علی احمد جان
مائی مصرو سے میری ملاقات اچانک ہوئی تھی ۔ فیصل مسجد کے پیچھے پگڈنڈ ی پر لکھا ہو ا ہے کہ یہ راستہ گاؤں جبی کو جاتا ہے ۔ جب میں کوہ نوردی کے دوران تجسس کے ہاتھوں مجبور جبی گاؤں میں باڑ پھلانگ کر داخل ہوا تو سامنے وہ کھڑی تھی۔ ہاتھ میں ایک گنڈاسا اٹھائے چھ فٹ کے لگ بھگ قد کی اس عورت کو میرا ایسا باڑ پھلانگنا قطعی اچھا نہیں لگا تھا اور اس وقت مجھے بھی گاؤں میں داخل ہونے کے لئے دوسرا کوئی راستہ سجائی نہیں دے رہا تھا ۔
اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ یہاں سے راستہ نہیں ہے جوابا ً میں نےعرض کیا کہ مجھے معلوم ہے لیکن گاؤں ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں۔وہ بخوشی میرے آگے آگے چلنے لگی ۔ یہاں کھیتوں میں کچھ بھینسیں ، گائے اور بیل میں کھلے گھومتے پھرتے نظر آئے جو بہت ہی صحت مند لگ رہے تھے۔ میرے استفسار پر اس عورت نے اپنا نام مصرو بتایا ۔
ہم ایک ڈھلوان پر کچھ کمروں کے سامنے ایک کھلی جگہ پر پہنچے تو اس نے کہا یہی گاؤں ہے۔ یہاں برگد کے درخت پر مچان سی بنی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک دو نالی بندوق بھی لٹک رہی تھی ۔ مصرو نے بتایا کہ وہ گرمیوں میں اس مچان پر سوتی ہیں اور بندوق اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر رکھی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنی اور اپنے مویشیوں کی شہری اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کر سکے۔
ایک کمرے میں گھاس کاٹنے والی مشین بھی رکھی ہوئی تھی ، ایک سٹور کے علاوہ باقی کمرے رہائشی تھے۔ ۔مصرو نے کہا کہ لڑکے پانی لینے گئے ہیں جب وہ آئیں گے تو چائے مل سکتی ہے۔ میں نے گاؤں ، جنگلی جانور اور پودوں کے علاوہ دیگر کئی باتیں بھی پوچھیں جو اس نے بخوشی بتادیں۔ مصرو نے یہاں ایک درخت دکھایا جس کے اوپر مختلف انواع کے دو اور پودے بھی پیوند کے بغیراپنے ہی بیچ سےاگے تھے جو ایک ہی تنے سے اپنی جڑوں کے ذریعے خوراک لیتے تھے۔
اس دوران کچھ لڑکے گدھوں پر لٹکتے کنستروں میں پانی لے آئے جو کافی دور نیچےکھائی میں ایک چشمے سے لانا ہوتا تھا۔ اس نےتحکمانہ انداز میں لڑکوں کو جلدی چائے بنانے کا کہا اور کچھ اور ہدایات بھی دی جو ان کے روزمرہ کے معمول سے متعلق تھیں۔ میں نے خالص دیسی دودھ والی چائے پر لسی کو ترجیح دی تو اس نے مگر لسی کے بعد بھی مجھے چائے پئے بغیر جانے نہیں دیا۔
میں گاہے بگاہے یہاں سے گزرتا تو اس سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن اس نے کہا کہ اللہ نے اس کی سن لی ہے کیونکہ اب وہ حج پر جارہی تھی۔ اس کے حج پر جانے کی کہانی بھی ایک بہت دلچسپ واقعہ سے جڑی ہوئی ہے۔ مصرو کا اسلام آباد کی سپر مارکیٹ سے سود ا سلف پیٹ پر اٹھائے پیدل جبی گاؤں لےآنا ایک معمول تھا۔ ایک دن وہ سامان اٹھائے پیدل گاؤں کے طرف جارہی تھی تو اس دوران ایک صاحب بھی اپنی گاڑی میں اپنے بچوں کے ساتھ مارگلہ کے اوپر نئے بنے ریستوران کی طرف جارہے تھے ۔
مصرو کو پہاڑ ی پیدل راستہ خوب معلوم تھا جس سے گزر کو جب وہ گاڑی سے پہلے ہر موڑ پر آگے جاتے دکھائی دی تو گاڑی والے سے رہا نہ گیا تو اس نے مصرو کو روک کر پوچھا کہ جس عمودی چڑھائی پر گاڑی کا چڑھنا مشکل ہوتا ہے اس پر وہ اتنا سامان اٹھائےگاڑی سے پہلے کیونکر پہنچتی ہے۔ مصرو نے بتایا کہ یہ اس کا کئی سالوں سے معمول ہے اور اس کے لئے یہ راستہ مشکل نہیں۔
ان صاحب نے ان کے گاؤں کو پتہ معلوم کیا اور ان سے ملتے رہے۔ مصرو کی اس خواہش پر کہ وہ مرنے سے پہلے حج پر جانا چاہتی ہے ان صاحب نے مصرو کے حج کا بندوبست کیا تو وہ بہت خوش تھی۔
پچھلے سال میں میں اپنی کسی طبی پیچیدگی کی بنا پر باقاعدگی سے پہاڑ وں پر نہ جاسکا اور ان سے حج سے واپسی پر ملاقات نہ ہو سکی۔ اس سال جب میں جبی گاؤں پہنچا تو سارے مکان گرادئے گئے تھے اور گھروں کو آگ لگادی گئی تھی۔ بغیر چھت کے کھنڈرات میں کوئلہ اور راکھ کا ڈھیر تھا۔ درخت پر مچان تو نہیں تھا مگر سالوں تک درخت کے ساتھ جڑی مچان کی ایک سوکھی لکڑی اب اس کا حصہ بن چکی تھی۔ یہاں بیٹھے ہوئے دو لڑکوں نے بتایا کہ حج کرنے کے بعد ہی مصرو کا انتقال ہوگیا۔
مصرو کے مرنے کے بعد اس کے گھر کو کو گرا کر آگ لگادی گئی ۔ وفاقی دارلحکومت کے تر قیاتی ادارے کے ساتھ اشتراک سے نیشنل پارک دیکھ بھال کرنے والی غیر سرکاری تنظیم اور ایک کاروباری کنسلٹنگ فرم کا خیال ہے کہ مصرو نے جبی گاؤں میں گائے بیل اور بھینسیں رکھ کر نیشنل پارک کے حدود اور قوانین کی خلاف ورزی کی تھی لہذا پارک کو بچانے کے لئے اس گاؤں کومٹانا ضروری تھا۔
سرکار کی مرضی و منشا سے مارگلہ نیشنل پارک میں ریستوران کھول کر اس کی نکاسی سے پہاڑوں کے چشمے زہر الود کرنے والوں کے خلاف کبھی کسی نے زبان نہیں کھولی اور نہ ہی کوئی کاروائی ہوئی۔ مرگلہ نیشنل پارک میں غیر قانونی قبضے اور تعمیرات پر اعلیٰ عدالتوں کے بار بار پوچھنے پر بھی کسی قسم کی صفائی دینے سے قاصر بین الاقوامی ساہو کاروں کی گماشتہ غیر سرکاری تنظیمیں اور مشیر صرف کئی صدیوں سے آباد جبی گاؤں کو ہی خلاف قانون سمجھتے ہیں جبکہ یہاں چاروں طرف سےاس پارک پر کی جانے والی یلغار بوجوہ نظر نہیں آتی۔
اسی نیشنل پارک کے حدود میں ہی جبی گاؤں سے چند کلومیٹر آگے شاہ اللہ دتہ کے گاؤں میں پہاڑ کاٹ کر قدیم معلق باغات کی طرز کے محلات تعمیر کئے جارہے ہیں جو ملک کے بڑے قامت کی کاروباری ، افسر شاہی سے تعلق رکھنے والی اور سیاسی و مذہبی شخصیات کی ملکیت بتائی جاتی ہے مگر مجال ہے کہ کسی نے انگلی بھی اٹھائی ہو۔
شہر کی طرف سےنیشنل پارک کے حدود میں ملک بھر کے امراء اور صاحب حیثیت لوگ مرگلہ میں نئی بستیاں آباد کررہے ہیں تو پہاڑ کے دوسری طرف کی زمین بھی اونے پونے داموں خرید کر امراء کے لئے مسکن بنا کر بیچنے کی تیاری ہے جس کے لئے آمد و رفت نیشنل پارک میں سے ہی ہونی ہے۔نیشنل پارک کے ضوابط میں تو یہاں تیز روشنی اور گاڑیوں کی اس قدر زیادہ تعداد میں آمد و رفت کی بھی پابندی ہے مگر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو ایسی پابندیاں صرف استور اور سکردو کے درمیان دیو سائی نیشنل پارک میں ہی جائز لگتی ہیں جو مارگلہ میں ایسی کسی قد غن کے خلاف وہ سو تاویلیں لے آتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماحولیات ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے مگر اس کی ذمہ دار ہمارے ہاں صنعتوں کا میعار ، بطور شہری ہمارا طرز عمل اور سرکاری پالیسیوں کا سقم ہے۔ غریبوں کا درخت کاٹ کر اپنے بچوں کو سردی سے محفوظ رکھنے پر اعتراض کرنے والے اپنے بچوں کو بغیر ائیر کنڈیشنڈ کے رکھنا نہیں چاہتے حالانکہ ماحولیات کے لئے اس سے خارج ہونے والی گیس لکڑی کے دھوئیں سے زیادہ مضرہے۔
دودھ میں کیمیکل ملاکر کر بیچنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خیرات پر چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو مصرو کے گائے اور بھینسوں پر اعتراض ہے حالانکہ وہ قدرتی ماحول کا حصہ ہیں۔ کئی صدیوں سے آباد ہ اس گاؤں کے لئے ایک پگڈنڈی بھی الگ سے بنی ہوئی ہے جس کا مارگلہ نیشنل پارک کا انتظام چلانے والے قصداً کہیں ذکر بھی نہیں کرتے کہ مبادا گاؤں کا پارک سے پہلے یہاں موجود ہونا ثابت نہ ہو۔
فیصل مسجد کے ساتھ پانی کی ٹنکی کے ساتھ جبی گاؤں جانے والا خوبصورت راستہ مارگلہ نیشنل پارک کے نقشے سے غائب کرنے والوں نے اب اس گاؤں کو ہی غائب کردیا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نیشنل پارک کو بچانے کے لئے مائی مصرو کا گھر جلا دینا بہت ضروری تھا۔
♦