تنگ آمد بہ ننگ آمد

طارق احمدمرزا

گزشتہ دنوں ’’نیا زمانہ‘‘نے بی بی سی کے حوالے سے بھارتی ملکہ کے عریاں شوکے بارہ میں جو معلوماتی فیچر شائع کیا اس میں ایک فقرہ یہ لکھا ہوا تھا کہ’’ملکہ کہتی ہیں:ہجوم کو منتشرکرنے کے لئے کیا چاہیئ؟ صرف ایک مخالف شخص‘‘۔معلوم نہیں کہ فیصل آباد کے ایک رہائشی نے یہ فیچر اور اس کا یہ فقرہ پڑھا تھا یا نہیں لیکن اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ عریاں شوکرنے والی ملکہ کایہ جملہ سوفیصد درست ہے۔خاص طور پر اگر یہ’’مخالف شخص‘‘مرد ہو کیونکہ ’’مخالف عورت ‘‘تو عموماً ہجوم کو منتشر نہیں بلکہ اکٹھا کرلیا کرتی ہے۔

آمدم برسرمطلب، خبر یہ ہے کہ فیصل آباد کے ایک چوک میں کچھ مظاہرین سڑکیں بلاک کرکے احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔کیا پیدل،کیارکشے کیا موٹرسائیکل اور کیا گاڑیوں والے،سبھی خود کو بے بس اور لاچار پاکراندر ہی اندر سیخ پا ہو رہے تھے لیکن کسی میں اتنی مجال نہ تھی کہ اس ہجوم کو منتشر کرسکیں۔پھر کیا ہوا کہ ایک گاڑی میں سے ایک شخص اترا اور سڑک کے عین درمیان ’’عریاں شو‘‘ شروع کردیا۔قمیض اتاری،پھر شلواربھی،اور پھر احتجاج کے خلاف احتجاج کرتا یہ برہنہ(اور نہتا)شخص جب ہجوم کی سمت لپکا تو ہجوم کے پاس منتشر ہوجانے کے سوااور کوئی چارہ نہ تھا،آن ہی آن میں سڑکیں ایک دم صاف ہوگئیں اور ٹریفک پھر سے رواں دواں ہوگئی !۔

https://en.dailypakistan.com.pk/pakistan/naked-man-from-faislabad-teaches-pakistanis-how-to-stop-protests-with-this-one-weird-trick/

اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا چڑھے۔ لاٹھی چارج کی نوبت آئی نہ آنسو گیس چھوڑی گئی، گرفتاری ہوئی نہ گولی چلی اور نہ لاشوں پہ سیاست چمکانے کا موقع کسی طالع آزما کے ہاتھ لگا۔خبر کے نیچے کسی نے برجستہ تبصرہ کرتے ہوئے بجا طورپر لکھا کہ پاکستانی پولیس کو چاہئے کہ اس قسم کے دو چاراشخاص کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لے کیونکہ ہجوم کو منتشرکرنے کا یہ آسان ترین طریقہ ثابت ہوا ہے۔

ویسے یہ تجویز اس لحاظ سے بری نہیں کہ اب ملک عزیز میں دھرنے دینے والے،احتجاج کرنے والے،مظاہرے کرنے والے جو کبھی سرعام ننگا جھوٹ بولا کرتے تھے ا ب سرعام بلکہ لائیومیڈیا پرننگی گالیاں بھی دینے پر اترآئے ہیں تو جواب میں اگر ایک یا دواشخاص ننگی گالیاں دینے والوں کے سامنے ننگا ہوجایاکریں تو ننگوں کے اس ہجوم کوہربار بلا تشددمنتشرکرواناآسان ہوجائے گا۔جب پاکستانی معاشرہ کے اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں،پھر شرمانا کیسا۔

خودنام نہاد(جعلی)مولوی صاحبان کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ مبینہ طورپر ان میں سے بعض جب کسی مخالف مکتبہ فکر والوں کے جلسہ یاجلوس کا سامنا کرنے سے دوچار ہوتے ہیں تواپنی قمیضوں کے دامن اٹھا کر،بلکہ بسا اوقات شلواریں اتار کر مخالفین کو لہرالہراکرچیلینج دیتے ہیں کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔لیکن ان کی اس قسم کی حرکات برہنگی اور احتجاج کے دائرہ سے نکل کر فحاشی اوربدمعاشی کے دائرہ میں داخل ہو چکی ہوتی ہیں۔

فیصل آباد کی مذکورہ خبر پر ایک تبصرہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ سرعام ننگا ہونے والے اس شخص کو گرفتارکیا جائے کیونکہ وہاں نابالغ بھی موجود تھے۔گویا اگر نابالغ موجود نہ ہوں تو پھر ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔مولوی حضرات کا کہنا ہے کہ ننگی گالیوں کی کوئی شرعی سزا نہیں اسی لئے ہم ماں بہن کی گالیاں دے سکتے ہیں اوردیتے ہیں اور اگرمبینہ طور پرجعلی مولویوں کے ننگا ہوکر فحش حرکات کرنے کی بھی کوئی سزا نہیں (کیونکہ آج تک کسی کو نہیں ملی،حالانکہ وہاں بھی نابالغ تو موجود ہوتے ہی ہیں ) تو فیصل آباد کے اس ہمدرد اور نیک شخص کو آخر کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیاجائے ؟۔

اگر گرفتارکرنا ہی ہے تو پہلے ملک کے کونے کونے میں موجود’’ سائیں شاہ جی عرف نانگاپیر‘‘ یا سرکا رملنگ باباالمعروف ننگے شاہ‘ ‘ٹائپ کے دماغی مریضوں کو پاگل خانوں میں داخل کروانے کی غرض سے گرفتار کروائیں۔ان ننگ دھڑنگ پیروں فقیروں کا ذہنی اور جسمانی ننگ تواکثر پاکستانی مردوں کو ہی نہیں ضعیف الاعتقادعورتوں کو بھی نظر نہیں آتا۔

پیروں فقیروں کو چھوڑیئے ہمارے ہاں تو کسی میں یہ جرأت بھی ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ بلندآواز سے کہہ سکے کہ’’ بادشاہ ننگاہے‘‘ کیونکہ اس کے حواری درباری اور اسٹبلشمنٹ نہ صرف یہ کہ سختی سے اس کی تردید کریں گے بلکہ الٹا کہیں گے کہ نہیں بادشاہ سلامت نے تو نہایت عمدہ اور نفیس لباس زیب تن فرمایاہواہے۔ (مشہورکہانی ہے ،اشارہ ہی کافی ہے)۔

میرے مطابق فیصل آباد کے اس نہتے اور برہنہ احتجاجی نے ،جو کہ احتجاج کے طریقہ کار کے خلاف احتجاج کر رہا تھا، ننگا ہوکرپاکستان کی اس سول سوسائٹی کو بھی ایک پیغام دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جوہزار پردوں میں چھپ کرد بک کربیٹھی رہتی ہے ۔

عموماً تو یہی مشہورہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد ،لیکن اگر’’ بجنگ آمد‘‘ کی سکت ،ہمت اوراستطاعت نہ ہو تو ’’بہ ننگ آمد ‘‘ کی گنجائش ہی باقی رہ جاتی ہے۔دنیا کے کئی مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ فرانس تو اس معاملہ میں بہت ہی آگے ہے۔کبھی کسی کتاب پہ پابندی لگائے جانے کے خلاف رائٹرز،پبلشرز وغیرہ ننگے ہوکر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے تو کبھی تنخواہوں میں کٹوتی کے خلاف ملازمین ’’انسانیت کا ننگا مینار‘‘ بناکراپنا مؤقف واضح کرتے نظرآئیں گے۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی حال ہی میں ایک ننگا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔اسی طرح سے جو لوگ برطانیہ میں بادشاہت کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ بھی وقتاً فوقتاً برطانوی شاہی خاندان کے سامنے اچانک برہنہ نمودار ہوکراپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہتے ہیں جنہیں پولیس موقع پرہی وارننگ دے کر چھوڑ بھی دیتی ہے۔

آخرلوگ تنگ آکر ننگے احتجاج پہ کیوں اتر آتے ہیں۔نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے انگریزی اخبار دی گارڈین کا ایک مضمون نگار کہتا ہے کہ یہ لوگ بالارادہ برہنہ ہوکر یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ بالکل بے بس اور عاجزہوچکے ہیں۔یہ لوگ ظاہری طورپراپنا جسم نہیں بلکہ اپنی برہنگی دکھا رہے ہوتے ہیں یعنی بزبان حال یہ پیغام دیتے ہیں کہ فلاں فلاں اقدام نے ہمیں برہنہ کرکے رکھ دیاہے۔

مضمون نگار کے نزدیک برہنہ احتجاج کا ایک اور مقصد یہ بتا ناہوتا ہے کہ بحیثیت انسان سب ایک جیسے ہیں اور سب کے حقوق بھی یکساں ہیں لہٰذہ کسی انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی ہی طرح کے گوشت پوست کے بنے دوسرے انسانوں کا کسی بھی طریقے سے استحصال کرے یا ان کی آزادی میں مخل ہو۔اس لحاظ سے ان کی یہ برہنگی ان کے پیغام کو ایک طاقتور پیغام بنادیتی ہے۔
https://www.theguardian.com/fashion/costume-and-culture/2014/jan/15/naked-protest-revolutionary-body

معلوم نہیں کہ فیصل آباد کے اس برہنہ احتجاجی شخص نے بھارت کی ملکہ کے عریاں شو کی بی بی سی(اور پھر نیا زمانہ) میں لگی خبر کے علاوہ ننگے احتجاج کی تاثیراور افادیت کے بارہ میں گارڈین اخبار کے مذکورہ بالامضمون کو بھی پڑھا تھا یا نہیں لیکن اس ’’ایک شخص‘‘نے اتنے بڑے مشتعل ہجوم کو منتشر ہوجانے پر مجبورضرورکردیا!۔

One Comment