آصف جاوید
پاکستان میں مزدور طبقے کی تعداد چھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے، یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی محنت کش افرادی قوّت پر مشتمل ہے۔ ان چھ کروڑ افراد کی اکثریت، ناخواندہ، نیم خواندہ، غیر تربیت یافتہ، غیر ہنر مند ، نیم ہنر مند افراد پر مشتمل ہے۔ یہ چھ کروڑ زندہ انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی کے ساتھ ساتھ ، انتہائی کم اجرت اور نامناسب حالات میں اپنی روزی کمانے پر مجبور ہے۔ اِس ایک تہائی آبادی پر لیبر قوانین کا اطلاق ہی نہیں ہو تاہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے محروم یہ مزدور طبقہ محرومی، استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے ۔
لیبر قوانین مزدوروں کے تحفظ کیلئے وضع کئے جاتے ہیں، ہیں تاکہ مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور تحفظات مہیّا کئے جائیں۔ لیبر قوانین آجر کو اس اَمر کا پابند کرتے ہیں کہ آجر مزدوروں کو کام کی جگہ پر سہولتیں ، حفاظتی انتظامات اور دوستانہ ماحول فراہم کرے ، کام کی جگہ پر ایسے انتظامات کئے جائیں جہاں غیر انسانی حالات و ماحولیاتی آلودگی کا کوئی خطرہ نہ ہو، مزدوروں کی صحت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
لیبر قوانین مزدورں کی کم از کم اجرت، اوقاتِ کار، چھٹّی کے دنوں میں کام کا معاوضہ، عارضی اور مستقل مزدورں کا طریقہ کار، کسی حادثے کی صور ت میں زرِ تلافی، گریجوئٹی، بونس اور گروپ انشورنس کی ادائیگی ، مستقل ملازمین کو سالانہ اور اتفاقیہ چھٹیاں بغیر تنخواہ اور مکمل تنخواہ کے ساتھ دینے کا طریقہ کار طے کرتے ہیں۔ مزدوروں کی تعداد کے حساب سے سہولیات کا پھیلاؤ، فیئر پرائس شاپ، کینیٹین، قانون زچگی کے تحت دوران زچگی مقرّرہ ہفتوں کی چھٹیاں اور عدت کی چھٹیوں کی خصوصی مراعات دیتے ہیں۔
نیز خواتین مزدورں کو جنسی ہراسگی سے بچانے کیلئے اقدامات اور خواتین کے لئے ڈیوٹی کے اوقات کار روزانہ8گھنٹے دن کی روشنی پر محیط رکھنے کو یقینی بناتے ہیں۔ لیبر قوانین نوکری سے برخواستگی کا طریقہ کار طے کرتے ہیں ، یونین سازی کاحق دیتے ہیں۔ مزدورں کو انسان دوست ماحول اور سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔
پاکستان میں حیرت انگیز طور پر ِ لیبر قوانین کا برائے نام اطلاق صرف صنعتی کارکنان پر ہی ہوتا ہے، جبکہ ملک کی پچاس 50 فیصدسے زیادہ آبادی دیہی معیشت اور زراعت سے وابستہ ہے۔ جن پر لیبر قوانین کا کوئی اطلاق ہی نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، مگر اِس کے باوجودپاکستان میں 6 کروڑ افرادی قوت کو دورانِ کار بد ترین انسانی صورتحال کا سامنا ہے۔اِس 6 کروڑ افرادی قوّت کو کسی بھی قسم کے لیبر قوانین کا تحفّظ حاصل نہیں ہے۔
پاکستان میں لیبر قوانین کے اطلاق سمیت بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئےاقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے 2014 میں تمام رکن ممالک کو بنیادی انسانی حقوق کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تیار کرنے کا پابند کیاتھا۔ نیشنل ایکشن پلان تیّار کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرزکی باہمی مشاورت نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں محنت کش افرادی قوت کو بنیادی انسانی حقوق، اور آجروں کی جانب سے دی جانے والی مراعات، سہولتوں کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ پاکستانی فیصلہ ساز ادارے پالیسی سازی کے ضمن میں ، اسٹیک ہولڈز (حکومت، آجر اور اجیر)، لیبر قوانین، عالمی قوانین برائے انسانی حقوق، زراعت، صنعت اور کاروبار کے تعلّق کی اہمیت سے لاعلم ہیں۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے حکومت، ارکان پارلیمنٹ، کاروباری شخصیات اور ورکرز کے نمائندوں کے درمیان اشتراکِ عمل کی شدید ضرورت ہے۔
مزدوروں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے موثّر بلدیاتی نظام اور شہری حکومتوں کے قیام ، صنعتی زون، مزدوروں کے لئے بنیادی انسانی ضروریات سے آراستہ آبادیاں، پینے کے صاف پانی، سینی ٹیشن کے نظام، تعلیمی سہولتوں کی فراہمی ، بنیادی صحت کے مراکز، افرادی قوّت کی تربیت کے مراکزکا قیام بنیادی شرائط کے زمرے میں آتا ہے ، کیونکہ زمین، جنگل، ذخائرِ آب، ماحولیات، اور کمیونٹیز کی حفاظت مضبوط شہری حکومتوں اور موثّر بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کو کو چائلڈ لیبر، جبری مشقّت، صنفی امتیازاور خواتین مزدور، بھتّہ مزدور، بانڈیڈ لیبر کے استحصال کا بھی سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی تجارت اور عالمی مارکیٹ تک موثّر رسائی میں مشکلات درپیش ہیں ۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اور ریسرچ (پائلر) کی ایک رپورٹ کے مطابق مایوس کن بات یہ ہے کہ چھ کروڑ لیبر فورس میں صرف ایک فیصد مزدور اپنے حقوق کی سودا کاری کے لئے یونین سازی سے منسلک ہیں۔ جبکہ پچاس کی دہائی میں پچیس فیصد مزدور یونین سازی سے منسلک تھے۔ مزدوروں کے مسلسل استحصال اور لیبر قوانین کا اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ تعداد اب کم ہوکر صرف ایک فیصد رہ گئی ہے۔ لیبر قوانین کے نفاذ کے حوالے سے مایوس کن صورتحال کی ذمّہ داری ماضی کے ان فوجی آمروں پر بھی ہے،جو پاکستان کی نصف تاریخ سے زائد عرصے تک اقتدار پر قابض رہے ہیں۔
مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینِ پاکستان میں تقریباً 70 کے قریب قوانین موجود ہیں لیکن اس کاجو بھی نام نہاد اطلاق ہوتا ہے، وہ صرف فارمل سیکٹر جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں پر ہوتا ہے جب کہ انفارمل سیکٹر جیسے آٹو ورکشاپ، ہوٹلوں اور دکانوں ، کسانوں، کھیت مزدوروں، زراعت کے شعبے، دیہی آبادی سے وابستہ افرادی قوّت پر نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی کل افرادی قوّت کا تقریباً 50فیصد دیہی آبادی اور زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ، جن کے حقوق اور مفادات کے حوالے سے صورتحال مایوس کن ہے۔
زیادہ تر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے کا ووٹ بینک بھی یہی طبقہ ہے، لیکن انہیں بھی اس طبقے کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جب کہ زراعت کے شعبے میں جبری مشقت، بانڈیڈ لیبر بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے والے افراد کے لیے بھی باضابطہ طور پر کوئی لیبر قوانین موجود نہیں ہیں ،جس کے باعث انہیں مالکان کی طرف سے جنسی استحصال اور بدسلوکی کا سامنا رہتا ہے۔ لیبر قوانین کا عدم اطلاق پاکستان میں انسانی وسائل کے بدترین استحصال کا سبب بن رہا ہے، جو ملک کی ترقّی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
♦
One Comment