قادیانیوں کے اخراج کے متعلق قرار داد

چوھدری اصغر علی بھٹی۔ نائیجر

تحفظ ختم نبوت کے مرکزی قائد جناب مولانا یوسف بنوری نے ایک موقعہ پر مولانا مودودی کے متعلق فرمایا تھا’’اے کاش وہ اسی پر اکتفا کئے ہوئے ہوتے اور تفسیر کی گہرائیوں میں نہ اترتے ۔سنت پر مقالے نہ لکھتے ۔تفہیمات۔تنقیحات اور دیگر مسائل پررسائل تصنیف نہ کئے ہوتے جن کی نہ تو ان میں صلاحیت تھی اور نہ ان علوم میں رسوخ حاصل تھا‘‘۔( مودودی صاحب کے افکار و نظریات مصنفہ مولوی یوسف بنوری مقدمہ ص 15 مکتبہ بنوری ٹائون کراچی)۔

میں نے 15 دسمبر کو جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کا مضمون بعنوان قائد اعظم ختم نبوت اور عید میلاد النبی پڑھا تو مجھے مولوی بنوری صاحب کی یہ نصیحت یاد آگئی کہ کاش ڈاکٹر محمود صاحب مورخ ہی رہتے مولبی صاحب نہ بنتے۔ مورخ کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ وقت کی گرد جھاڑ کر حالات کی صحیح تصویر قوم کے سامنے رکھے تاکہ جس پر آنے والی نسلیں قدم مارتے ہوئے نئی منزلوں کو پاسکیں مگر یہ کیا آپ نے اسی تاریخ کے نام پر جھوٹ کی نجاست بیچنا شرع کر دی ۔ اس کے لئے کیا ہمارے مولبی نما حامد میر صاحب کافی نہ تھے کہ آپ بھی شامل قافلہ ہوگئے۔ اسی لئے تو تاریخ کا ہر طالب علم منہ میں انگلی ڈالنے کہنے پر مجبور ہے کہ بروٹس یو ٹو۔

ڈاکٹر صاحب عشق رسول اور میلاد النبی ہر مسلمان کی میراث ہے کمزور سے کمزور مسلمان میں بھی عشق رسول ایسے ہی ہوتا ہے کہ جیسے اس کی سانس مگرآپ نے قائد اعظم کو کیا نواز شریف یا اس کا کوئی وزیر سمجھ لیا ہے جو کعبہ کی سلفیاں اور میلاد کے لنگر کی فوٹو دکھا کر اپنا مسلمان ہو نا اور عاشق رسول ہونا ثابت کر رہے ہیں اور آپ قائد اعظم کی میلاد میں شمولیت کی تاریخیں بتا کر یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں اس لحاظ سے یہ آپ کی صریح زیادتی ہے ۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپ کے بارے میں لکھ دے کہ ڈاکٹر صٖفدر محمود بہت اچھے انسان ہیں اپنی والدہ کو روٹی بھی دیتے ہیں۔ یقیناً آپ کا جواب یہی ہو گا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے وہ میری والدہ ہیں ایسا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہی بات میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ جماعت احمدیہ کے حوالے سے قائد اعظم علیہ الرحمۃ کے منہ میں ڈال کر جو جھوٹ بیچنا چاہتے تھے اس کے لئے اس عشق رسول والی تمہید ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟؟

خورشید احمد یوسفی کی کتاب کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے آپ نے جھوٹ کے آٹے میں نمک نہیں سادہ نمک کو ہی گوندہ کر رکھ دیا ہے ۔اس حوالے کو ہم نے کئی بار پڑھا کہیں یہ الفاظ نہیں کہ احمدی مسلم لیگ کے ممبر نہیں بن سکتے کیونکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ کہیں نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس واضح لکھا ہوا ہے کہ ’’ میں نے پیر اکبر علی سے ملاقات میں انہیں مسلم لیگ کے دستور کی شق چار کا حوالہ دے دیا تھا کہ ہر مسلمان جو کہ برٹش انڈیا رہتا ہے اور اٹھارہ سال سے زائد کا ہے مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے ‘‘۔

چلیں یہی پریس کانفرنس روزنامہ انقلاب یک جون 1944 میں بھی رپورٹڈ ہے ۔ اس کے الفاظ تھے
’’
مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے مسلم لیگ کا ممبر کون بن سکتا ہے یہ سوال خاص طور پر قادیانیوں کے بارہ میں پوچھا گیا ہے ۔۔میرا جواب یہ ہے کہ جہاں تک آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے آئین کا تعلق ہے اس میں درج ہے کہ ہر مسلمان بلا تمیز عقیدہ و فرقہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے ۔۔میں جموں کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اُٹھا ئیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اسی طرح میں مسلمانوں کی بھلائی ہے ‘‘ روزنامہ انقلاب یکم جون 1944 لاہور ص آخر)۔

اور پھر ڈاکٹر صاحب آپ کے بقول تو قائد اعظم واضح اعلان کر چکے تھے کہ احمدی مسلم لیگ کا حصہ نہیں بن سکتے مگر یہ اس دور کے احراری کیوں چیخ رہے تھے ۔ ہو نہیں سکتا آپ کو علم نہ ہو چلو پھر بھی ایک حوالہ پیش کرتا ہوں ۔ یہ مجلس احرار قادیاں کا شائع کردہ کتابچہ ہے اور اس کے پبلشر ہیں خواجہ عبد الحمید صاحب 

تیس جولائی 1944 کو لاہور میں مسلم لیگ کی آل انڈیا کونسل کا اجلاس ہوا ۔ مولانا عبدالحامد بدیوانی جن کے دل میں تھوڑی بہت اسلامی تڑپ اور غیرت موجود تھی انہوں نے اس کونسل کے اجلاس میں ایک قرار داد پیش کرنے کا نوٹس دیا کہ مرزائی چونکہ مسلمان نہیں ہیں اس لئے ان کو لیگ سے نکال دیا جائے قرار داد کے الفاظ کو زمیندار لاہور نے جلی الفاظ میں لکھا جو حسب ذیل ہیں

قادیانیوں کے اخراج کے متعلق قرار داد

۔۔۔۔جب یہ قرار داد پیش ہوئی تو مسٹر جناح نے اس پر بحث کی اجازت نہ دی بھلا لیگی نقار خانے میں مذہبی باتیں کس طرح کامیاب ہو سکتی ہیں ۔ وہاں تو ہر بات میں مسٹر جناح یا جناح لیگی امراء کے رحم پر لیگ میں رہنا پڑتا ہے‘‘۔ جب وہ ممبر ہی نہیں بن سکتے تھے تو پھر مولانا بدیوانی کیوں رو رہے تھے؟؟اور یہ بھی ممکن نہیں کہ آپ کو علم نہ ہو کہ ہندو ایک طرف اپنے اچھوت کو ساتھ ملانے کے لئے پورے جتن کر رہا تھا اور دوسری طرف احراریوں پٹھووں کے ذریعہ سے یہ پروپیگنڈہ کر رہاتھا کہ احمدی مسلمان نہیں لہذا پنجاب میں غیر مسلموں کی اکثریت دکھا ئی جائے۔
مشہور ہندو خبار ملاپ 27 فروری 1932 میں اپنے اچھوتوں کو کیا بتا رہا ہے

’’ ہندوستان کے اچھوت یک زبان ہو کر اعلان کر دیں کہ ہم ہندوؤں سے الگ کسی قسم کے خاص حقوق نہیں چاہتے ۔ ہم اپنے لئے جداگانہ انتخاب اور جداگانہ نشستیں نہیں چاہتے ۔ ہم ہندوؤں کے رنگ سنگ رہیں گے ۔ ہم اسی جاتی کے بچے ہیں اسی جاتی میں پیدا ہوئے ہیں اسی جاتی میں مریں گے‘‘ مگر دوسری طرف یہ ہندو مشرک کیا اعلان کر رہے تھے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر 5 فیصد نشستیں کونسل میں اور 2 فیصدنشستیں مرکزی اسمبلی کو دے دیں اس سے کئی گتھیاں سلجھ جائیں گی۔ پنجاب کا مشہور غیر مسلم اخبار شیر پنجاب کیا زبان بول رہا تھا ( احراریوں کے) اس مطالبہ کی بزور تائید کرتے ہیں اور گورنر صاحب بہادر سے در خواست کرتے ہیں کہ وہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر پنجاب میں کم از کم 5 فیصد نشستیں کونسل میں اور 2 فیصدنشستیں مرکزی اسمبلی کو دے دیں اس سے کئی گتھیاں سلجھ جائیں گی( بحوالہ زمیندار 14 مئی 1935 ص 3)۔

ڈاکٹر صاحب کیسے ممکن ہے آپ نے اس سازش کو نہ پڑھا ہو روزنامہ حق لکھنو نے ہندوؤں کی اس عیاری اور احراری مولویوں کی اس مکاری پر لکھا تھا کہ ’’ احمدیوں کو اپنے حلقہ سے جدا کرنے کے بعد ہم کو سب سے پہلا نقصان تو یہ پہنچے گا کہ ہماری جماعت کا ایک عنصر گویا ہم سے اعلیحدہ ہو گیا ہماری اقلیت اور بھی اقل ہو کر رہ جائے گی۔ حکومت نے ایک نشست کی زیادتی سے مسلم اکثریت تسلیم کی ہے اب مسلمانوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ احمدیوں کو ان سے اعلیحدہ کرکے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے ۔ کیا مسلمان اپنے پیر پر خود کلہاڑی نہیں مار رہے‘‘ ( روزنامہ حق لکھنو یکم جولائی 1935 ص 8 ) اور روزنامہ سیاست نے بھی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان احراری مولوں کے چنگل میں آنے سے ہم ہمیشہ کے لئے آزادی کا راستہ کھوٹا کر لیں گے۔ اخبار نے لکھا

احمدیوں کے سیاسی لحاظ سے علیحدہ ہو جانے کے بعد پنجاب کی وہ تھوڑی مسلم اکثریت جس کے لئے ہم گزشتہ دس سالوں سے لڑ رہے ہیں برباد ہو جائے گی‘‘ ( روزنامہ سیاست 18 مئی 1935 ص 9)۔

اسوقت پنجاب کی 175 نشستوں میں سے88 مسلم نشستیں تھیں ۔ اگر ہندو اور احرار کا فارمولہ مان لیا جا تا اور اگر احمدیوں کے لئے دو نہ سہی ایک ہی سیٹ مخصوص کر دی جاتی تو مسلم نشستیں 87 رہ جاتیں اور غیر مسلم 88 ہو جاتیں اور یوں مسلم اکثریت اقلیت میں بد ل جاتی اور یہی ہندوؤں اور احرار کی تمنا تھی مگر قائد اعظم نے اپنے دور اندیش نظر سے اس سازش کو بھانپ لیا اور سختی سے انکار کردیا اور فرمایا کہ سب ہندوستانی مسلمان مسلم لیگ میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ 

ڈاکٹر صاحب، چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب جیسے تحریک پاکستان سپوت کے حوالے سے آپ سے اتنی کم ظرفی کا مظاہرہ ۔ آپ کے نزدیک ان کو وزیر خارجہ گویا ترس کھا کر رکھ لیا گیا کیونکہ ’’ مقصد اقلیتوں کو احساس تحفظ دینا تھا ‘‘ تو ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کر دیں اس سر ظفر اللہ خا ں کو مسلم لیگ انڈیا نے اپنا صدر کس اقلیت کو تحفظ دینے کے لئے چنا تھا۔ اور اسی سر ظفر اللہ خاں کو گول میز کانفرنسز میں کس مولوی کی درخواست پر بھیجا گیاتھا ۔

ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے آپ کی تاریخ دانی کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہو ئے فرمایا تھا کہ ’’ صفدر محمود کا تعلق اولین قسم کی تاریخ نویسی سے ہے جو کہ خوابوں اور کشف و کرامات کی بنیادوں پر لکھی جاتی ہے ۔ اس قسم کی تاریخ ایک خاص طبقہ میں جو محض عقیدت کے جذبات رکھتے ہیں ان میں تو مقبول ہو سکتی ہے لیکن جو لوگ تاریخ کو سائنسی بنیا دوں پر پرکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ تاریخ محض افسانہ ہے۔ ( قائد اعظم کیا تھے اور کیا نہیں مصنفہ ڈاکٹر مبار ک علی ص 40 بک سٹریٹ 39 مزنگ روڈلاہور فکشن ہاؤس کراچی)۔

ڈاکٹر صاحب ختم نبوت کو اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہوئے سچ بولنا ہی اس کا تحفظ ہے جھوٹ کا تعفن لے کر کس سرکار مدینہ کے پاس جاؤ گے؟؟

10 Comments