کی پیروی کی۔ نشاط النساء بیگم نے حسرت کے کلام کی ترتیب و اشاعت کے علاوہ دو سفرنامے بھی قلم بند کئے ۔ سفر نامہ حجازاور سفر نام عراق۔ نشاط النساء بیگم کا حسرت سے سیتیس سال تک ساتھ رہا ۔ 1937میں کانپور میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئیں۔ نشاط النساء بیگم کے انتقال کے بعد حسرت نے اپنے خاندان میں ایک بیوہ خاتون سے شادی کر لی۔
جن دنوں حسرت علی گڑھ میں اردوے معلی نکال رہے تھے انہوں نے سودیشی تحریک شروع کی ۔وہ ملک کی آزادی کے لئے اس تحریک سے دل و جان سے وابستہ رہے اور مرتے دم تک کوئی بدیشی شے استعمال نہیں کی ۔ حسرت نے علی گڑھ میں سودیشی اسٹور کے نام سے سودیشی کپڑوں کی دکان قائم کی ۔ ان کی تجارتی سرگرمیوں کو دیکھ کر مولانا شبلی نے ان سے کہا تھا کہ تم آدمی ہو یا جن۔ پہلے شاعر تھے پھر پالیٹیشن بنے اور ا ب بنیے بن گئے۔ ان کی دکان چل نکلی اور ان کا ارادہ تھا کہ ایسی ہی دکانیں وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں کھولیں گے لیکن سیاسی انقلابات نے ان کو کبھی بنیا بن کر اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیا اور وہ آخر کار خسارہ کا شکار ہو گئے۔
حسرت نے اپنی درویشانہ طبیعت اور مجاہدانہ مزاج کی بدولت اپنی عسرت کے دن بڑی ہمت سے کاٹے۔ حسرت قانون ساز اسمبلی اور دستور ساز اسمبلی کے بھی رکن رہے لیکن انہوں نے کبھی مراعات قبول نہیں کیں اور نہ کبھی پارلیمنٹ کی تنخواہ یا الاونس وصول کیا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران وہ پارلیمنٹ کے سامنے ایک کونے میں واقع چھوٹی سی مسجد میں قیام کرتے تھے۔ ان کا سامان جیوٹ کے ایک بدرنگ تھیلے اور اس سے بندھے ایک لوٹے اور تھیلے میں رکھے کاغذات پر مشتمل تھا۔
حسرت کی فقیرانہ اور سادہ زندگی کے بارے میں ایک قصہ بہت مشہور ہے ۔ایک غیر ملکی صحافی حسرت سے ملنے کانپور گئے ۔ کسی نے بتایا کہ حسرت فلاں گلی میں رہتے ہیں۔ یہ صحافی جب اس گلی میں پہنچے تو دیکھا ایک بڑے میاں گلی میں لگے بمبے سے بالٹی بھر بھر کر گھر لے جارہے ہیں۔ صحافی نے پوچھا کہ حسرت کہاں رہتے ہیں ، تو یہ صاحب اس صحافی کو ایک چھوٹے سے مکان کی طرف لے گئے اور ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر انہیں صحن میں رکھی کھری چارپائی پر بٹھا کر کہا کہ حسرت ابھی آپ سے ملنے آتے ہیں ۔ حسرت جب گھر کے تمام گھڑوں میں پانی بھر چکے تو صحافی کے پاس آئے اور کہا میں ہوں حسرت۔ صحافی کو اس قدر اچھنبا ہوا کہ کھری چارپائی کی پٹی سے جس پر وہ بیٹھے تھے زمین پر گر پڑے۔
حسرت کی سیاسی زندگی ان کے غیر معمولی سیاسی شعور ، حق گوئی اور اپنے نظریات اور اصولوں پر عزم و استقلال کے ساتھ اٹل رہنے کے شدید جذبات سے عبارت تھی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز تو ان کی طالب علمی کے زمانے سے ہوگیاتھا جب آزادی کی لگن اور بر صغیر پر مسلط انگریز وں کے خلاف جذبات کے اظہار پر کالج کے انگریز پرنسپل نے انہیں تین بار ہوسٹل سے نکال دیا تھا لیکن کالج کے ناظم نواب محسن الملک حسرت کی بے حد قدر کرتے تھے اس لئے انہیں کالج کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔
کالج کی تعلیم کے فورا بعد حسرت نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور سرکردہ آزادی کے متوالوں ، لوک مانیا تلک اور اربندو گھوش کی پیروی اختیار کی۔
دسمبر 1920میں احمد آباد میں کانگریس کا سالانہ اجلاس تھا۔ سبجیکٹ کمیٹی میں حسر ت نے ہندوستان کی مکمل آزادء کے مطالبہ کی تجویر پیش کی ۔ گاندھی جی نے زور دیا کہ حسرت یہ تجویز واپس لے لیں لیکن ان پر گاندھی جی کی مصالحت اندیش گفتگو کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے دوسرے روزعام اجلاس میں یہ تجویز پیش کر دی ۔ یوں حسرت پہلے رہنما تھے جنہوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا۔
سنہ1921میں ترک موالات کا زور تھا، گاندھی جی اس زمانہ میں کانگریس پر چھائے ہوئے تھے ۔ حسرت گاندھی جی کی قیادت کے خلاف تھے انہیں خدشہ تھا کہ گاندھی جی کہیں تحریک کو ختم نہ کردیں اور جب گاندھی جی نے 1922میں ترک موالات کی تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا تو حسرت بد دل ہوگئے اور انہوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔
آزادی کی تڑپ حسرت کو ہر اس محاذ پر لے گئی جو آزادی کے لئے قائم تھا۔ 1925میں حسرت نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اسی سال جب کانپور میں کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی تو حسرت اس کی مجلس استقبالیہ کے صدر تھے ۔ اسی کانفرنس میں خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے انہوں نے کمیونزم اور اسلام کے بارے میں کہا کہ ہمارے بعض مسلمان لیڈر بلا وجہ کمیونزم کو اسلام کے بر خلاف بتاتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ مثلا کم از کم سرمایہ داری کے خلاف تو اسلام کا فیصلہ شاید کمیونزم عقیدہ سے بھی زیادہ سخت ہے اور فریضہ زکواۃ کا منشا بھی زیاد تر یہی ہے ۔ مال داروں کو عیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قران پاک میں نماز کے بعد سب سے زیادہ زور زکواۃ پر ہی دیا گیا ہے۔ حسرت کا کہنا تھا ۔ درویشی و انقلاب مسلک میرا۔۔ صوفی مومن ہوں اشتراکی مسلم۔ لینن کی شان میں وہ کہتے ہیں۔
گاندھی کی طرح بیٹھ کے کیوں بات کریں ۔۔ لینن کی طرح دیں گے دنیا کو ہلا ہم
حسرت کی شخصیت بھی بہت سے لوگوں کے لئے اک طرفہ تماشا تھی۔ ایک طرف کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی ، دوسری جانب مزاروں پر عرسوں میں شمولیت اور قوالی میں شرکت اور اسی کے ساتھ کرشن کنہیا کی شان میں قصیدہ گوئی۔ اسی بناء پر بعض لوگ انہیں ہندوستان کی کثیر المذہبی تہذیب کا آینہ دار تصور کرتے تھے۔
گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو دو ہی رہنماوں نے چیلنج کیاتھا ایک محمد علی جناح اور دسرے حسرت موہانی ۔ پھر یکے بعد دیگرے دونوں رہنماوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ محمد علی جناح نے 1921میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کی اور حسرت نے 1922میں کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کی۔
حسرت کو شروع میں مسلم لیگ سے عقیدت نہیں تھی لیکن جب 1914میں مسلم لیگ نے ہندوستان کی خود مختاری کی تجویز پیش کی تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور دوسرے ہی سال انہوں نے بمبئی میں لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں لیگ کی رکنیت قبول کی اور 1947تک مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ 1945 میں مسلم لیگ ہی کے ٹکٹ پر حسرت یو پی اسمبلی اور پھر دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1922میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں حسرت نے پھر ایک بار مکمل آزادی کا مطالبہ دہرایا اور تشدد اور چھاپہ مارجنگ کے طریقے کی حمایت کی ۔ ان کا خطبہ صدارت ضبط کر لیا گیا اور انہیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔
حسرت موہانی ، پاکستان کے مطالبہ کے تو حامی تھے لیکن پاکستان کے خودمختار علاقے ہندوستان کی یونین میں شامل رکھنے کے حق میں تھے۔ حسرت اس انداز کی تقسیم کے خلاف تھے جس کی مسلم لیگ میں حمایت کی جارہی تھی۔
سنہ1947میں ۳ جون کے منصوبہ کی حسرت نے مسلم لیگ کاونسل کے اجلاس میں ڈٹ کر مخالفت کی لیکن ان کی آواز دبا دی گئی۔ میاں افتخار الدین نے جو مسلم لیگ کاونسل کے اس اجلاس میں شریک تھے ، روز نامہ امروز کراچی کے عملہ کی ایک نشست میں بتایا تھا کہ جب قائد اعظم نے ۳ جون کا منصوبہ منظوری کے لئے کاونسل کے سامنے پیش کیا تو حسرت نے کھڑے ہو کر بڑے دبنگ انداز سے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ منصوبہ پاکستان کے مطالبہ کے مطابق نہیں ہے ۔ اس پر ہال میں شور برپا ہوگیا ۔ حسرت موہانی کے پیچھے مسلم لیگ کے دو نوجوان کارکن ، یوسف ہارون اور احمد ای ایچ جعفر بیٹھے تھے۔ انہوں نے حسرت کی شیروانی کھینچ کر انہیں بٹھانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے حسرت نیچے گر پڑے۔ اس پر ہال میں زبردست شور مچ گیا۔
قائد اعظم نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے ، فورا کاونسل سے کہا کہ وہ ان کی قیادت پر اعتماد کا ووٹ منظور کرے۔ کسی نے مخالفت نہیں کی اور اعتمادکا ووٹ منظور ہونے کے بعد قائد اعظم نے اعلان کیا کہ وہ ۳ جون کا منصوبہ منظور کرتے ہیں ۔ یوں پاکستان کے قیام کا منصوبہ کاونسل میں کسی رائے شماری کے بغیر منظور ہوا۔
حسرت اور مشرقی بنگال کے بیشتر رہنماوں کا استدلا ل تھا کہ ۳ جون کے منصوبہ کے تحت تقسیم اس قرارداد کے خلاف تھی جو لاہور میں 1940میں مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی جس میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۳ جون کے منصوبہ کے تحت بر صغیر کو دو مملکتوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کیا گیا ۔ تقسیم کے بعد مسلم لیگ کے تمام بڑے رہنما پاکستان منتقل ہوگئے لیکن حسرت نے کانپور ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور یہیں 13مئی 1951کو حسرت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔انتقال کے وقت حسرت کی عمر 73 سال تھی ۔
حسرت موہانی نے اپنی زندگی میں 13حج کئے ۔ پہلا حج انہوں نے 1933میں کیا اور آخری حج 1950میں ادا کیا ۔ 1938میں حج کے بعد انہوں نے ایران، عراق اور مصر کا دورہ کیا۔
حسرت کی بے باکی لاجواب تھی انہوں نے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق بڑے سے بڑے سے اختلاف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ انہوں نے اقبال کے ابتدائی کلام پر سخت اعتراضات کئے اور حالی کی قومی شاعری کے کمزور پہلووں کی بھی نشان دہی کی۔ حسرت زبان کی صحت کا بے حد خیال رکھتے تھے اور اسی ضمن میں انہوں نے نکات سخن کے عنوان سے اپنی کتاب میں متروکات اور قابل ترک الفاظ کی تفصیل تیار کی۔
صف اول کے مجاہد آزادی کے ساتھ حسرت اردو کے بلند پایہ اور منفرد شاعر، اہم تذکرہ نگار اور قابل قد ر نقاد بھی تھے۔ حسرت بڑے طمطراق سے شاعری کے میدان میں وارد ہوئے تھے یہ زمانہ تھا جب غزل کی نشاۃ ثانیہ شروع ہوچکی تھی ۔ غزل میں نئی آوازیں گونج رہی تھیں۔حسرت غزل کے میدان میں اس آن بان سے آئے کہ غزل کی نشاۃ ثانیہ کا سہرا نقادوں نے حسرت کے سر باندھا۔ حسرت کے بارے میں یہ بات بے حد اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے غزل میں روایتی موضوعات کا سہارانہیں لیا بلکہ انہوں نے اپنی فکر اور دل کو حسن اور عشق کی رعنایوں سے سجائے رکھا۔ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے اپنے خاص انداز سے پیش کر دیا۔ حسرت کی نظر میں اچھی شاعری کے تین اہم عناصر ہیں، اعلی جذبات ، جذبہ نگاری اور واقع نگاری ۔ حسرت کی شاعری کے عاشق میں جنسی جذبات کی شدت ہے لیکن شائستگی کے دائرہ میں۔
دل میں کیا کیا ہوسِ دید بڑھائی نہ گئی
رو بہ رو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
سیہ کار تھے، با صفا ہوگئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہوگئے ہم
جمالِ یار کی زندہ دلاویز اور متحرک تصویر یں جو حسرت نے پیش کی ہیں وہ کسی اور شاعر نے پیش نہیں کیں۔ انہوں نے محبوب کے جسم ، لباس اور زیور کا ذکر روایتی انداز میں نہیں کیا بلکہ محبوب کے جسم کو اسی انداز سے پیش کیا جس رنگ میں وہ متاثر ہوئے ۔
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
رونقِ پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنیں
اور بھی شوخ ہوگیا رنگ ترے لباس کا
پھر جذبات سے بھرپور اپنے عشق کی منظر نگاری دیکھئے۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لئے
وہ ترا کوٹھے پر ننگے پاوں آنا یاد ہے
حسرت کی شاعری میں زندگی ، زبردست شعری محرک ہے۔ وہ شاذ و نادر ہی موت کا ذکر کرتے ہیں شاید وجہ یہ کہ عاشقانہ زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں منہمک رہے کہ موت کی طرف توجہ نہ کر سکے ۔ وہ سراپا عشق تھے اور ان کے نزدیک موت پر کوئی چیز فتح پا سکتی ہے تو وہ عشق ہے۔
اس حقیقت کی طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں کہ اردو صحافت کا شروع ہی سے مزاج باغیانہ رہا ہے ۔ یہی انداز حسرت کی صحافت پر حاوی رہا۔ 1881سے لے کر 1951تک حسرت کا دور بر صغیر کی تاریخ میں انقلابی دور رہا ہے ۔ بر صغیر نے جاگیر داری دور سے سرمایہ داری کے دور میں قدم رکھا او رپھر اشتراکیت سے ہم کنار ہوا۔ حسرت اردو کے پہلے صحافی تھے جو بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوئے اور کل ملا کر چھ سال تک قید و بند میں گذارے ۔ حسرت موہانی کے صحافتی کارناموں کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ اردوے معلی کے بعد انہوں نے1928 میں کانپور سے مستقبل کے نام سے روزنامہ جاری کیا لیکن سرمایہ کی کمی کی وجہ سے یہ روزنامہ 1936 میں بند کر دینا پڑا ۔حسرت نے اپنے رسایل اور اخبار کے ذریعہ ادب اور سیاست دونوں کی بڑی بے باکی سے خدمت کی ۔
فیض صاحب نے مولانا حسرت موہانی کو نذر انہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے
یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے شاہی نہیں مانگیں گے ، ولایت نہ کریں گے
ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافی جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے۔
کیسا خوش نصیب دور تھا بر صغیر کا جب اس کی فضاؤں نے حسرت کا کامل آزادی اور انقلاب زند ہ باد کا نعرہ سنا اور یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ اب حسرت ایسے اصولی اور اپنے نظریات پر جان دینے والے بے باک سیاست دان، اعلی پایہ کے شاعر اور صحافی پیدا نہیں ہوتے۔
شیرینی نسیم ہے ، سوزو گداز میر حسرت ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام۔
♦
One Comment