آئیں ایک بار پھر ڈھاکہ واپس چلتے ہیں اور میرے بیانیہ کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں میں نے اسے چھوڑا تھا۔
دس مارچ 1971 کو میں نے 14ویں ڈویژن کی کمان میجر جنرل رحیم کے سپر د کردی۔دن کا باقی حصہ میں نے جنرل نیازی سربراہ ایسٹرن کمان کے لئے آئندہ ہونے والے آپریشنز کے بارے میں بریفنگ نوٹس تیار کرنے میں گذارا۔جنرل ٹکا خان بریفنگ اور ڈی بریفنگ اجلاس ہر روز شام 4۔بجے ایسٹرن کمان کے ہیڈکوارٹرز کے آپریشن روم میں منعقد کیا کرتے تھے۔
مغربی پاکستان سے آنے والے تمام تازہ دم دستے 14۔ ڈویژن کی کمان میں دیئے جاتے تھے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ 14 ۔ڈویژن کا آفیسر جنرل کمانڈنگ(جی۔او۔سی) ہونے کے ناطے تمام بریفنگ اجلاس میرے ذریعے ہی منعقد ہوتے تھے۔ہم معمول کے مطابق شام 4بجے آپریشن ہال میں جمع ہوئے تھے۔ جنرل نیا زی سب سے آخر میں آپریشن روم میں داخل ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی بیلٹ کے ساتھ پستول لٹکا رکھا تھا۔انھوں نے اعلان کیا کہ انھوں نے مشرقی کمان کے سربراہ کا عہد ہ فور ی طور پر سنبھال لیا ہے۔
انھوں نے مستقبل کے لئے کانفرنس کے شرکا ء کو معمول کی ہدایات دیں جن میں ایک بات یہ شامل تھی کہ تمام آفیسرز جب یونیفارم پہنیں توپستول اپنے پاس ضرور رکھیں۔اجلاس میں خال خال بنگالی آفیسرز بھی موجود تھے۔ اجلاس کے شرکا ء کے لئے یہ بات باعث حیرانی اور اضطراب تھی کہ نیازی یکا یک گالی گلوچ پر اترآئے۔اردو میں کہنے لگے’ میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔‘انھوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سپاہیوں کو ان کی ( بنگالیوں)عورتوں پر چھوڑ دیں گے۔
ان کے ان ریمارکس کی بدولت آپریشن ہال میں موت جیسی خاموشی چھا گئی ۔آفیسرز خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔ جنرل نیازی کی بے ہودہ زبان نے ان سب کو حیران کر دیا تھا۔ جنرل نیازی کے ان ناخوش گوار ریمارکس پر بریفنگ کا اختتام ہوگیا۔ تما م آفیسرز کے چہرے لٹک گئے تھے۔اگلی صبح ہمیں بری خبر سننے کو ملی ۔
ایک بنگالی آفیسر میجر صادق ،جس نے جیسور میں میرے ماتحت خدمات سرانجام دی تھیں، نے کمان ہیڈکوارٹرز کے باتھ روم میں جاکر خود کو سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔وہ موقع پر ہی مر گیا تھا۔وہ بہت قابل ، باوقار اورعزت نفس کا خیال رکھنے والا افسر تھا ۔ میں اس افسر کو بہت اچھی طرح جانتا تھا اور اس کی یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی ۔ یہ بہت قابل افسوس بات تھی کہ جنرل نیازی کے ہذیانی الفاظ اور کرتوتوں کا پہلا شکار میجر صادق بنا تھا ۔
دس اپریل کی شام سوائے لیفٹیننٹ جنرل نیازی حال ہی میں مغربی پاکستان سے ڈھاکہ پہنچنے والے تین جنرلز میری رہائش گاہ پر اکٹھے ہوئے۔یہ تینوں میرے بہت اچھے دوست تھے اور طویل عرصے سے مجھے جانتے تھے ۔مشرقی پاکستان کی سنگین صورحال اور زمینی حقائق کے بارے ان کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔میں نے غیر رسمی طور پر انھیں موجودہ صورت حال کے پس منظر اور تارہ ترین اقدامات بارے آگاہ کیا۔
جب میں نے اپنی گفتگو ختم کی توموضوع بدلنے سے پہلے میں نے ازراہ مذاق انھیں اس سنگین سیاسی اور فوجی صورت حال کے بارے بتایا جس کا انھیں اگلے چند روز میں سامنا کرنا تھا۔میں نے ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے توقع ہے اب آپ سے ملاقات اس وقت ہوگی جب آپ واہگہ یا حسینی والہ کے راستے مغربی پاکستان پہنچیں گے۔
بعد ازاں میں نے اپنے اس ظالمانہ مذاق پر خود کو بہت مطعون کیا لیکن سچا ئی یہی تھی ۔ میں نے اپنے دوستوں سے جو کچھ کہا وہ مذاق نہیں تھا بلکہ مستقبل میں پیش آنے والی حقیقی صورت حال کا اعلان تھا۔ میں نے نہیں سمجھتا کہ میرے ان جنرلز دوستوں نے میرے ان ریمارکس کو اس وقت سنجیدگی سے لیا ہوگا لیکن مجھے یہ یقین تھا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ ہونے جارہا تھا۔
گیارہ11۔ اپریل میرا ڈھاکہ میں آخری دن تھا کیونکہ میں چارج تو پہلے ہی میجر جنرل رحیم خان کو سونپ چکا تھا۔صبح کے وقت میں کمانڈ ہیڈ کوارٹرز لیفٹیننٹ جنرل نیاز ی سے ملاقات کے لئے گیا تاکہ ان سے موجودہ اور مستقبل کے آپریشنز بارے تبادلہ خیال کرسکوں ۔میں نے انھیں کہہ رکھا کہ وہ اپنے دفتر میں مشرقی پاکستان کا نقشہ مہیا رکھیں تاکہ جاری آپریشنز اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے بحث و تمحیص کرنے میں آسانی رہے لیکن جب میں ان کے دفتر پہنچا تو مشرقی پاکستان کے نقشے کی بجائے ایک اور حیرانی وہاں میری منتظر تھی ۔
انھوں نے بڑے دوستانہ انداز میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’یار لڑائی کی فکر نہیں کرو،وہ تو ہم کر لیں گے،ابھی تو مجھے بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبرز دے جاؤ‘۔میں نیازی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا لیکن میرے اور ان کے تعلق کی نوعیت دوستانہ قطعی نہیں تھی۔جس قسم کا میرا مزاج تھا اس کے لئے نیازی کا یہ فقرہ کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔
میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی صاحب عقل پاکستانی اس طرح سو چ سکتا تھا اور وہ بھی عین اس صورت حال میں جب ملک میں موجود حکمرانوں کی مسلط کردہ خانہ جنگی جاری تھی ۔ نیازی کے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے تھے، میں نے ان کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے انھیں کہا ’ جنرل آپ کو مجھے اچھی طرح جاننا چاہیے تھا ‘۔
مایوسی کے عالم میں ان کے دفتر سے نکلتے ہوئے میں ان کے چیف آف سٹاف بریگیڈئیر غلام جیلانی خان کے دفتر میں گیا اور فوجی آپریشنز کے حوالے سے تیار کردہ سفارشات پر مبنی کاغذات ان کے حوالے کئے۔ میں نے جستہ جستہ بریگیڈئیر جیلانی کے ساتھ ان سفارشا ت پر گفتگو بھی کی تھی۔مجھے یقین ہے کہ 31مئی 1971 تک فوجی دستوں کی تعنیاتی اور فوجی آپریشنز کم و بیش میری تیار کردہ سفارشات اورحکمت عملی کے مطابق ہوئے تھے اور بلا شبہ کامیاب بھی رہے تھے۔ بعد ازاں جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
میں نے اگلے دن 11 ۔ اپریل 1971 کو صبح نو بجے پروگرام کے مطابق کبھی نہ واپس لوٹنے کے لئے ڈھاکہ چھوڑ دیا ۔
یہ اقتباس میجر جنرل(ر) خادم حسین راجہ جی۔او ۔سی ڈھاکہ کی کتاب ’خود اپنے وطن میں اجبنی ‘سے لیا گیا ہے ۔
A Stranger in my own country (Oxford University Press 2012)
(صفحات 97-90 (ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ
3 Comments