لیاقت علی ایڈووکیٹ
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے نے دنیا بھر کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ہیجان پیدا کردیا ہے ۔مسلمان ممالک نے اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور اس فیصلے کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ اقدام قرار دیا ہے۔
یروشلم دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے پیروکاروں کے لئےیکساں تقدس کا حامل شہر ہے۔ اسرائیلی یہودی یروشلم کو اپنا تین ہزار سال قدیم مرکز خیال کرتے ہیں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی یہودی آباد ہیں وہ اس شہر میں آنا، رہنا اور عبادت کرنا اپنا ناقابل تنسیخ حق سمجھتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہودی عقائد کے مطابق یروشلم میں موجود ان کی عبادت گاہوں کو مسمار اور انھیں یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
یہودی یروشلم سے نکالے جانے کے وقت سے واپس اس مقدس شہر میں آنے کی خواہش رکھتے اور اس کے لئےجدو جہد کرتے رہے ہیں۔حضرت داود علیہ السلام نے ایک ہزار قبل از مسیح یروشلم کو فلسطین اور اسرائیل کا مشترکہ دارالحکومت بنایا تھا۔ یروشلم کے مغربی حصہ میں واقع دیوار گریہ کی زیارت ہر یہودی کے لئے وہی اہمیت رکھتی ہے جو ایک مسلمان کے لئے خانہ کعبہ کی ہے۔ دیوار گریہ اس یہودی عبادت گاہ کی باقیات ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے رومنوں نے مسمار کر دیا تھا۔
یروشلم کل آبادی 882000نفوس پر مشتمل ہے جن میں فلسطینوں کی آبادی ایک تہائی ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنے مطلوبہ ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ یروشلم کے اس حصے کی مسلمانوں کے نزدیک اور بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ علاقہ ہے جہاں مسجد اقصی واقع ہے جنھیں مسلمان خانہ کعبہ، روضہ رسول کے بعد سب سے مقدس خیال کرتے ہیں۔
فلسطینوں میں باہمی اختلافات کے باوجود یروشلم ان کے مابین اتحاد و اتفاق کا بہت بڑا نکتہ رہا ہے۔ محمود عباس کی فتح اور عسکریت پسند تنظیم حماس باہمی اختلافات کے باوجود مذہبی اور قومی حوالوں سے یروشلم کے مسئلے پر یکسو رہے ہیں۔
یہودیوں اور مسلمانوں کی مقدس عمارتوں کے ساتھ ساتھ یروشلم مسیحیوں کے لئے بھی بہت زیادہ مذہبی اہمیت کا شہر ہے۔ مسیحی عقائد کے مطابق یروشلم میں گرجا گھر واقع ہے جو اس جگہ پر بنایا گیا تھا جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔
سنہ1947 میں اقوام متحدہ نے ایک قرارد اد منظور کی تھی۔ یہ قرارداد دراصل ایک منصوبے کی توثیق تھی جس کے مطابق برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین کو دو آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک ریاست اسرائیل جو یہودیوں کے لئے تھی اور دوسری ریاست فلسطینوں کے لئے تھی۔اسرائیل اور فلسطین کی ریاستوں کے علاوہ اس منصوبے کے مطابق ایک ّکوریڈورٗ بھی بنایاگیا تھا جسے اقوام متحدہ کے زیر انتظام رہنا تھا اور جس میں یروشلم ، بیت الہم اور اس کے گرد و نواح میں واقع مقدس عمارات کو شامل ہونا تھا۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اس منصوبے کو تسلیم کرلیا لیکن عرب ممالک نے فلسطین کی اس تقسیم کو ماننے سےانکار کردیا تھا۔
سنہ1948 میں جب برطانیہ علاقہ چھوڑ کر چلا گیا تو یہودیوں نے ایک آزاد ملک اسرائیل قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ عرب ممالک چونکہ اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر چکےتھے اس لئے اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینوں اور ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تنازعات نے جنم لیا جن کی بدولت ایک سے زائد مرتبہ ان کے مابین جنگیں ہوئی اور مسلح جدو جہد رومرہ کا معمول بن گئی۔
اسرائیل کے قیام کے فوری بعد ہونے والی جنگ میں اردن نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ اسرائیل نے مغربی یروشلم میں اپنا دارالحکومت قائم کر لیا۔یروشلم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ خاردار تاروں، مشین گنوں کی تنصیب اور گولیوں کی تڑتراہٹ یروشلم کی زندگی کا معمول بن گئی۔ یہی وہ صورت حال تھی جس میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ ہوئی ۔اس چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے یروشلم کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔اسرائیل نے پورے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اسے اپنا موعودہ دارالحکومت بنانے کا اعلان کردیا۔
سنہ1980 میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو ریاست اسرائیل کو حصہ بنانے کا اعلان کردیا۔اس وقت تک صرف 13 ممالک ایسے تھے جنھوں نے اپنے سفارت خانے یروشلم میں قائم کئے تھے لیکن عالمی دباؤ کی بنا پر یہ ممالک بھی اپنے سفارت خانے واپس تل ابیب منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
سنہ1995 میں امریکی کانگریس ایک قانون پاس کیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ 31 مئی 1999 سے قبل یروشلم منتقل کرے اور یروشلم کو اسرائیل کےدارالحکومت کے طور پر تسلیم کرے۔1995 سے اب تک امریکہ کے مختلف صدور نے اس قانون پر عمل درآمد کو روکے رکھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں اس قانون پر عمل درآمد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیں گے چنانچہ انھوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا انتخابی وعدہ جزوی طور پر پورا کر دیا ہے لیکن امریکی تاحال تل ابیب ہی میں رہے گی کیونکہ اس کی منتقلی کئی سال لگ سکتے ہیں۔
♦