محمدحسین ہنرمل
یہ پہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی تھی جب خلیفہ ثالث حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ جنگ صفین کے اختلافات کا تصفیہ کررہے تھے۔حضرت موسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمرابن العاصؓ دونوں صحابہ اس تصفیے کیلئے حکَم مقرر کیے گئے ۔ان دونوں صحابہؓ کے تصفیے پر مسلمانوں کا ایک گروہ اچانک برہم ہوکر اس تحکیم(مذاکرات )ر اعتراض کرنے لگے ، ان کے غیض وغصے کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کے ان دوجماعتوں کو صرف فاسق اور گناہگار کہنے کے بجائے علی الاعلان کافر قرار دے دیا۔
کفر کا فتویٰ لگانے کے لئے اس متشدد ٹولے کے پاس پرلے درجے کی ایک بھونڈی دلیل تھی کہ ’’چونکہ فیصلے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے جبکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بجائے انسانوں پر اعتماد کرکے ان سے فیصلہ کرڈالا لہٰذا یہ کفر کے مرتکب ہوکر کافر ٹھہرے ہیں‘‘۔دین اسلام کے احکام کی غلط تاویلات کرکے ہَوا پرستی سے مغلوب ہونے والا یہ ٹولہ بعد میں خوارج کے نام سے جانا گیا۔اُن کی یہ ہَوا پرستی انہیں تشدد کے اس مقام تک لے گئی کہ اسے بعدمیں اپنے اور اپنے ہم عقیدہ لوگوں کے سوا باقی تمام کلمہ گو مسلمان کافر دکھائی دینے لگے ۔
ان کے نظریات کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف یہ جنگ بھی واجب سمجھتے تھے اور ریاست کے غیر عادل حکمران کے خلاف مسلح بغاوت کو بھی فرض سمجھنے لگے۔ان کے نزدیک حضرت عثمانؓ اگرچہ خلیفہ تھے لیکن بعد میں ظالموں نے دین کی اس اہم ستون کو بھی واجب القتل اورمستحقِ عزل قراردیا کیونکہ ان کی دانست کے مطابق خلیفہ آخری وقت میں حق سے منحرف ہوئے تھے ۔گناہ ان کے نزدیک کفر کے مترادف تھا جبکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب توبہ کرنے سے پہلے ان کے ہاں کافر اور ملحد تصورکیاجاتا تھا۔
کفر کے فتوے لگانا ان لوگوں کا بہترین مشغلہ ٹھہرا ، یہ کہتے تھے کہ جب تک خلیفہ وقت عدل وانصاف پر قائم رہے ، واجب الاطاعت ہے بصورت دیگر ان سے لڑنا اور ان کی گردن زنی کرنا واجب ہوجاتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ خوارج کا ایک گروہ تو یہاں تک حدود سے تجاوز کرگیا تھاکہ سوا ئے اپنی قبیل (خارجیوں)کے باقی تمام مسلمانوں کومشرک سمجھتے ، یوں اُن کی اذان پر نماز کے لئے جانا اور ان کا ذبیحہ کھانا بھی حرام سمجھتے ۔ اپنے ہم عقیدہ لوگوں کے علاوہ یہ باقی تمام مسلمانوں سے جہاد فرض عین سمجھتے جبکہ ان کے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا اور ان کے مال کو لوٹنا ان کے مسلک میں مباح تھا۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ ’’ اباضیہ ‘‘ جو کہ خوارج حضرات میں نرم ترین اور روشن خیال ٹولہ سمجھا جاتا تھا ،کی انتہا پسندی کا یہ عالم تھاکہ عام مسلمانوں کو کافر توکہتے مگر انہیں مشرک کہنے سے احتراز کرتے تھے ۔خارجیوں کے عقائد ونظریات کا اجمالی نقشہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کیا امت مسلمہ کو ایک مرتبہ پھر ان جیسے نظریات کے حاملین سے پالا نہیں پڑا ہے ؟
چھ سات سال قبل کوفے کی اسی سرزمین سے داعش کے روپ میں برآمد ہونے والاٹولہ اسی خارجی ٹولے کی ایک کڑی ہی تو ہے ۔بھونڈے دلائل کا سہارا لے کراسلام کے مقدس نام اورصدیقی وعمری خلافت کے شفاف نظام کو استعمال کرکے جس انداز سے دین اسلام کا نقشہ پیش کررہے ہیں ، اس سے کون سلیم الفطرت عالم دین اور کون درد دل رکھنے والا مسلمان متفق ہوسکتا ہے ۔مستند علمائے دین کی ریسرچ سے قطع نظرجہاں تک مجھ جیسے کم علم انسان کا اصول دین سے تعلق رہا ہے ، خود اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جتنا نقصان آج کے ان نام نہاد خدام نے دین اسلام کوپہنچاہے ، اول الذکر خوارج نے شاید پہنچایا ہو۔
قرآنی آیات اور احادیث نبوی کی آڑ لے کر جس بربریت سے ایک اللہ ، ایک قرآن اور ایک ہی رسول کے ماننے والوں کی سرکوبی پچھلے سالوں سے کی جارہی ہے ، ایک لمحہ فکریہ ہے ۔جس دین مبین نے ہمیں غیر مسلموں کے ساتھ جس نارواسلوک برتنے سے روکاہے کیا اس سے بدرجہاظالمانہ سلوکَ عَلمِ خلافت کے یہ دعویدا راُن مسلمان نمازیوں کے ساتھ نہیں کررہے ہیں جو امام کے پیچھے اقتدا کیے ہوئے ہیں۔ایک مائنڈ سیٹ تیار کیا گیا ہے جو عراقی اورشامی داعش کے علاوہ یہاں کے عجمی داعش بھی اپناچکے ہیں۔د ین کے نام پرمیدان سج گیا ہے ، ریاست سے انتقام لیناوالے بھی اس میں کودتے ہیں ، معاشرتی محرومیوں سے دل برداشتہ بھی اس راہ پر چل پڑتے ہیں ، علم سے عاری اور جذبات سے لبریز بھی یہاں پر ابدی راحت کا ساماں کرتے ہیں۔
♦
One Comment