ظفر آغا
ہندوستانی مسلم اقلیت ایسی بے یار و مددگار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی جیسی کہ 28 دسمبر 2017کو غمخوار نظر آرہی تھی۔ یہ وہ روز ہے کہ جس دن ہندوستانی لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ کے خلاف مودی حکومت نے قانون پاس کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کا حشر یہی ہونا تھا کیونکہ خود طلاق ثلاثہ کے محافظ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مطابق یہ طلاق طلاقِ بدعت ہے۔ سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف مقدمے میں پرسنل لاء بورڈ نے اپنے استغاثہ میں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ قرآن ایسی طلاق کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لیکن اس رسم طلاق کے لیے پرسنل لاء بورڈ نے اپنا سب کچھ شاہ بانو کیس کے بعد سے یعنی 1985 سے داؤ پر لگا رکھا تھا۔ اور کوئی تیس برس بعد پرسنل لاء بورڈ پہلے سپریم کورٹ میں مقدمہ ہارا اور پھر آخر مودی سرکار نے اس طرز ِطلاق کے خلاف 28 دسمبر کو قانون بنا کر طلاق ثلاثہ دینے والے شوہر کو تین برس کی سزا مقرر کر دی۔
اللہ رے مسلم قیادت! مسلمانوں نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے زیر سایہ بابری مسجد کے تحفظ کی قسمیں کھائیں اور نعرہ تکبیر کی صداؤں کی گونج میں مسلم قائدین نے مسجد کے لیے اپنی جان دینے کی قسمیں کھائیں۔ قیادت تو خوب پھلی پھولی، لیکن بابری مسجد کا کہیں نام و نشان نہ بچا۔ اور تو اور، مسجد کے نام پر ہزاروں مسلمان مارے گئے اور اس وقت تک مردہ بی جے پی رام مندر تحریک سے ایک قوی طاقت بن گئی۔
اس طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سنہ 1985 میں دہلی کے بوٹ کلب پر طلاق ثلاثہ کے تحفظ اور شاہ بانو کیس فیصلے کے خلاف لاکھوں کا مجمع اکٹھا کیا اور راجیو گاندھی کو مسلم خواتین بل لانے پر مجبور کیا۔ تب سے آج تک مسلم پرسنل لاء بورڈ طلاق ثلاثہ کی جنگ لڑتا رہا۔ طلاق ثلاثہ اب جرم ٹھہرا اور یہ لعنت بھی ختم ہوئی لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام پر آج تک مسلم قیادت کی دکان جاری ہے۔
آخر یہ کیسے قائد ہیں جو خود تو پھلتے پھولتے ہیں لیکن ان کی قوم نہ صرف خسارے میں رہتی ہے بلکہ اپنی ہر جدوجہد ہار کر اور زیادہ پسماندگی کا شکار ہوتی ہے! ایسے قائدین کو قائد نہیں سوداگر کہا جائے تو شاید بہتر ہوگا۔ کیونکہ مولانا آزاد کے بعد سے اب تک ہندوستانی مسلمان نے کوئی قائد پیدا ہی نہیں کیا۔ قائد قربانیاں دیتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ایسی بصیرت کے حامل ہوتے ہیں کہ جس کی روشنی میں ان کے ماننے والے ترقی کرتے ہیں۔ سنہ 1947 کے بعد سے ہندوستانی قیادت کا ٹھیکہ آہستہ آہستہ ایک قدامت پسند مسلم گروہ کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
پھر ہندوستان ایک ہندو اکثریت ملک ہے۔ یہاں سنگھ اور بی جے پی جیسی مسلم مخالف جماعتیں آزادی سے قبل بھی موجود تھیں۔ یہ جماعتیں نہ صرف مسلم مخالف رہی ہیں بلکہ ان کا ایجنڈا ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا رہا ہے۔ اس ملک کا ہندو بڑی حد تک لبرل مزاج ہوا کرتا تھا۔ سنگھ اور بی جے پی کو اس کو کٹر ہندو بنانے کے لیے کوئی حربہ درکار تھا۔ اس کو وہ حربہ مسلم دشمنی میں ہی مل سکتا تھا۔
لیکن اکثریت کے دل میں اقلیت کا خوف اور دشمنی پیدا کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ جب جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے کٹر مسلم پلیٹ فارم نعرۂ تکبیر کی صداؤں میں کسی خالص مسلم ایشو پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرتے ہیں تو سنگھ اور بی جے پی جیسی تنظیموں کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ بس وہ ہندو اکثریت کو ’دوسرے پاکستان‘ جیسے خطرہ سے ڈرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جب نعرۂ تکبیر لگے گا تو ’جے سیا رام‘ کا نعرہ بھی لگے گا۔
یہ ممکن ہے کہ پہلے نعرۂ تکبیر کی صدا بلند ہو لیکن آہستہ آہستہ جے سیا رام کی گونج چھا جائے گی اور سنہ 1990 کی دہائی سے لے کر اب تک یہی ہوتا رہا اور مسلم قوم قدامت پسند قائدین کی قیادت میں جذباتی جدوجہد کا شکار ہوئی۔اس نے ہندو رد عمل کو تقویت دی جس نے سنگھ اور بی جے پی جیسی فرقہ پرست طاقتوں کو نہ صرف ملک کا اقتدار سونپ دیا بلکہ آج پورے ہندوستان میں سماجی سطح پر فرقہ پرستی کا جو زہر گھول دیا اس کا تصور پہلے کبھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ لبرل ہندو بھی مسلم منافرت کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور اب ملک کی وہ سیکولر پارٹیاں جو کبھی مسلمانوں کا دَم بھرتی تھیں وہ سبھی اب طلاق ثلاثہ جیسے معاملے پر مسلمانوں سے کنّی کاٹ رہی ہیں۔
ہندوستان کی اس سیاسی و سماجی رد و بدل کا ذمہ دار بہت حد تک روایتی اور قدامت پسند مسلم قیادت بھی ہے۔ جناح صاحب کے وقت سے اب تک مسلم مسائل کا حل جذبات اور مذہب کے نام پر تلاش کیا گیا۔ اگر آزادی کے بعد مسلم اقلیت کو اپنے حقوق کے تحفظ کا خطرہ محسوس ہوا تو اس کا حل مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں پاکستان کی شکل میں ایک الگ ’مسلم ریاست‘ میں تلاش کیا۔
اگر اس ملک کا مسلمان ایک مسلم ریاست بنا سکتا ہے تو کیا ہندو کے دل میں ہندو راشٹر کا خیال نہیں پیدا ہو سکتا ہے!۔ جواہر لال نے وہ ہندو ریاست سنہ 1947 میں بننے سے تو روک دی لیکن سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد اور شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بابری مسجد ایکشن کمیٹی مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی تنظیموں نے جس طرز کی خالص مسلم تحریکیں چلائیں اس کے بعد سنگھ اور بی جے پی کا ہندو راشٹر کا راستہ آسان ہوتا چلا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی خود کو کم از کم ’مسلم نیوٹرل‘ دکھانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ہندوستان بدل گیا۔ بابری مسجد گئی، مسلم پرسنل لاء کم از کم طلاق کے معاملے میں گیا۔ لیکن نام نہاد مٹھی بھر قدامت پسند مسلم قیادت اور مسلم تنظیمیں آج بھی برقرار ہیں۔ اگر ہندوستانی مسلم اقلیت نے ایسی قیادت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑایا تو ہندوستانی مسلمان کا حال تو تباہ ہے ہی اس کا مستقبل یعنی اس کی آنے والی نسلیں بھی پسماندگی کے اندھیرے غار میںہی دَم توڑتی رہیں گی۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا
One Comment