اگر اسّی سال کے جسم کی تاریخ کو تہہ بہ تہہ معلوم کریں تو اس میں کہیں نیچے بچپن کی خوشیاں ، اداسیاں اور جسم پر لگی چوٹوں کے آثار ملیں گے۔ انھی آثار نے خوشیوں کی نیلی اینٹ لگائی، اداسیوں نے کاسنی رنگ کی ٹائلیں جمائیں اور چوٹوں نے دراڑیں ڈال دیں۔
اگر اس بات کو کھول دیں تو معلوم ہو گا کہ آج اسّی سال کی عمر میں ،آنگن میں ایک پھول کھلا دیکھ کر جو خوشی مل رہی ہے در اصل اس خوش ہونے کی توفیق کی نازک رگیں وہیں کہیں بچپن میں ہی ہیں۔ اگر آج دل بغیر کسی وجہ کے اداس رہتاہے تو اس عادت کے سائے بچپن تک لمبے نظر آئیں گے۔ اور اگر آج جسم معمولی سے کام کے لیے آپ کی بات نہیں مانتا تو اس کی وجہ قلت میں پرورش ہو سکتی ہے۔
جس طرح ایک جسم کی انفرادی تاریخ ہو تی ہے اسی طرح جسم کی ایک سماجی تاریخ بھی ہو تی ہے۔ مثال کے طور پر تقسیمِ ہندوستان کے وقت لوگوں کوہجرت کا جو تجربہ ہوا ،وہ اُس نسل کے جسموں میں محفوظ ہو گیا۔ اپنے صدیوں پرانے گھر بار کو ترک کرنے کا دکھ ساری زندگی انھیں خوابوں میں آ آ کر ترساتا رہا۔
واضح رہے کہ آج کے دور میں بہتر زندگی کے امکان تلاش کرنے کے لیے ہجرت کرنا پسندیدہ ہے۔ اپنی زندگیوں کے تحفظ اور امان کے لیے ہجرت کرنے میں جبر تھا۔ اگر چہ اس میں ذہنی آسودگی کے خو ش رنگ علاقے بھی تھے مگر اس دور میں زمین سے جڑے رہنا ہی سب سے بڑا سکھ سمجھا جاتا تھا۔
تاہم ہجرت کرنے والوں نے آدرشوں کے نئے علاقے میں خواہ آسودگی میں زندگی گزاری یا دکھ میں ، دونوں میں ایک پرایاپن تھا۔ یہ علاقہ جاگتے میں پردیس ہی رہا اور خوابوں میں دیس کا بھلیکھا دیتا رہا۔ اس پس منظر نے لوگوں کے رویوں میں تلخی بھر دی اور اس کا اظہار تشدد آمیز رویوں میں ڈھلنے لگا۔ یہی تشدد ان کی اولادوں میں منتقل ہوا۔
تشدد کی ایک کہانی یورپ میں بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئی ۔ اس نے انسانوں سے کیسے زندگی کا سکھ چھین لیا، اسی عنوان پر
بڑی صراحت سے ایک فرانسیسی فلم ’’پین لیس‘‘ میں بات کہی گئی ہے۔ فلم میں دو کہانیاں ایک دوسرے کے متوازی چلتی ہیں جو آخر میں ایک دوسرے میں مدغم ہو کر دونوں کہانیوں کو بامعنی بنا دیتی ہیں۔ایک کہانی ، فلم کاابتدائی اور دوسری کہانی اسی ابتدائی کہانی کا نتیجہ بن جاتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک علاقے میں کچھ بچوں میں پیدائش سے ہی درد محسوس کرنے کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے بازوؤں پر آگ لگا کر دوسروں کو حیران کرتے ہیں۔ وہ کھیل ہی کھیل میں ایک دوسرے کے ناخن اتار دیتے ہیں۔ سوسائٹی اس صورتحال کا علاج یہ کرتی ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں ایک قید خانے میں بند کر دیتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو زخمی نہ کرسکیں۔ اسی قید خانے میں ایک بچہ دوسروں کو ’ زخم اور تکلیف دینے ‘ میں مہارت حاصل کرلیتا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ چونکہ وہ خود درد محسوس کرنے سے قاصر ہے اس لیے وہ کسی دوسرے کا درد بھی محسوس نہیں کر سکتا۔ فلم کی دوسری کہانی میں ایک ماہر سرجن ایک حا دثے کے بعد خون کے کینسر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے کسی اپنے سگے کی ہڈیوں کا گودا درکار ہو تا ہے۔ فلم کے آخر میں معلوم ہو تا ہے کہ دوسروں کو ’ زخم اور تکلیف دینے ‘ کا ماہر بچہ دراصل اسی شخص کا والد ہے۔وہ جس کو اپنے والد سمجھتا رہا وہ اسی قید خانے کا اعلیٰ افسر تھا۔ اس کی پیدائش اسی وقت ہوئی جب اس کی ماں کے ہاں مردہ بچے کی ولادت ہوئی۔ اس وقت بے درد بچہ ایک بے درد بچی کے ساتھ وہیں رہتا تھا اور اس کو مختلف تشدد پسند گروہ دوسروں کو اذیت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ قید خانے کا افسر اس بچے کو اٹھا کر اپنی بیوی کی گود میں رکھ دیتا ہے۔
فلم ایک طرح سے علامتی اور تمیثلی انداز رکھتی ہے ۔ یعنی یہ کہ آج انسانوں کے خون میں کینسر دراصل گزشتہ سالوں کا نتیجہ ہے۔ اس کینسر سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں کیونکہ اس کا چارہ گر بھی اسی تشدد کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ تشدد جو جسم میں تھا اب خون میں ایک لا علاج عفریت کی طرح رواں دواں ہے۔
بیسویں صدی کے ساتویں عشرے سے ، بالخصوص ہمارے ہاں زندگی اور انسانوں کو سمجھنے اور پرکھنے کی جو روایت شروع ہوئی، اس کا ہدف لوگوں کی نجی زندگیوں میں نجی آزادیوں کی گنجائش ختم کرنا تھا۔ اجتماعیت کی آمریت گھروں میں گھس آئی۔ لوگ کی زندگیوں میں بڑی خاموشی کے ساتھ تشدد اور نفرت کی قبولیت بڑھتی گئی۔ لوگوں کی زندگیاں بسر کرنے کے قابل بھی نہیں بچیں۔آج زندگیوں کے خون میں فساد کی جڑیں انھی سالوں پر پھیلی ہے۔ آج تشدد زندگی میں قبولیت حاصل کر چکا ہے اور تشدد کرنا اور تشدد سہنا معمول بن گیا ہے۔
♥
2 Comments