علی احمد جان
یہ نہیں معلوم کہ اسلام آباد بسانے والے ایوب خان نے سرکاری ملازمین ، اشرافیہ اور ان کے خدمت گزاروں کے علاوہ بھی لوگوں کو یہاں کیوں بسایا تھا مگراس شہر میں بسنے والوں نے وقت کے ساتھ یہاں رہنے کا ڈھنگ کچھ ایسا اپنا یا ہے کہ اب اس شہر کا رنگ ہی الگ نظر آتا ہے ۔
غالباً پاکستان میں جنرل ضیاء الحق پہلا حکمران تھا جس کو سادگی کا شوق پیدا ہوا تو اس نے سایئکل پر دفتر جانے کی ٹھانی۔ہر صبح سویرےراوالپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مری روڑ کو عام ٹریفک کے بند کر دیا جاتاتھااور جناب صدر کی سایئکل کا انتظار ہوتا تھا۔ صدرصاحب سڑک کے کنارے کھڑے تماشائیوں کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے سائیکل پر گزرتے اور اگلے روز اخبارات میں ان کی سائیکل والی تصویر خصوصی طور پرچھپتی تھی ۔
ان کی اس سادگی کوسرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ اخبارات کے کالموں اور اداریوں میں قرون وسطیٰ کے امراء المومنین سے ملاکر ن کو القابات اور خطابات سے نوازنے میں کنجوسی بالکل نہیں کی جاتی تھی ۔
صدر صاحب کی آمد و رفت کے دوران لوگوں کو بھی اپنی دکانوں کے باہر سڑک پر اپنے محبوب صدر کی آمد کا انتظار کرنے کو کہا جاتا تھا۔ اس دوران بسوں رکشوں، گاڑیوں اور دیگر سائیکل والوں کو بھی جگہ جگہ روک کر اس سہراب سائیکل کی ایک جھلک دکھانے کا بھر پور انتظام کیا جاتا تھا جس پر امت مسلمہ کے ایک عظیم سپہ سالار نے گزرنا ہوتا تھا۔
مگر بدخواہوں نے جنرل ضیا ء الحق کے کان بھر ے کہ اگر اس نے سادگی کو ترک نہیں کیا تو پھر دفتروں اور سکولوں کے اوقات میں تبدیلی ناگزیر ہو جائیگی، یوں ایک دیدہ ور کی دید سے خلق خدا محروم ہوگئی۔ جنرل ضیاء کے اولین دنوں میں ابھی کلاشنکوف اور بم درآمد نہیں ہوئے تھے خطرہ صرف پستول یا خنجر کی حد تک تھا۔ البتہ جاتے جاتے امیر المومنین نے ہتھیار وں کی دستیابی کو ارزاں کرکے جہاد کو آسان بنا دیا جس کی وجہ سائیکل پر دفتر جانے کی سادگی کے ثواب سے اس کے بعد آنے والے محروم رہے اور عوام ا لناس ان کی دید سے۔
اس کے بعد ایک اور سپہ سالار پرویز مشرف نے ملک کا باختیار صدر بننے کے لئے آئین نام کے کاغذ کے پرخچے اڑا کر صدر بن جانے کے بعد ایوان صدر میں رہنے کی عیاشی سےانکار کر کے ایک اور مثال قائم کی۔ ان کو مگر اپنی خاص مصروفیات کے لئے اسلام آباد آنا ہوتا تھا جس کے اوقات بھی مقرر نہیں تھے۔
جناب صدر کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان آتے جاتے لوگ خود بخود ہی سگنل پر کھڑے ہوکر کسی کے باپ سے بھی نہ ڈرنے والے اپنے دبنگ صدر کا انتظار کیا کرتے تھے ۔ جب صدر کی گاڑیوں کا جلوس نمودار ہوجاتا تھا تو اس میں چھ ایک ہی رنگ اور ساخت کی گاڑیاں قطار میں گزر جاتی تھیں،مگر مشکل یہ تھی کہ کسی معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ صاحب کس گاڑی میں جلوہ افروز ہے۔ اس جستجو میں دوسرے دن پھر یہی منظر دھرایا جاتا تھا۔
جب سے خاقان عباسی صاحب وزیر اعظم بن گئے ہیں خاندان عباسیہ کے اس سپوت نے بھی وزیر اعظم ہاوس میں رہنے سے گریز کیا ہے۔ بد خواہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ نواز شریف کی عدالت کے ہاتھوں رسوائی کے بعد اس عہدے کے استقلال پر یقین کا فقدان ہے اور وہ خود بھی سادگی اور انکساری سے یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظمی کی کچی نوکری کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب ایک دھرنا ہو اور وہ مستعفی ہوں ۔ مگر جب تک وہ کرسی پر براجمان ہیں اسلام آباد کے شہری نو بجے سے پانچ بجے تک باقاعدگی سے ڈیوٹی سر انجام دینے کی شہرت رکھنے والے اپنے وزیر اعظم کی ایک جھلک دیکھنے کےلئے مارگلہ روڑ پر صبح و شام لگے روٹ کر دوران کھڑے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں تفریح کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ شکر پڑیاں کا سالانہ لوک میلہ اور کبھی کبھار فاطمہ جناح پارک میں لگنے والے میلے یہاں کے باسیوں کی طبع تفریح کے لئے ناکافی ہوتے ہیں۔ اب یہ مسئلہ بھی یہاں پر سیاسی جماعتوں کے مہینوں چلنے والے دھرنوں نے حل کردیا ہے۔ اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے شہروں والے لیاری کے بلوچوں کے دلاں تیر بجاں پر لہک لہک کر ناچنے کو بڑی یاس و حسرت سے دیکھتے تھے۔ اب اسلام آباد والوں کے پاس بھی کمی نہیں ہے ، وہ بھی اب آئے گا عمران خان پر ایسا لہکتے ہیں کہ لیاری والے بھی انگشت بدندان ہیں ۔
اسلام آباد میں پلنے والے بچے عموماً ملک کے بڑے شہروں اور چھوٹے دیہاتوں میں پائی جانے والی خوش الحانی اور خوش کلامی سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ۔ اب یہاں سیاسی جلسوں اور دھرنوں میں باقاعدہ اس کی بھی تربیت کا نہ صرف اہتمام ہے بلکہ ہر خاص و عام کو آپس میں مشق کے مواقع بھی میسرہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں اب جدید قسم کے تبریٰ کی فیکٹریاں لگی ہوئی جہاں سے نوجوان نسل فیس بک اور ٹویٹر پر اس کی نشرو اشاعت بھی کرتی رہتی ہے۔
اس شہر اقتدار میں مذہبی اجتماعات کی بھی بڑی کمی تھی جس کو اب نئی نویلی سیاسی و مذہبی قیادت نے دور کردیا ہے۔ ان اجتماعات کی خوبی یہ ہے کہ یہاں صلواتیں پڑھوانے کے ساتھ سنانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ گالی تہذیب کی نشانی ہے اس لئے کراچی، نیو یارک، ممبئی اور ان جیسے بڑے شہروں میں بڑی گالیاں دی جاتی ہیں۔ اسلام آباد بھی اب بڑے شہروں میں شامل ایک تہذیب یافتہ شہر بن چکا ہے یہاں اب اگر کوئی گالی دے تو جواب میں گالی کے بجائے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں اس الزام کو بھی غلط ثابت کیا گیاہے کہ اسلام آباد کے لوگ مہمان نواز نہیں ہوتے۔ مہمان نوازی کی ایسی مثال بھلا کس شہر میں ملتی ہے کہ مہینوں دھرنا دینے والے دن میں دو کے بجائے چار چار دفعہ کھانے وہ بھی قورمہ اور چکن بریانی کھاتے رہے ہوں ۔
یہ کہنا اہلیان اسلام آباد کی کشادہ دلی کے خلاف پروپیگنڈہ ہے کہ دھرنے والوں کا کھاناکسی بحریہ ٹاون یا ڈیفنس وغیرہ سے آیا کرتاتھا ۔ آپ دھرنا دینے والوں سے خود پوچھیں کہ ان کو کھانا کون دیتا رہا ہے ، وہ خود اس بات کی گواہی دیں گے کہ اسلام آباد کے لوگ سینکڑوں کے حساب سے باری باری ان کو روازانہ کھانا پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اسلام آباد کے لوگ ایک ہاتھ سے نیکی کرتے ہیں تو دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلتا اس لئے یہاں رہنے والے خود بھی ایسی نیکیوں سے عموماً بے خبررہتے ہیں۔
اسلام آباد کے رہنے والے ووٹ دینے سے سے زیادہ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں ووٹ دیں وہ آتا اسلام آباد میں ہی ہے ۔ یہاں تو یہ بھی فرق نہیں پڑتا کہ ملتان کا ہاشمی ان کا نمائندہ ہے یا کہیں اور کا اسد عمر ۔ ضیا ء الحق کی سائیکل ہو مشرف کی موٹر کیڈ یا پھر عباسی کی قناعت پسندی ، شہر اقتدار کے باسیوں کو سڑکوں کے کنارے کھڑے ہونا یا کسی سگنل پر رک کر حکمرانوں کے قافلوں کا انتظار کرنا ہی اچھا لگتا ہے۔ان کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے بچوں کا سکول بند ہے یا ہسپتال کو جانے والے راستے میں دھرنا ہے، ان کو ٹیلی ویژن پرگالیاں سن کر تبصرے کرنا ہی اچھگا لگتا ہے۔
اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو دیکھ لینا۔آیندہ آنے والے پانچ سالوں میں بھی سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر یا کسی ٹریفک سگنل پر نئے حکمرانوں کے لئے لگے روٹ کے دوران انتظار کرنے کے علاوہ اسلام آباد والے دھرنوں میں ناچتے ہی رہیں گے اور دھرنے والوں کو کھانے کھلاتے رہیں گے کیونکہ یہی اس شہر کا اسلوب بن چکا ہے۔
♦