آصف جیلانی
چھ6دسمبر کو صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرتا ہے ، انڈونیشا سے لے کر امریکا تک مسلمانوں نے شدید ناراضگی بھرے مظاہرے کئے ہیں اور اسرائیلی فوج نے غزہ میں دو فلسطینیوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا کر اپنی قوت اور غزہ کے محصور عوام کی بے بسی ثابت کی ہے اور فلسطینی قیادت نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے اور مشرق وسطی کے دورہ پر جانے والے امریکی نایب صدر پینس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن ان سب مظاہروں اور اعلانات کا صدر ٹرمپ پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے بلکہ دوسرے روز وایٹ ہاوس میں یہودیوں کے نئے سال کے آغاز کی تقریب میں ٹرمپ نے اپنے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اس تقریب میں شامل بہت سے افراد بے حد خوش ہیں اور تالیاں بجاتے ہوئے کہا’’یروشلم ‘‘ ۔
وہ لوگ خام خیالی میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ٹرمپ نے یروشلم کے بارے میں اعلان کر کے امریکا کی ستر سال پرانی پالیسی ترک کر دی ہے ۔ پچھلے کئی برسوں سے امریکی کانگریس اور امریکا کے صدور اسرائیل سے پیمان کرتے رہے ہیں کہ امریکا یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرے گا۔ اور ویسے بھی عملی طور پر امریکا یروشلم کو اسرایل کا علاقہ تسلیم کرتا رہا ہے۔ امریکا کے سابق صدور ، اوباما، جارج بش اور بل کلنٹن اپنی انتخابی مہموں میں یہ پیمان کرتے رہے ہیں کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
سنہ 1992میں بل کلنٹن نے اپنی مہم میں کہا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کو دارالحکومت تسلیم کرنے کی حمایت کریں گے۔ 2000میں جارج بش نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا کے سفیر کو یروشلم منتقل کردیں گے جسے اسرائیل نے اپنا دار الحکومت منتخب کیا ہے۔ 2008میں اوباما نے بھی کئی بار یہ پیمان دہرایا تھا کہ یروشلم اسرائیل کا دار الحکومت رہے گا اور غیر منقسم رہے گا۔ امریکا کے یہ صدور یہ پیمان کرتے ہوئے جانتے تھے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کو یروشلم کی ایک انچ زمین پر بھی کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ یہ صدور بھول گئے کہ اسرائیل نے یروشلم پر 1967کی جنگ میں قبضہ کیا تھا اور 1980میں اسے اسرائیل میں ضم کر لیاتھا او ر ان صدورکے دور میں ارض فلسطین کے مشرقی یروشلم میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی اور اوباما کے دور میں جب 2012 اور 2014میں اسرائیل نے محصور غزہ پر بھر پور حملے کئے تو انہیں روکنے کے بجائے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔
تیس30سال قبل ان ہی دنوں فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ شروع ہوا تھا۔میں اس وقت یروشلم میں تھا۔ یہ انتفاضہ 8دسمبر 1987میں اس وقت شروع ہوا تھا جب جبلیہ پناہ گزیں کیمپ میں اسرائیلی فوج کا ایک ٹرک گھس آیا اور اس نے چار فلسطینیوں کو روند ڈالا ۔ اس سانحہ کے بعد اسرائیلیوں کے تسلط کے خلاف فلسطینیوں کا احتجاج بھڑک اٹھا ۔ اس انتفاضہ میں صرف فلسطینی مسلمان شامل نہیں تھے بلکہ ان کے دوش بدوش ، عیسائی فلسطینی بھی تھے ۔
یروشلم میں مسجد اقصی کے اردگرد مسلم علاقہ سے ملحق مرقد عیسیٰ کے گرجا گھر کا عیسائی علاقہ ہے۔ عین بارہ بجے دوپہر کو ان دونوں علاقوں میں دکانیں اور سارا کاروبار بند ہو جاتا تھا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی یہ یک جہتی بے نظیر تھی۔ انتفاضہ کے مختلف پہلو تھے۔ ایک طرف مکمل ہڑتال سے سارا کاروبار بند ہو جاتا تھا دوسری جانب ، شہری انتظامیہ ، سول نافرمانی اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے انکار کی وجہ سے ٹھپ پڑ گئی تھی اور اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ نے شہر میں اسرائیلی کاروبار بڑی حد تک معطل کر دیا تھا۔
انتفاضہ کو کچلنے کے لئے اسرائیل نے 80ہزار فوجی تعینات کیئے تھے جو مسجد اقصی کے دروازوں پر اور مشرقی یروشلم کی گلیوں میں چپہ چپہ پر پہرہ دیتے تھے۔ ان فوجیوں کے علاوہ ،اسرائیلی شہریوں کے جتھے بھی گشت کرتے تھے۔ ایک صبح ہم ایک فلسطینی پک اپ میں حضرت ابراہیم کے مزار پر حاضری دینے الخلیل روانہ ہوئے جیسے ہی پک اپ یہودیوں کے محلہ کے قریب سے گذری اس پر یہودیوں کے ایک جتھے نے جس میں خواتیں پیش پیش تھیں پک اپ پر پتھراو کر دیا۔ میری ٹھوڑی پر ایک بڑا پتھر لگا ، فلسطینی ڈرایؤر تیزی سے فلسطینی مقاصد ہسپتال لے گیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ اس جتھے نے پک اپ کو اس وجہ سے نشانہ بنایا کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ یہ فلسطینی نمبر والی پک اپ ہے۔
میں ان تین ہزار فلسطینیوں میں ایک تھا جو انتفاضہ کے دوراں زخمی ہوئے۔ ویسے انتفاضہ کے چھ برسوں میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک ہزار نو سو تیرسٹھ فلسطینی شہید ہوئے۔ ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد277تھی۔ اس انتفاضہ کے نتیجہ میں آخر کار اسرائیلی حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور اسرائیلی وزیر اعظم رابین نے آخر کار تشدد کی راہ ترک کر کے پی ایل او سے مذاکرات کی راہ اپنائی اسی کے ساتھ امریکا بھی پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت تسلیم کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ فلسطینی مزاحمت کی فتح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی قیادت ایک نئے انتفاضہ کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
اس نئے فلسطینی انتفاضہ کے ساتھ لازمی ہے کہ پوری اسلامی امت ، امریکا کا اقتصادی بائیکاٹ شروع کرے۔ اس وقت تک ہم اپنے وقار اور عزت نفس کو تقویت نہیں دے سکتے اور اس وقت تک ہم اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے جب تک ہم امریکا کے قدموں میں معذوروں کی طرح پڑے رہیں گے اور اس کی سیاسی اور اقتصادی حضوری اپنے اوپر طاری رکھیں گے۔ اقتصادی بائیکاٹ کا ہتھیار آج کے دور کا نہیں ہے۔
ڈھائی سو سال پہلے برطانوی نوآبادی میں رہنے والے امریکیوں نے برطانوی ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا تھا اور اقتصادی بائیکاٹ کیا تھا جس سے برطانوی نوآبادیاتی نظام لڑکھڑا گیا تھا۔ پھر عصر حاضر میں 1955میں امریکا کے شہر منٹگمری کی بس میں ایک سیاہ فام خاتون کو سفید فام افراد کی مخصوص نشست سے اٹھے سے انکار پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں منٹگمری بس کا بائیکاٹ کیا گیا اور سیاہ فام آبادی نے منٹگمری بس میں سفر کرنا ترک کردیا۔ ایک سال کے اندر اندر منٹگمری بس کو بری طرح سے نقصان ہوا اور آخر کار مقدمہ فیڈرل کورٹ میں گیا جہاں عدالت نے سیاہ فام اور سفید فام افراد کے لئے الگ الگ نشستوں کو غیر آئینی قرار دیا۔
یہ بے مثال فتح تھی اقتصادی بائیکاٹ کی ۔2006 میں ڈنمارک کے خلاف بھی اقتصادی بائیکاٹ کامیاب رہا تھا جب ڈنمارک کے اخبار جالیلینڈ پوسٹن نے رسولِ کریم کا کارٹون شائع کیا تھا۔ پورا عالم اسلام اس توہین رسالت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا اور سعودی عرب نے کوپن ہاگن سے اپنا سفیر واپس بلا کر ڈنمارک کی اشیاء کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ڈینش اخبار نے کارٹون کی اشاعت پر معافی مانگ لی۔ اور ڈنمارک کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کامیاب رہا۔
سوال یہ ہے کہ یروشلم کے بارے میں امریکا کے اعلان کے خلاف پورا عالم اسلام یک جا ہو کر اقتصادی با ئیکاٹ کیوں نہیں کرسکتا۔ سب یہ جانتے ہیں کہ امریکیوں کو سب سے زیادہ اپنے تجارتی اور مالی مفادات کی فکر رہتی ہے اور اس پر ذرا بھی آنچ برداشت کر نے کے لئے تیار نہیں۔
کوکا کولا ہی کو لیجیے پاکستان میں امریکی مشروب کی کمپنی نے ، پچھلے سال 200ملین ڈالر کا سرمایہ لگایاہے اور اس کی روز کی اربوں روپے سے زیادہ کی فروخت ہے۔ کوکا کولا کے رسیا پاکستانی اگر ایک ہفتہ بھی کوک کا بائیکاٹ کردیں تو امریکا گھٹنے ٹیک دیگا۔ اسی طرح میک ڈانلڈ اور کے ایف سی کا بھی پاکستانی عوام بائیکاٹ کر دیں تو امریکا میں تہلکہ مچ جائے گا۔ سب کو اس کا علم ہے کہ خودپاکستانی میڈیا جو ان امریکی کمپنیوں کے اشتہارات کے حصول کے لئے دیوانہ رہتا ہے اور پاکستان کے عوام جو کوک کے نشہ کے عادی ہو چکے ہیں بڑی مشکل سے کوک، سیون اپ ،میک ڈانلڈ اور کے ایف سی کے بائیکاٹ کے لئے آمادہ ہوں گے۔ یہ آزمایش ہوگی پاکستان کے عوام کی کہ آیا انہیں امریکا کی یہ مشروبات اور خوان زیادہ پسند ہیں یا اپنے ہم مذہب محکوم فلسطینیوں کی آزادی زیادہ عزیر ہے۔
کھو نہ جا اس سحرو شام میں اے صاحبِ ہوش۔۔اک جہاں اور بھی ہے جس میں فرد ہے نہ دوش
One Comment