طارق احمدمرزا
روایت شکن ڈونلڈٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر ہی دیا۔امریکی کانگریس نے کئی سال پہلے اس فیصلہ کی منظوری دے دی تھی لیکن سابق صدور(کلنٹن ،اوباما) اپنے خصوصی اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے کانگریس کے منظور کردہ متعلقہ بل پر عملدرآمد کو ہر چھ ماہ بعد خصوصی صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ رکواتے چلے آئے تھے۔اس لحاظ سے اب امریکی اونٹ توکتنے ہی انتظارکے بعد بالآخر ایک کروٹ بیٹھ ہی گیا لیکن دیکھنا ہے کہ اسرائیلی اورفلسطینی(بشمول الفتح و حماس)اونٹ کس کس کروٹ بیٹھتے ہیں،بیٹھتے بھی ہیں یا نہیں۔بیٹھنے سے پہلے وہ اردنی اورمصری اونٹوں کا انتظار کریں گے کہ وہ کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔سعودی اور دیگر عرب اونٹوں کا کسی بھی کروٹ بیٹھنا ،لیٹنا یا کھڑے رہنافی الوقت اتنا اہم نہیں۔
مشرقی یروشلم جسے فلسطینی اتھارٹی اپنا دارالحکومت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے فی الحال اردن کے زیر انتظام ہے۔یروشلم کے لگ بھگ ساڑھے چارلاکھ رہائشی مقامی فلسطینی اردنی پاسپورٹ اور اسرائیلی ’’اقامہ‘‘(پی آر) رکھتے ہیں۔ان کے اردنی پاسپورٹوں پران کی شہریت نہ تو اردن لکھی جاتی ہے،نہ فلسطینی اور نہ اسرائیلی یعنی کہ وہ بے وطن ہیں۔اگر تو اسرائیل کو پورے یروشلم کی عملداری حاصل ہوجاتی ہے تو پھر سوال یہ اٹھے گا کہ ان ساڑھے چار لاکھ مقامی فلسطینیوں کو کیا اسرائیلی شہریت اور اسرائیلی پاسپورٹ دے دیا جائے گا۔اسی قسم کے کئی اور پیچیدہ مسائل ہیں جو یروشلم اور اس کے سیاسی، مذہبی، معاشرتی،عمرانی،انتظامی اور عالمی حیثیتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
اسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ اعلان کے باوجود اسرائیل عملی طور پرتل ابیب کی بجائے یروشلم کو اپنادارالحکومت بنانے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈونلڈٹرمپ شاہ سے بڑھ کر شاہ کاوفادارثابت ہوتادکھائی دے رہا ہے۔اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دیئے جانے کے خلاف منظور ہو چکی ہیں اور اسرائیل عالمی برادری کے ممکنہ ردعمل کی پیش بندی کے طورپر اب تک اس قسم کاکوئی اقدام اٹھانے سے طوعاًوکرہاً باز ہی رہا ہے۔اقوام متحدہ نے یروشلم کو ایک آزاد،خودمختاراور غیرجانبدارخطہ قرار دے کر اسے ایک متفقہ انٹرنیشنل انتظامیہ کے سپردکر دینے کی قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔مشرقی یروشلم کاانتظام اسی قرارداد کے نتیجے میں اردن کو سونپا گیا تھا۔
اسرائیل یروشلم کو اپنادارالحکومت بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ اردن اور مصر(اور اقوام متحدہ)کی رضامندی کے بغیرکبھی بھی نہیں کرے گااس لئے مسلمان ممالک کے عوام کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے نتیجے میں کوئی فوری جذباتی ردعمل دکھانے،جلسے جلوس،توڑپھوڑ اور زندہ بادمردہ بادکی ہڑبونگ مچانے سے احترازکرنا چاہیے۔پچھلے ستربرسوں میں ان باتوں سے نہ تو کچھ حاصل حصول ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
دشمن کو مردہ باد کہنا ہزار مرتبہ درست لیکن پہلے فلسطینی عرب خود آپس میں اتحادواتفاق توقائم کرکے دکھائیں۔ہم بھی شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار تو نہیں ہو سکتے۔
♦
2 Comments