زکریاورک
لا ئبریریوں کو استادوں کی استاد بجا طور پر کہا جاتا ہے۔ انگلش کا لفظ لا ئبریری لاطینی لفظ’’ لیبر‘‘سے اخذ ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ کسی بھی قوم کی قدر و قیمت کا اندازہ کتابوں سے لگایا جاتا ہے۔ عہد وسطیٰ کے اسلامی دور میں کتابوں کی کیا اہمیت تھی، علم کے پھیلانے میں مسلمانوں نے کیا کردار ادا کیا،کتب خانوں کو کیا اہمیت حاصل تھی، مسلمان عالموں، سائنسدانوں کی کس طرح قدر کی جاتی تھی، مسجد صرف عبادت گاہ نہ تھی بلکہ یہاں علم کی تحصیل کی جاتی تھی جس کیلئے یہاں کتابیں مہیا ہوتی تھیں، مسلمانوں نے عہد رفتہ کی یونانی، سنسکرت، فارسی، کتابوں کو کس طرح محفوظ کیا، ان کے تراجم کئے اور انہی تراجم سے دنیا علم کے نور سے منور ہوئی۔ یہ ہر دلعزیز داستاں اس مضمون میں بیان کی گئی ہے۔
مسلمانوں نے کاغذ سازی کا فن موجودہ قرغستان میں آٹھویں صدی میں چینیوں سے سیکھا تھا (1)۔اسلامی دنیا میں کاغذ کی پہلی فیکٹری 751 میں سمرقند میں تعمیر ہوئی ۔ اس کے بعد مسلمان کاغذ کی ایجاد کو ہندوستان اور یورپ لے گئے۔ جلد ہی اس ایجاد کے طفیل بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں پبلک لا ئبریرزقائم ہوئیں جہاں کتابیں کاغذ پر لکھی جانے لگیں۔ اسلامی دنیا میں لا ئبریریوں کے مختلف نام پائے جاتے تھے جیسے بیت الحکمۃ، خزانۃ الحکمۃ، دار الحکمۃ، دار العلم، دار لکتب، خزانتۃ لکتب، بیت الکتب اور ایران میں کتاب خانہ۔ مدارس کے علاوہ پبلک اور پرائیویٹ لا ئبریریاں تھیں۔لا ئبریری کے عہدیدار تھے: ناظم، مہتمم، صحاف، ورق، جلد ساز، نقاش، خوشنویس، مقابلہ نویس، مصح (پروف ریڈر)، اور کاتب۔
پہلی اسلامی لائبریری کی بنیاد امیہ خلیفہ حضرت معاویہؓ ابن ابی سفیان (602-680) نے دمشق میں رکھی تھی۔ان کی ذاتی لا ئبریری کا نام بیت الحکمۃ تھا جس میں آنیوالے ادوار میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس دور میں کتاب کی انڈسٹری کا محور مسجد ہوتی تھی ۔ چھوٹی لائبریریاں تمام کی تمام مسجدوں کا حصہ تھیں جن کا مقصد کتابوں کی یونانی ، پہلوی، سنسکرت سے عربی میں نقول تیارکرناتھا۔عالمی سیاح ابن بطوطہ (1368)کے بقول دمشق کی بک سیلر مارکیٹ جامع مسجد سے قریب تھی جہاں کتابوں کے علاوہ چمڑہ، گتا، گوند، عمدہ کاغذ، قلم، روشنائیاں فروخت ہوتی تھیں۔
اکثر متمول مسلمان اپنی لائبریریاں مساجد کو وقف کر دیتے تھے۔ مسجدامام ابو حنیفہؒ کی بغداد میں لا ئبریری کافی بڑی تھی۔ مؤرخ واقدی(م822) نے ورثہ میں اتنی کتابیں چھوڑیں جو600 شیلفوں میں سما سکتی تھیں۔ امام حنبلؒ (855) کی کتابوں کی تعداد اتنی تھی کہ ان کو لے جانے کیلئے بارہ اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اسی طرح مفسر قرآن علامہ زمخشری نے اپنی ذاتی کتابیں مسجد کو دے دیں۔ کہا جاتا ہے کہ شیعہ سکالر جرودی ذیدی اپنی لا ئبریری کو منتقل کر نا چاہتاتھا جس کیلئے چھ سو اونٹوں کی ضرورت پڑی اور اس کی قیمت ایک سو دینار تھی۔ (2)۔
عہد وسطیٰ کے دور میں اسلامی دنیا میں تین عظیم الشان لا ئبریریاں بغداد، قاہرہ اور قرطبہ میں تھیں۔ دسویں صدی میں لائبریریوں اور سکولوں کی بصرہ، بغداد، دمشق، اصفہان، نیشاپور ، قاہرہ میں بنیاد رکھی گئی۔ ابن الندیم نے ان کی قدرے تفصیل کتاب الفہرست میں اور ابن القفطی تاریخ الحکماء میں ، ابن ابی اصیبعہ نے عیون الانباء میں اور ابن جلجل نے طبقات الاطباء والحکماء میں دی ہے۔ ان کتابوں میں مختلف قومیتوں، نسلوں کے مسلم سائنسدانوں اور فلاسفروں کے سوانحی حالات اور ان کی کتابوں کا تذکرہ ، تفصیل ملتی ہے۔ اب اسلامی دنیا کی مختلف31 لا ئبریریوں کااحوال پیش کیا جاتا ہے۔
القرویین لا ئبریری مراکش۔
یہ دنیا کی قدیم ترین لا ئبریری ہے جس کی بنیاد فیض مراکش میں859ء میں فاطمہ الفھریہ نے رکھی تھی۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ لا ئبریری نہ صرف قدیم ترین بلکہ اس وقت سے لوگوں کو فیض یاب کر رہی ہے۔اورجامعہ القرویین قدیم ترین ڈگری دینے والی یونیورسٹی ہے۔ فاطمہ تعلیم یافتہ ، سکالر اورزاہد و عابدخاتون تھی جس نے فیصلہ کیا کہ وہ ورثہ میں ملنی والی دولت سے فروغ تعلیم کے ساتھ رفاہی کام کرے گی جس کیلئے اس نے ایک مسجد اور مدرسہ و لائبریری کی بنیاد رکھی۔اس لا ئبریری میں دینیات، قانون، گرائمر اور اسٹرانومی پر دستی نسخے تھے جن میں سے کچھ ساتویں صدی کے تھے۔ یہاں پر نویں صدی کا کوفی رسم الخط میں ایک قرآن، ابن رشد کی مالکی فقہ پرکتاب کا قلمی نسخہ، اور ابن خلدون کا مقدمہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے کمپلیکس میں اضافے کئے گئے اور اب یہاں جدید طر ز کی ایک مسجد، لائبریری، جامعہ ہے۔ ابن العربی نے بارھویں صدی میںیہاں تعلیم حاصل کی اورعلم بشریات کے بانی ابن خلدون نے یہاں چودھویں صدی میں ۔ (3)۔
عہد وسطیٰ میں القرویین یو نیورسٹی اور یورپ کے درمیان علم کی منتقلی سر انجام پائی تھی۔ صدیوں گزرنے پر اس کی عمارات بوسیدہ ہو چکی تھیں، اس میں موجود قلمی نوادرات سکالرز کی پہنچ سے باہر تھے۔ کچھ سال پہلے مراکش کی حکومت نے یو نیورسٹی آف ٹورنٹو کی پر وفیسر عزیزہ چاؤنی کو کمیشن کیا کہ وہ لائبریری کی عمارات کو مرمت کر کے جدید طریق پر تعمیر کریں۔ لا ئبریری پرانے نادرمسودات کو ڈیجیٹا ئز کر رہی ہے اور بیس فی صد الیکٹرونک صورت میں موجود ہیں ۔ اب دنیا کے دور افتادہ ممالک اور شہروں میں سکالرز ان سے استفادہ کرسکیں گے۔ لائبریری میں کلائمیٹ کنٹرول ہے ۔ اس کا افتتاح مئی 2016ء میں ہؤا تھا۔
یورپ میں اس وقت برلن، ڈبلن، لیڈن، اسکوریال، لندن، آکسفورڈ اور پیرس کی لا ئبریریوں میں عربی مسودات پائے جاتے ہیں وہ یا تو خرید ے گئے، یا تحفہ میں ملے، یا سرقہ، یاکتابوں کی نقل اور یا پھرجنگوں میں حاصل کئے گئے تھے۔
بغداد کے کتب خانے
بیت الحکمۃ بغداد : آٹھویں صدی کے بیت الحکمۃ میں ایک لائبریری، دار الترجمہ، ریڈنگ روم، رصدگاہ، سائنس دانوں کیلئے قیام گاہیں اور انتظامیہ کی عمارات تھیں۔ یحییٰ بن خالد برمکی نے ہندو سکا لرز کو یہاں مدعو کرکے سنسکرت کتابوں کے تراجم کروائے۔ ابوسہل، ابوالفضل بن نو بخت یہاں کے مشہور مترجم تھے۔ یہاں کی لا ئبریری میں ہر موضوع پر ہر زبان میں دنیا کی کتابیں تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے غیر ممالک میں نمائندے بھجوائے تا وہ نایاب کتب خرید کر بھجوائیں چنانچہ سنسکرت، فارسی، قبطی کتابیں بغداد لائی گئیں۔
لا ئبریری سے ملحق دار الترجمہ تھا جہاں سکالرز اور ترجمہ نگار دعربی میں کتابوں کو منتقل کرتے تھے۔ خلیفہ المامون (833) کے دور حکومت میں لا ئبر یری کیلئے ما قبل اسلام نظمیں، سرکاری کاغذات، خطوط، اور معاہدوں کو حاصل کیا گیا۔ مثلاََ قرض کا معاہدہ جس پر حضرت محمد کے دادا محترم عبد المطلب بن ہاشم کے دستخط تھے۔ مامون نے سسلی ، بازنطین سے کتابیں منگوائیں بلکہ امن کے معاہدوں میں ایک شق یہ ہوتی تھی کہ مطلوبہ مسودات بغداد بھیجے جائیں گے۔ سہل بن ہارون لا ئبریری کا منتظم اعلیٰ اور بہترین ترجمہ نگار تھا۔ ابن ابی ہریش یہاں کا جلد ساز تھا۔ بیت الحکمۃ میں ڈائریکٹر کے علاوہ یہاں کاتب، ترجمہ نگار، ہےئت دان، سائنسدان تھے۔ سرکاری کتب خانوں کے علاوہ لوگوں کے ذاتی کتب خانے تھے۔
یحییٰ بن خالد برمکی کی لائبریری
خلیفہ ہارون الرشیدکے وزیر یحیےٰ بن خالد برمکی کی ذاتی لا ئبریری یونانی، قبطی، سنسکرت اور فارسی کتب سے مزین تھی۔ ہر کتاب کے تین نسخے تھے۔ اس کے مشورہ پرخلیفہ نے بدھ مت کے سکالرز کو بغداد آنیکی دعوت دی جنہوں نے کتاب البدھ لکھی۔ اسی طرح یعقوب ابن اسحق الکندی (866)کی ذاتی لائبریری تھی جس کوبنو موسیٰ براران نے ضبط کروا دیا مگر بعد میں اس کو واپس کردی گئی۔ خلیفہ المتوکل (861)کے جگری دوست فتح ابن خاقان (861) کی لائبریری کا مہتمم (صا حب خزانتہ الکتب) مشہور ہےئت دان علی ابن یحےٰی منجم تھا۔ابن خاقان اپنے دور کا سب سے بڑا کتابوں کا رسیا تھا(4)۔
ابو عثمان ابن جاہیز نے اس لا ئبریری کیلئے خاص کتابیں قلم بند کی تھیں۔ علی ابن یحیےٰ (888)کی ذاتی لا ئبریری کا نام خزانۃ الکتب تھا۔ یہاں سے بہت ساری کتابیں اس نے ابن خاقان کی لائبریری کو تحفہ میں دے دیں تھی۔ جو عالم یہاں مطالعہ و تحقیق کیلئے آتے ان کے اخراجات یحیےٰ خود برداشت کرتا تھا۔ مشہور منجم ابو معشر الفلکی خراسان سے حج کیلئے جاتے ہوئے اس بے مثال لا ئبریری سے اکتساب کرنے آیا تھا۔
اسحق موصلی کی لائبریری: اسحق ایک باکمال اور مشاق میوزیشن ، حدیث کا عالم اورعربی گرائمر میں یکتا تھا۔ بغداد میں اس کی لا ئبریری میں بے مثال کتابیں تھیں۔ ابولعباس ثعالب نے ایک ہزار رسائل دیکھے جو موصلی مطالعہ کر چکا تھا۔
وزیر صبو ر بن اردشیر کی لا ئبریری: صبور بن اردشیر (991) نے یہ لا ئبریری بغداد کے محلہ کرخ میں قائم کی جس کا نام دار العلم تھا۔ جرجی زیدان کے بقول یہاں دس ہزار مسودات تھے۔ ہر مصنف کتاب کا ایک نسخہ یہاں عطیہ میں دیتا تھا۔ یہاں قرآن مجید کے ہا تھ سے لکھے 100نسخے تھے۔ بغداد کے نامور اہل سخن یہاں جمع ہوتے اور بحث و مباحثہ میں شامل ہوتے۔ حلب کے نا بینا شاعر اور فلاسفرابولعلیٰ المعری نے اس کتب خانے سے استفادہ کیا، بلکہ جب بھی وہ بغداد آتا زیادہ وقت یہاں گزارتا تھا۔(5)۔
محمدبن حسین البغدادی لا ئبریری: اس لا ئبریری میں بے مثل مسودات اور نادر مخطوطے تھے۔ ما سوا چند فاضل علما کے اور کسی کو یہاں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ ابن ندیم نے کتاب الفہرست میں اس کتاب خانے کی تفصیل مہیا کی ہے۔
بغداد کے راہب خانوں اور مدرسوں میں متعدد نفع بخش لا ئبریریاں تھیں۔ ان میں سے ایک مدرسہ نظامیہ تھا جہاں سلجوق وزیر نظام الملک طوسی (1092)نے اپنی تمام کتب جمع کرادی تھیں۔ لا ئبریری کا ناظم علامہ ابو زکریا طبریزی تھا۔ یاد رہے کہ مدرسہ نظامیہ اسلامی دنیا کا پہلا کالج تھا۔
مستنصریہ مدرسہ لا ئبریری: بغداد کی اس لائبریری کی بنیاد چھتیسویں عباسی خلیفہ المستنصر باللہ (1242) نے 1227ء میں دجلہ کے بائیں کنارے پر رکھی تھی۔ اس کا افتتاح پوری شان و شوکت سے کیا گیا۔ نامور سکالرز اور فقہاء کو یہاں لیکچرز دینے کیلئے مدعو کیا گیا۔ شاہی کتب خانے سے تمام کتابیں130، اونٹوں پر لاد کر اس عالی شان لا ئبریری میں جمع کرادی گئیں۔ ان میں اسی ہزار نادرو نایاب مسودات تھے جن میں سے ایک تاریخ بغداد و مدینۃ الاسلام از ابو بکر خطیب بغدادی کا قلمی نسخہ تھا۔ اس ضخیم کتاب کی24 جلدیں ہیں جن میں 7831سکالرز کی سوانح عمریاں بشمول جملہ مصنفین کے نام اور ان کے کتابوں کے نام شامل ہیں۔لا ئبریری کی عمارت کی دوبارہ مرمت و آرائش1961ء میں کی گئی تھی۔
منگولوں کے 1258ء کے حملے میں اگرچہ دیگر لا ئبریریوں سے کتابیں دجلہ کی نذر کر دی گئیں، کہا جاتا ہے کہ پانی روشنائی سے سیاہ ہو گیا مگر یہ لائبریری محفوظ رہی۔ جب سلطنت عثمانیہ نے بغداد پر1534ء میں قبضہ کر لیا ، تو شہر کے تمام محلات اور لا ئبریرز سے کتب استنبول کی امپرئیل لا ئبریری بھجوادی گئیں۔ اگرچہ مستنصریہ لا ئبریری نیست و نابود ہوگئی مگر اسی نام کا مدرسہ نئی عمارت میں چلتا رہا ،اور اب مستنصریہ یو نیورسٹی کا حصہ ہے۔
www.uomustansiriyah.edu.iqمستنصریہ یو نیورسٹی لا ئبریری کی بنیاد1964ء میں رکھی گئی جہاں1972ء میں پینتالیس ہزار کتابیں تھیں۔ (6)۔
عراق نیشنل لا ئبریری کی بنیاد1920ء میں رکھی گئی تھی۔عراق میں 1972ء میں 73 پبلک لا ئبریریاں تھیں۔ 2003ء کی عراق جنگ میں نیشنل لا ئبریری کا بڑا حصہ عمداََنذر آتش کیاگیااور اس کے چیدہ چیدہ ذخائر کولوٹ لیا گیا۔تباہی سے قبل یہاں چار لاکھ کتابیں،2600 رسائل،4412 نادر مخطوطے تھے۔ لا ئبریری کو2007 کے بعد برٹش لا ئبریری کی مدد سے از سر نو تعمیر اوربحال کر دیا گیا۔
مصر کے کتب خانے
قاہرہ کی لائبریری: فاطمی خلفاء (909-1171)سکالرز اور کتابوں کے عاشقوں کے مربی اور ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ خلیفہ العزیز باللہ بذات خود ایک زبردست عالم، شاعر اور کاتب تھا جس نے قاہرہ میں ایک لا ئبریری خزائنہ القصور کی بنیاد رکھی جس کے40 کمرے کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہاں چھ ہزار کتابیں ریاضی اور علم ہیت پرتھیں، اس کے علاوہ فقہ، گرائمر، حدیث، اسٹرانومی اور کیمسٹری پر بھی تھیں۔ تاریخ طبری کی 1200جلدیں ، خلیل احمد نہوی کی کتاب العین کی 30 جلدیں اور 2400 جلدیں قرآن مجید کی تھیں۔ بعض کتابوں کی جلد سنہری جن پر سلور پینٹنگ تھیں۔
یہاں دو گلوب تھے ایک چاندی کا اور دوسرایونانی ہےئت دان بطلیموس کا بنایا ہؤا ۔ اس کی وفات پر لا ئبریری الحاکم بامر اللہ کے کتب خانے دار الحکمہ میں ضم کر دی گئی۔ دارلحکمہ کے افتتاح کے موقعہ پر نامور فقیہ، اطباء موجود تھے۔وزیٹرز کو مطالعہ کے علاوہ کتابیں نقل کرنے کی اجازت تھی جس کیلئے قلم، روشنائی، کاغذ دیا جاتا تھا۔ یہاں طبیب، فقیہ، ہیت دان منطقی کل وقتی ملازم تھے۔ ایک دفعہ ان علماء کو مباحثہ میں شرکت پر خلیفہ نے بڑی رقوم عطیہ میں دی تھیں۔ لا ئبریری کے اخراجات کیلئے مکانات اور دکانیں وقف تھیں جو آمدن کا وسیلہ تھیں۔ اندازاََ یہاں ایک لاکھ کتابیں تھیں۔
جامعہ ازہر لا ئبریری: جامعہ کی بنیاد970ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کے کتب خانے میں دولاکھ مخطوطے تھے۔ مصر کے متعدد مدرسے اور کتب خانے تباہ ہوگئے ما سوا اس کے۔
خلیفہ مستنصر باللہ (1021-36)کے دور حکومت میں ترکش سپاہیوں نے غارت گری کی اور ہزاروں مسودات دریائے نیل کی نذر کر دئے یا خاکستر کر دئے گئے۔ جو کتابیں بچ گئیں ان کا کھلی جگہہ پر ڈھیر لگا دیا گیا اس مقام کا نام طلال الکتب (کتابوں کا ڈھیر) پڑ گیا۔ فاطمی خلفاء کی لا ئبریریوں میں سے سینکڑوں مخطوطے محفوظ رہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوب (1193) نے تمام کتابیں اپنے مشیر خاص قاضی فاضل کے مدرسہ قاف کو تحفہ میں دے دیں۔(7) ۔
الازہریو نیورسٹی کی بنیاد1961ء میں رکھی گئی ، مگر اس کی لا ئبریری کی بنیاد 1005ء میں رکھی گئی تھی ۔یعنی آکسفورڈ کی بوڈلین لا ئبریری سے چھ سو سال قبل، اور ویٹکن لا ئبریری سے 440سال قبل۔ یہاں 595,668قلمی نسخے جو آٹھویں صدی تک پرانے ہیں، نیز 9062کتابیں ہیں۔
محمودیہ لا ئبریری: قاہرہ کی اس لائبریری میں کئی قسم کے نوادرات تھے۔ اگرچہ یہاں صرف چار ہزار قلمی نسخے تھے مگر ان میں سے متعدد ایسے تھے جن کی کتابت مصنفین نے اپنے دست مبارک سے کی ہوئی تھی۔ کئی نامور عالم اور فاضل اس کے ڈائریکٹر تھے جن میں سے ایک شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اسقلانی (م 1449) تھے۔ یہ کتب خانہ مدرسہ محمودیہ کا حصہ تھا جس کی بنیاد جمال الدین محمود نے رکھی تھی جو سلطان ملک الظاہر سیف الدین برقوق (م 1399)کا مشیر خاص تھا۔
نیشنل لا ئبریری مصر: دارلکتب المصریہ میں 3ملین طبع شدہ کتابیں ہیں، اسی ہزار قلمی نسخے، بہت سارے سکے اور Papyrus پرمسودے، اس کو1870ء میں قائم کیا گیا، اور2002ء میں اسکندریہ لائبریری میں ضم کردیا گیا۔(8) ۔
ایران کے کتب خانے
عضد الدولہ لائبریری: فنا خسرو (لقب عضدالدولہ ،م983)بووید سلطنت کاجلیل القدر امیر تھا۔ بغداد میں اس کے نام کا خطبہ دیا جاتا تھا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں متعدد سائنسی منصوبوں کی سرپرستی کی۔ اصفہان میں ایک رصدگاہ تعمیرکروائی جہاں ماہر ہےئت دان عبد الرحمن صوفی نے تحقیقی کام کیا تھا۔ عضد الدولہ ہسپتال تعمیر کروایا۔ شیراز میں ایک شاندار لا ئبریری تعمیر کروائی جہاں اسلام کے آغاز سے لکھی کتابیں محفوظ تھیں۔ لا ئبریری شاہی محل کے اندر واقع تھی۔ اس میں اونچے اونچے کتابوں کے شلیف تھے جن کی لکڑی کو سنہری رنگ میں رنگا گیا تھا۔علم کی ہر شاخ کیلئے الگ کمرہ تھا۔ لا ئبریری کی نگہداشت ایک خازن اور ناظم کرتا تھا۔ صرف سکالرز کو یہاں آنے کی اجازت تھی۔
ابوالفضل ابن العمید لائبریری: ابن العمید بووید حکمراں رکن الدولہ(976) کا وزیر اور مسلمہ سکالر بھی تھا اس لئے اس کا لقب جاہیز ثانی تھا۔ اس کا کتب خانہ بھی شیراز میں واقع تھا جس کا ڈائریکٹر فلاسفر اور مؤرخ ابن مسکاویح (932-1030)تھا۔ابن مسکاویح کئی وزراء سلطنت کا سیکرٹری اور لائبریرین رہ چکا تھا۔(9) ۔
عضد الدولہ کاایک سیکرٹری ابوالقاسم اسماعیل (صا حب ابن العباد) تھا جس کی شاندار ذاتی لائبریری تھی۔ وہ نہ صرف کتابیں جمع کرنے کا شوقین بلکہ اس کی محفل میں شاعر، ادیب اور مباحثہ کرنیوالے جمع رہتے تھے۔ عنفوان شباب میں وہ ابن العمید کاجلیس تھا اسلئے اس کو صا حب کہتے تھے۔ ابن العمید کی وفات (970) پر اس کو وزیر سلطنت کے عہدے پر متمکن کر دیا گیا۔ جب سمانید حکمراں نوح ابن منصور (954)نے اس کو وزرات کا منصب پیش کیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری لا ئبریری اتنی بڑی ہے کہ اس کو 400اونٹوں پر منتقل کر نا ممکن نہیں ہے۔
طوس کی لا ئبریری: طوس ایران کا قدیم ترین شہر ہے جہاں سلجوقی وزیرنظام الملک ، نصیرا لدین طوسی اور فردوسی جیسے یگانہ روزگار پیدا ہوئے۔ طوس لا ئبریری کوابو علی حسن ابن علی طوسی نظام الملک (1092)نے قائم کیا تھا جو مدرسہ نظامیہ بغداد کا بانی تھا۔
سینٹرل لا ئبریری آستانہ قدس رضوی مشہد: یہ حضرت امام رضاؒ ((818کے مزار کے ساتھ ملحق تھی۔ اس کی بنیاد974 میں رکھی گئی تھی۔ یہاں قرآن، حدیث، فلاسفی، منطق اور فقہ پر مسودات کے شہ پارے محفوظ ہیں۔ اس کی کیٹیلاگ” فہرست کتب خانہ آستانہ قدس رضوی “متعدد جلدوں میں ہے۔ یہاں 1.1ملین کتابیں ، ہزاروں قلمی نسخے، اور اسلامی تاریخ کے قدیم شہ پارے ہیں۔ علی ابن سیم جور نے 974 میں بہت ہی پرانا قرآن روضہ امام رضاؒ کو عطیہ کیا تھا۔سینٹرل لا ئبریری کی35 برانچز ہیں۔یہ اسلامی علوم کی تحقیق کا عالمگیر نامور ادارہ ہے۔ 10))۔
شیراز کی لائبریری کے متعلق سٹورٹ مری کا کہنا ہے
Islamic libraries were”, says Stuart Murray, “rich in diversity, allowing scholars from other lands to share the facilities. These libraries were known for their attractiveness and comfort, many adorned with the classic Islamic dome, some surrounded by walkways and landscaped by ponds. Among the most legendary library was that of Persian city of Shiraz, where there were more than 300 hundred chambers furnished with plush carpets. The library had thorough catalogs to help in locating texts, which were kept in the storage chambers and organized according to every branch of learning” (11)
کتابیات
1.Stuart Murray, The Library an illustrated history, Chicago 2009, page 95
2.http://www.muslimheritage.com/article/origins-islamic-science
3. Mrs. Asma Khan, Karachi University Library Science Alumni Association, Canada, online magazine Jan-Jun 2015.
4.Hugh Kennedy, When Baghdad Ruled the Muslim World, Da Capo Press, Cambridge, MA 2004, p 252
5.Quoted by Shafiq Qaisar (1939-1979) Rabwah, Kutub Khanay, Amritsar, India, 2009, p214
6.Encyclopedia of Lib Science & Info Sci. / page 66, vol 13
7.P.K. Hitti, Capital cities of Arab Islam, page 124
International Encyclopedia of Information and Library Science, page 421 www.google.ca/books
9E.J. Brill’s First Encyclopedia of Islam 1913-1936, Volume 1
10.https://en.wikipedia.org/wiki/Central_Library_of_Astan_Quds_Razavi
11.Stuart Murray, The Library- an illustrated history, Chicago 2009, page 56
2 Comments