انور عباس انور
ستائیس دسمبر کی خون آشام شام پوری دنیا کے لیے غم اور دکھ کا پیغام لیکر آئی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ کروڑوں دلوں کی ملکہ آج انہیں روتا دھوتا چھوڑ کر ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے گی۔ وہ خود ہنستی مسکراتی راولپنڈی کی لیاقت باغ گروانڈ میں اتری۔ تو لاکھوں چاہنے والے احتراما استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔راولپنڈی فضا زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بینظیر، بھٹو کی تصویر،بے نظیر بے نظیر۔۔۔کون بدلے گا تقدیر بے نظیر بے نظیر کے فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگی۔ خطاب سے قبل وہ راولپنڈی ڈویژن کے پارٹی راہنماؤں اور امیدواران سے صلاح مشورے کرتی رہی۔
کیا خبر تھی اسے کہ آج اسکا یہ آخری جلسہ ہے، پارٹی راہنماؤ ں سے یہ اسکی آخری ملاقات ہے بھٹو کی تصویر چاروں صوبوں کی زنجیر ہر طرح کے خوف اور در سے بے نیاز دل کی باتیں راہنماؤں سے شیئر کیے جا رہی تھی۔ہر ورکر ہاتھ ہلا ہلاکر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اور وہ بھی چمکتی آنکھوں ہنستے چہرے کے ساتھ جیالوں کو سلام کہہ رہی تھی اور یقین دلارہی تھی کہ دکھوں اور پریشانیوں کے بادل چھٹنے والے ہیں ۔ان کے مقدر جاگنے والے ہیں۔پاکستان مین ایک نئی صبح طلوع ہونے جا رہی ہے اور ایک ایسا پاکستان معرض وجود میں آنے والا ہے جس سے ظلم و زیادتی ،جبر و استبداد اور امتیازی معاشرے کا خاتمہ ہونے والا ہے۔
بے نظیر بھٹو شہادت کے منصب پر فائز ہونے سے کچھ دیر قبل عوام کے ٹھا ٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے مخاطب ہوکر انہیں یقین دلا رہی تھی کہ اب انکے حقوق پر داکا دالنے والوں کو لگام دالی جائے گی۔ وہ اپنے انتخابی امیدواروں کو اپنی دھرتی ماں کے بیٹوں اور بھٹو کے جیالوں اپنے بھائیوں کے سامنے کھڑا کرکے ان سے حلف لیتی ہے کہ اگر انہیں ترقیاتی فنڈز دئیے جائیں گے تو وہ انہیں خردبرد نہیں کریں گے۔
اگر انہیں ملازمتیں دی جائیں گی تو وہ انہیں پیسوں کے عوض فروخت نہیں کریں گے بلکہ ان نوکریوں کو غریب ورکروں ،جیالوں اور مستحق عوام کو دیں گے۔ سب امیدوار چاہے کوئی خان ہے ،وڈیرا ہے، چودہری ہے نواب ہے یا ملکزادہ ہے سب بھٹو کی تصویر اور اپنی ہمشیر اور عوام کے ہجوم بیکراں سے وعدہ کررہے ہیں کہ وہ ایسا ہی کریں گے جیسا وہ کہہ رہی ہیں۔ بڑے لوگوں کو اپنے سامنے جواب دہ دیکھ کر فضا میں نعرے اور بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔
یوں تو بے نظیر بھٹو جو بھی رنگ زیب تن کرتیں انہیں بہت سجتا لیکن اس شام بے نظیر نے جامنی رنگ کی قمیض اور سفید شلوار زیب تن کی تھی اور سرپر سفید دوپٹہ نے جو رنگ جمایا وہ اپنی مثال آپ ہے، بے نظیر بھٹو عوام کے جلسہ جس میں لاکھوں عوام ان کو سن رہے تھے جب وہ بولتی تو گروانڈ اور فضا پر خاموشی طاری ہوجاتی۔۔۔ اس جلسہ میں اپنی زندگی کے آخری خطاب میں اپنے اس پروگرام کو کھل کر پیش کیا۔ عوام نے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں منتخب کرنے کا وعدہ کیا۔
تقریر کے اختتام پر وہ پارٹی راہنماؤ ں کے ہمراہ اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھنے کے لیے روانہ ہوئی تو کچھ ہی لمحوں کے اندر اس ملک کے دشمنوں نے ان پر فائرنگ کردی اور ان کی موت یقینی بنانے کے لیے خود کش حملہ بھی کردیا ۔چاروں صوبوں کی زنجیر لہو میں لت پت گاڑی میں گر پڑی ،ہسپتال لیجایا گیا لیکن دشمن کا وار اتنا سنگین تھا اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو تنہا چھور کر راہی ملک عدم ہوئیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ بھٹو خاندان ’’تتے توے ‘‘پر بھی بیٹھ جائے تو بھی پاکستانی اسٹبلشمنٹ اسے محب وطن تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ہوگی۔اب تو بھٹو خاندان کا قصہ ہی پاک کرد یا گیا ہے اب یہ مسئلہ نہیں رہا۔
بھٹو خاندان کی پہچان بینظیر بھٹو شہید اور ان کے بھائی تھے جنہیں منظر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا گیا ہے۔ باقی رہی صنم بھٹو اور مرتضی بھٹو کی اولاد تو وہ غیر سیاسی اور پاکستان کی سیاست سے کوسوں دور رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔اس لیے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں۔
سقوط ڈحاکا ذمہ دار بھی ذوالفقار علی بھٹو کو قرار دیا گیا اور چار دہائیوں سے پاکستانی عوام کے اذہان میں یہی زہر بھرا جارہا ہے کہ سقوط ڈھاکا اندرا گاندھی،شیخ مجیب الررحمن اور بھٹو کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ مخصوص ذہن کے لکھاری سقوط ڈھاکا کی کہانی سے دنیا کی بہترین افواج ،جنرل یحیی خان سمیت دیگر ذمہ داران کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کرتے ہیں۔ حمودالررحمان کمیشن رپورٹ کو بھی یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے قدموں کے نشان 1956سے 5 جولائی 1977 پاکستان کی نقشے پر ثبت ہیں۔ ملک کو عالمی برادری مین ایک منفرد مقام دلوایا۔ 1971کے دلخراش سانحہ کے باعث پاکستان کی خم رسیدہ کمر کو سیدھا کیا اور شرمندگی کے بوجھ تلے دبی دنیا کی بہترین افواج اور عوام کو سراٹھاکے چلنے کے قابل کیا۔ایٹمی طاقت بنانے کے لیے کی گئی کوششوں کو بھی بھٹو کی حب الوطنی کے لیے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
بھارتی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے مختصر دور حکومت میں پاکستانی آتے ہیں تو ان سے پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ملاقات کو سکیورٹی رسک قرار دیدیا گیا۔باپ بیٹی آخری سانسوں تک اپنی حب الوطنی ثابت کرتے کرتے موت کی آغوش میں جا پہنچے۔ باپ نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کے لیے اپنی جان کی بازی ہار دی اور بیٹی پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی دیکر اور پاک فوج کو تمغہ جمہوریت عطا کرکے بھی اسٹبلشمنٹ کو راضی کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔
بھٹو کی بھٹو بیٹی کی پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے کسی انکار کرنے کی ہمت و جرآت نہیں ہوسکتی۔ البتہ ڈھیٹ پن کا کوئی علاج نہیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بالادستی قائم کرنے کے واسطے انکی جدوجہد بھی انکے نام کی مانند بے نظیر ہے۔ پاکستان میں اس وقت جس جمہوریت کو بچانے اور ڈی ریل نہ ہونے دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں وہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد اور ان کے مسلم لیگ نواز کے ساتھ کیے گئے میثاق جمہوریت کی وجہ سے ہے۔ دشمن لاکھ باتیں بنائیں مگر چاند پر تھوکنے کی کوشش کرنے والے ناکام رہتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی وطن اور جمہوریت سے محبت کا عالم یہ ہے کہ جنرل مشرف انہیں اپنی شرائط پر سکیورٹی فراہم کرنے کی بات پر بضد تھا لیکن وطن کی بیٹی اور دختر مشرق نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور وطن واپس آئیں اور جنرل مشرف کو للکارا لیکن بے مثال باپ کی بے نظیر بیٹی نے وطن پر اپنی جان قربان کردی لیکن آمر سے نہ سمجھوتہ کیا اور نہ ہی اس کے سامنے جھکیں۔
بے نظیر بھٹو کی حب الوطنی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی پاکستان سے محبت نے انہیں دیار غیر میں مرنے کی بجائے ہر قسم کے خطرہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں وطن پہنچنے کی ترغیب دی اور انہوں نے وطن کی پکار پر لبیک کہا اور وطن پہنچ کر دھرتی ماں پر اپنی جان قربان کردی۔ملک کی بہادر بیتی کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے والے آمر جنرل مشرف آج دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔
میری نظر میں قائد اعظم محمد علی جناح سے بے نظیر تک بشمول نواب اکبر بگتی سب شہیدوں نے جمہوریت کا خراج اپنے لہو سے ادا کیا ہے اور آج وطن عزیز میں آمر وں کو ’’میرے عزیز ہم وطنو السلام علیکم‘‘ کہنے کی ہمت ،جرآت اور حوصلہ نہیں ہورہا تو اسکی بڑی وجہ شہیدوں کا لہو ہے۔
♦