چوہدری اصغر علی بھٹی۔نائیجر مغربی افریقہ
’’میں گوجرانوالہ سے اسلام آباد کے لئے محو سفر تھا کہ وزیر اعظم صاحب کی طرف سے مجھے پیغام دیا گیاکہ آپ اگلے ہفتے نائیجر میں پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات لے کر جا رہے ہیں۔پیغام سنتے ہی میرے ذہن میں جو فوری سوال ابھرا وہ یہ تھا کہ نائیجر ! یہ کون سا ملک ہے ؟ کہاں ہے اور کون سی زبان وہاں بولی جاتی ہے جانے کا راستہ کون ساہے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
مکرم خرم دستگیرصاحب پاکستان کے معتبر وزیر ، نیامی نائیجر کے ایک ہوٹل میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں نائیجر کے حوالے سے اپنے تاثرات سے آگاہ کر رہے تھے ۔وہ تو نہایت سادگی میں اپنی قلبی واردات ہم سے شئیر کر رہے تھے مگر میں حیرت میں ڈوبا سوچ رہا تھا کہ میرے پاکستا ن کا اگر یہ مبلغ علم ہے تو ہم نے چاند پر کیا جا نا ہے اور ترقی کیا خاک کرنا ہے۔ انڈیا اور چائینہ کے لوگ افریقہ کے مشرق مغرب شمال اور جنوب میں دور دراز دیہاتوں تک پھیلے نظر آرہے ہیں۔
بینن کی شوگر انڈسٹری ہو یا گھاناکے ٹیلی فون ،ٹوگو اور برکینا فاسو میں زرعی فارم ہوں یا نائیجر کی امیگریشن کی بائیو میٹرک سہولیات۔ مالی اور نائیجیریا کی روڈ کنسٹرکشن کے کام ہوں یا گنی بساو اور سیرالیون کی میڈیکل سہولیات سب میں چائینہ اور انڈیا ایک لیڈنگ رول کرتے نظر آتے ہیں۔کینیا اور تنزانیہ میں کئی بازاروں میں سے گزرتے ہوئے آپ کو دلی اور امرتسر کا گمان ہوگا ۔چاول سے لے کر ماچس تک آپ کو انڈیا اور بنگلہ دیش کی ملے گی۔
انڈین فلمیں ہاوسا ،یوروبا ،سواحیلی اور زرما زبان میں ترجمہ کے ساتھ آپ کو افریقی سینما ہاوسز میں اور نیشنل ٹی وی پر چلتی نظر آئیں گی۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ افریقہ مستقبل کی بہت بڑی عالمی مارکیٹ بن رہا ہےاوردنیا کے تمام ہوش مند ممالک اس حقیقت سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کر رہے ہیں ۔ فرانس کے بعد اب امریکہ نے بھی صحرائے اعظم کے بیچوں بیچ بہت بڑا علاقہ نائیجرسے حاصل کرکے اپنا بیس کیمپ بنانا شروع کردیاہے اور تو اور جرمنی بھی افریقہ میں خاص دلچسپی لے رہا ہے ۔
جبکہ ہماری پھرتیوں کا یہ حال ہے کہ ۔ نائِیجر میں موجود 1977 سے قائم ایمبیسی کا درجہ کم کرکے ایمبیسیڈر کی پوسٹ ہی ختم کردی ۔ 2005 سے یہاں کوئی ایمبیسیڈر ہی نہیں ۔غانا جیسے بڑے افریقی ملک میں یہاں کبھی محمدراول وریامانی ، مس ایس کے جان اور مشہور مسلم لیگی جناب افتخار علی شیخ صاحب جیسی شخصیات سفیر رہ چکی ہیں ۔ ہم نے اپنی ایمبیسی سرے ہی بند کر دی ہے۔ مکرم افتخار علی شیخ صاحب کی کوششوں سے غانا گورنمنٹ نے پاکستانی تاجروں کے لئے 60فیصد تک ڈیوٹی سے استثنی دینے کا اعلان کیا تھا ۔
جو ملک ہمیں افغانستان کے مسئلہ میں یو این او میں ووٹ دیا کرتا تھا جس کی پاکستان کے ساتھ سنجیدہ دوستی کا یہ عالم تھا کہ پاکستانی سفیرصاحبہ جب اپنا ٹائم مکمل کرکے پاکستان روانہ ہو رہی تھیں اس وقت ملک کے صدر صاحب دورہ پر گئے ہوئے تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ پاکستانی سفیر صاحبہ کل صبح 7 بجے کی فلائٹ سے وطن روانہ ہو رہی ہیں تو دورہ مختصر کرکے عکرہ پہنچے اور صبح 6 بجے اپنی تمام کابینہ کے ساتھ ایک شان دار ناشتے کا بندوبست کیااور پاکستانی سفیر کو روانہ کیا ۔ گھانا اور پاکستان کے درمیان ایک ٹریڈ ایگریمنٹ کا مسودہ 17 سال سے زیر ترتیب تھا جسے ہم نے حتمی شکل دینے کی بجائے پاکستان ایمبیسی ہی اُڑا دی ۔ برکینا فاسو نےقائد اعظم کی فوٹو والی ڈاک ٹکٹ جاری کی تو بینن نے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی بینن کے لئےخدمات پر ڈاکٹر عبد السلام کی فوٹو والی ڈاک ٹکٹ جاری کی۔جبکہ جواب میں ہم ان حکومتوں کو ایک شکریہ کا خط بھی نہیں لکھ سکے۔
کچھ عرصہ پہلے جب خاکسار نے نائیجر میں پاکستان ایمبیسی کے سی ڈی اے صاحب کو بتایا کہ بینن کے کیپیٹل میں ڈاکٹر عبد السلام سائنس یونیورسٹی موجود ہے جو انہوں نے مغربی افریقہ کے اس پس ماندہ ملک کے لوگوں کے لئے تحفہ کے طور پر پیش کی تھی جس کے لئے انہوں نے خود بینن کا دورہ کیا، اپنی جیب سے زمین کی خریداری کی اور پھر یونیورسٹی کا آغاز کیا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔آج بینن کی اقوام پاکستان اور اس عظیم پاکستانی سے محبت کا اظہار کرتے نہیں تھکتیں لیکن جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ۔اگر کوئی بے خبر ہے تو وہ ہماری وزارت خارجہ۔
ہماری برآمدات 25 بلین ڈالر سے کم ہو کر 20بلین ڈالر کیوں نہ ہوں جب ہم مسلسل برآمدی منڈیوں کی طرف سے آنکھیں بند کئے جا رہے ہیں ۔جناب افتخار علی شیخ صاحب نے اپنے دور میں افریقہ میں پاکستانی تجارت کو بڑھانے کے لئے کافی سنجیدہ کوششیں کیں اور اس حوالے سے اپنی یادداشتوں میں ایک بڑی دلچسپ بات کا ذکر کیا ہے لکھتے ہیں
میں مغربی افریقہ کے ممالک سے تجارت کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو بڑی مایوس کن باتیں سامنے آئیں میں نے اس کا ذکر مشن کے کونسلر سے کیا تو وہ بے ساختہ ہنس دیا اور کہنے لگا ۔ سفیر صاحب ! آپ کس چکر میں پڑ گئے آپ سیاسی فیلڈ سے آئے ہیں دو تین سال آپ کی سفارت ہے آرام کریں یہاں تو 28 سال سے کوئی تجارت نہیں ہوئی۔ اس نے مزید کہا کہ جب آپ سے پہلے کے سفیروں سے تجارت کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا گیا تو آپ سے کون پو چھے گا۔ مختصرا یہ کہ کونسلر کی رائے میں تجارت کے بارے میں یہاں کچھ سوچنا اور اس کے لئے تگ و دو کرنا بالکل بے فائدہ تھا ۔ ( افریقہ میں پاکستانی مصنف افتخار علی شیخ ص 100پبلشر جنگ پبلشرز ز جولائی 1992)۔
چائینہ ، انڈیا اور اب بنگلہ دیش جیسے ملک افریقی منڈیوں پر چھائے جارہے ہیں جبکہ ہمیں سینیگال اور نائیجیریا جیسے اسلامی ممالک نے بھی کیٹیگری سی میں ڈال کر ویزہ دینا بند کر دیا ہے ۔اگر ہم نے اپنے ترقی معکوس کے سفر کو روکنا ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہو گا ۔ کھلی آنکھوں کے ساتھ حقائق کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا ۔پوری دنیا م کی طرح افریقہ میں بھی پھیلے پاکستانی پاکستان کے لئَے بہت کچھ کرنے کے لئے بے تاب ہیں مگر صرف اور صرف ہماری حکومت اور ان کے ارباب حل وعقد کو جاگنا ہوگا۔
♠
One Comment