بیرسٹر حمید باشانی
آج سے بارہ تیرہ سال پہلے جب سوشل میڈیا کا آغاز ہوا تو ہمارے کچھ احباب کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ یہ احباب زیادہ تر مرکزی دھارے کے میڈیا سے شاکی تھے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ مرکزی دھارے کے میڈیا کے مسائل اتنے ہیں کہ یہ کسی صورت آزادی رائے کے تقاضے نہیں پورا کر سکتا۔ مرکزی دھارے کے میڈیا کا پیشتر حصہ اپنی حکومتوں یا ہےئت مقتدرہ کے زیر اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ان سے کچھ کہلائے بنا خود ہی اپنے اپ کو اس دائرے کے اندر رکھتے ہیں، جس میں یہ قوتیں انہیں دیکھنے کی خواہشمند ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ اس لکیر کو کبھی نہیں پار کرتے جسے پار کیے بغیر اظہار کی آزادی کے حقیقی تقاضوں سے عہدہ برا نہیں ہوا جا سکتا۔
مرکزی دھارے کے میڈیاکا دوسرا مسئلہ سنسنی خیز خبریں ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ایسی خبروں یا تحریروں کو نظر انداز کرتے ہیں جو انکی مقبولیت کے گراف میں اضافہ نہ کر رہی ہوں، چاہے وہ کتنی اہم کیوں نہ ہوں۔ چنانچہ جب سن 2004 اور 2005میں یو ٹیوب اور پھر فیس بک یک بعد دیگرے سامنے آئے تو یہ کافی لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر تھی۔ میں ان کی خوشی اور پر امیدی میں برابر کا شریک تھا۔ حالانکہ میں اس حوالے سے تھوڑے سے شک میں مبتلا تھا۔ یہ کوئی قنوطیت پسندی نہیں تھی۔ میری یہ لگی بندھی رائے تھی کہ سوشل میڈیا سے روائیتی قوتیں زیادہ فائدہ اٹھائیں گی۔ اور بلاخر سوشل میڈیا بھی ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار بن جائے گا جن کے پاس اس کو استعمال کرنے کے وسائل اور وقت موجود ہے۔
اس باب میں میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آج اگر سوشل میڈیا کی تاریخ اور ان بارہ تیرہ سالوں کے دوران اس کے استعمال کا جائزہ لیا جائے تو نتائج کافی مایوس کن ہیں۔ خصوصا پاکستان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس میڈیا سے دائیں بازوں کی قوتوں نے بھر پور فائدہ اٹھایاہے۔ بنیاد پرستوں اور رجعت پسند قوتوں کے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔
ان لوگوں نے فرسودگی، تنگ نظری اور شدت پسندی کو اس میڈیا کے ذریعے جس پیمانے پر پھیلایا اس کا وہ اس کے بغیر تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج ان کے لاکھوں کی تعداد میں فرقہ وارانہ، فروعی، ا ور فرسودہ خیالات پر مبنی وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ مذہب کی تبلیغ اور مذہب کے مقدس نام کی آڑ میں یہ لوگ فرضی اور جعلی قصے سناتے ہیں۔ جنت میں عیش و عشرت اور جنسی عیاشی کے ایسے رنگین قصے سناتے ہیں جو نوجوان نسل کے زہن پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ مقدس مذہب کے نام پر ہو رہا ہے، اس لیے کوئی ان کو روکنے ٹوکنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف اسی مقدس مذہب کے نام پر ان لوگوں نے اپنے سیاسی، مسلکی اور فکری مخالفین کو خاموش کرنے اور کرانے کا بندو بست کر رکھاہے۔ مذہب پر اجارہ داری کی وجہ سے یہ اپنے کسی بھی مخالف خلاف کسی بہانے کوئی فتوی جاری کر سکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے جہاں لوگ کھل کر بات کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ جو نہیں ڈرتے انہیں نادیدہ قوتوں کے ساتھ مل کر ڈرانے کا با قاعدہ بندو بست کیا گیا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں ، جہاں سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرنے والے لوگوں کو اٹھایا گیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ڈرا دھمکا کر خاموش رہنے کی شرط پر چھوڑ دیا گیا۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو ملک چھوڑ کر چلے گئے لیکن انہوں نے اپنی خاموشی نہیں توڑی۔ باہر کے آزاد اور محفوظ ملکوں کے رہنے کے باوجود انہوں نے بوجوہ اپنی خاموشی کی شرط برقرار رکھی۔
سوشل میڈیا کے توازن کو قدامت پرست اور رجعت پسند قوتوں کے حق میں رکھنے کے لیے پاکستان کی پارلیمان اور حکومتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کردار کا ایک اہم شاہکار سائبر بل ہے۔ اس بل کی کئی مقامی اورعالمی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی حامی تنظیموں نے سخت مخالفت کی۔ اس مخالفت میں مضبوط دلائل کے باوجود اس بل کو عجلت میں پاس کر کہ قانون کی شکل دی گئی۔ یہ قانون آزادی اظہار رائے کی گرن پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہے جس کا واضح نشانہ ملک کی عقلیت پسند، روشن خیال ، لبرل اور ترقی پسند قوتیں ہیں۔ دوسری طرف یہ قانون ارباب اختیار کی طرف سے قدامت پرستوں اور بنیاد پرستوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔
بل پر ایک سرسری نظر سے ہی کئی خامیاں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں۔ غیر جانب دار جیورسٹ اور ماہر قانون کی رائے ہے کہ یہ بل بہت زیادہ جارحانہ ہے۔ اس میں تجویز کردہ سزائیں جرائم کی شدت سے کئی زیادہ ہیں۔ بل کی زبان میں اس کے غلط استعمال کی بہت گنجائش چھوڑی گئی ہے۔ متعلقین کے تحفظات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ بل حق آزادی رائے اور معلومات کی آزادی کو محدود کرتا ہے۔ بل کی زبان مبہم ہے۔ یہ زبان کئی قسم کی تشریحات کی گنجائش مہیا کرتی ہے۔ بل صحافیوں، خبر کے ذرائع اور مخبروں کو غلط نشانہ بنا سکتا ہے۔
بل میں شامل نگرانی کا طریقہ کار 2013کے قانون سے بھی زیادہ سخت ہے۔ بل کے مناسب اطلاق کا طریقہ کار بھی واضح نہیں ہے۔ بل میں سائبر دہشت گردی کی شقیں بھی شامل ہیں ، جو اس بل کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ حکام کو آن لائن مواد کو عدالت کے حکم کے بغیر روکنے اور ضائع کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ بل سائبر جرم، سائبر دہشت گردی اور سائبر لڑائی میں کوئی واضح فرق نہیں کرتا۔ اس بل کو آزادی اظہار رائے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا گیا ، اور کیا جاتا رہے گا۔
ایک طرف یہ یک طرفہ قانون ہیں اور دوسری طرف لوگوں کی پر اسرار گمشدگی جیسے واقعات ہیں جن کی موجودگی میں سوشل میڈیا کو بھی روایتی میڈیا کی طرح قابو کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو بڑی حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
♦