آصف جاوید
جدید اصطلاح میں انسانی ترقّی سے مراد ،انسان کو اچھّی زندگی گزارنے کے لئے وسیع تر مواقعوں کی فرا ہمی کے مربوط نظام کی موجودگی اور فراوانی ہے۔ترقّی یافتہ ملکوں میں (یا ترقّی یافتہ معاشروں میں) رہنے والے انسانوں کو زندگی گزارنے کے وسیع تر مواقع حاصل ہوتے ہیں۔انسانی ترقّی کے لئے دو عوامل لازم و ملزوم ہیں، پہلا عامل ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ ہوتا ہے۔ جس کا کام انسانی وسائل کو ترقّی دے کر انسان کی اپنی فطری صلاحیتوں کو بڑھاوا دینا ہے، اور دوسرا عامل قدرتی وسائل اور انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ ہوتا ہے، جس کا کام اِنسان کی فطری صلاحیتوں کے استعمال کے لئے وسیع تر مواقعوں کا مربوط نظام فراہم کرنا ہوتا ہے۔
انسانی ترقّی کا براہِ راست تعلّق انسانی وقدرتی وسائل اور انفراسٹرکچر کی ترقّی سے ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں انسانی و قدرتی وسائل اور انفراسٹرکچر کو ترقّی دئے بغیر انسانی ترقّی کا تصوّر بھی محال ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی ’’یواین ڈی پی‘‘ کی جانب سے سال 2016ء کے لیے جاری کی جانے والی انسانی ترقی کے انڈیکس کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی صورتحال شرمناک حد تک تشویشناک ہے۔ رپورٹ میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پر پاکستان کا مقام 147 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی انڈیا بھوٹان، بنگلہ دیش ، فلپائن وغیرہ انڈیکس میں پاکستان سے اونچے اور بہتر مقام پر ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی ترقی کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم رہی ہے۔ دنیا کے 188 ملکوں میں سے پاکستان کا انسانی ترقی کے حوالے سے 147 واں نمبر ہے۔
انسانی ترقی کے عالمی جائزے کا آغاز 1990 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس جائزے کے مطابق دنیا کے تمام ملکوں کی ترقی کو ان کی اقتصادی ترقی کے ذریعے نہیں، بلکہ ان ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے معیار زندگی ، اچھّی زندگی گزارنے کے لئے وسیع تر مواقعوں کی فرا ہمی اور لوگوں کی صلاحیتوں کے معیارکی بناء پر جانچا جاتا ہے۔ یہ جائزہ دنیا کے 188 ممالک کے لوگوں کے زندہ رہنے کی اوسط عمر، تعلیم کا دورانیہ ، فی کس قومی آمدنی اور معیار زندگی کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی مدد سے کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقّی کا معیار کا جائزہ لیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک میں انسانی ترقّی کا معیار اس ملک کی سماجی و اقتصادی ترقّی کےمعیار سے براہِ راست متناسب ہوتا ہے۔
انسانی ترقی کے شعبے میں پاکستان بہت پیچھے یعنی 147 ویں نمبر پر کیوں ہے؟؟؟
اس سوال کا منطقی جواب یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر کمزور، اور سماجی طور پر پسماندہ ملک ہے۔
بیس 20کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں افرادی قوّت کی پسماندگی کی بنیادی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ تعلیمی سہولتوں کی کمی، فنّی تعلیم و تربیت کی کمی، علاج معالجہ اور صحت کی سہولتوں کی کمی، ذرائع روزگار کی کمی، کرپشن کا عفریت، ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سماجی ناانصافی، مفلوج نظامِ عدل ، ریاستی اداروں کی ناکامی ، اور ناقص حکومتی پالیسیوں نے انسانی ترقّی کے عمل کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان کو امن و امان کے چیلنجز کا بھی سامنا ہے،
دہشت گردی کے خلاف جنگ، قدرتی آفات (زلزلے، سیلاب، شدید بارشیں، خشک سالی) ، بھاری قرضوں کا بوجھ اور ان کے سود کی ادائیگی، اور ٹیکس اور محصولات کی وصولیوں میں کمی و بے قاعدگی، ترقّیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کی شدید کمی کا بھی سامنا ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کے منصوبوں کے لیے درکار رقوم خرچ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ، پاکستان اپنی آمدن کا بڑا حصہ انسانی ترقی کے شعبوں پر خرچ کرنے کی بجائے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ ترجیحات کے درست نہ ہونے اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان نہ اپنی افرادی قوّت کو ترقّی دے سکا ہے، نہ ہی انفرا اسٹرکچر کو ترقّی دے سکا ہے ۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن زراعت ہی پاکستان کا پسماندہ ترین شعبہ ہے۔ صنعتوں، مواصلات اور توانائی کی پیداوار کی شعبہ میں بھی پاکستان اپنے ہمسایہ ملکوں سے پیچھے ہے۔ ملکی آبادی کا 32.50 فیصد حصّہ شہری آبادی جبکہ 67.50 فیصد حصّہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے جبکہ دونوں ہی وسائل کی فراہمی کے اعتبار سے مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف مراعات یافتہ طبقے کے گرد گھومتی ہے۔ اقتصادی ترقی کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے آزادی کے 70 برسوں بعد بھی 40 فیصد پاکستانی ایسے ہیں، جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جن کو پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی اور پینے کا صاف پانی بھی میسّر نہیں ہے۔ رہی سہی کسر کرپشن نے پوری کردی ہے۔
پاکستان اپنے شہریوں کو صحت اورتعلیم کی بہتر سہولتیں دے کر اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے عمل سے اپنے انفرااسٹرکچر کو توسیع دے کر انسانی ترقی کے انڈیکیٹرز کو بہتر بناسکتا ہے، پاکستان اپنی افرادی قوّت کو فنّی تعلیم اور ٹیکنیکی تربیت دے ہنر مند افرادی قوّت اور قومی پیداوار میں اضافہ کرکے ملکی معیشت اور آمدنی میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ جس سے انسانی ترقّی میں اضافہ ممکن ہوسکتاہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
سماجی علوم کے طالبعلم کے طور پر جب پاکستان کی پسماندگی کا سبب جاننے کے لئے جب اقوامِ عالم کی ترقّی کے جائزہ لیا گیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پہلے مرحلے میں پاکستان میں انسانی ترقّی کے لئے انسانی وسائل کی ترقّی پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا آسان بھی ہے اور کم لاگت میں ممکن بھی ہے۔
اسکے لئے ہمیں صحت، تعلیم اور افرادی قوّت کی تربیت پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بنیادی و اعلی‘ تعلیم اور فنّی تعلیم و افرادی قوّت کی تربیت کے ادارے اور صحت کے شعبوں کو توسیع دینا ہوگی۔ ۔ جبکہ قدرتی وسائل کی ترقّی اور انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے منصوبوں میں فنڈز کی کمی کا سامنا اور غیر ملکی امداد اور قرضوں ضرورت پڑتی ہے۔ معاشی ترقّی میں انسانی وسائل کی ترقی اولین اورقدرتی وسائل کی ضرورت ثانوی ہوتی ہے۔
پاکستان تو قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ مگر دنیا میں ایسی بھی معیشتیں ہیں، جہاں قدرتی وسائل نایاب ہیں، مگریہ صف اول کی معیشتیں ہیں۔ جیسے اسرائیل، ہانگ کانگ، کوریا، جاپان، تائیوان میں قدرتی وسائل کمیاب اور نایاب ہیں، ، مگریہ صف اول کی معیشتیں کہلاتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے انسانی وسائل کو بے پناہ ترقّی دے کر پہلے معیشت کا پہیّہ رواں کیا پھر اس آمدنی سے اپنے انفرااسٹرکچر کو ترقّی دے کر اپنے ممالک کو برتری دلوائی۔
پاکستان اپنی افرادی قوّت اور قدرتی وسائل کی مدد سے بہت جلد ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پر بہتر پوزیشن حاصل کرسکتا ہے، مگر اس کے لئے منصوبہ بندی اور عمل کی ضرورت ہے۔
♦