مسئلہ فلسطین ایک بار پھرسرِ فہرست ہے۔ اس بار یوں کہ امریکی صدر ٹرمپؔ نے یروشلم کو اسرایئل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سو ایک بار پھر کچھ مسلمانوں میں ہاہا کار مچی ہے۔ کچھ امریکہ کو گالیاں دے رہے ہیں ۔کچھ سکتہ میں ہیں۔ جہاں تک مسلم ممالک کی اکثریت کا تعلق ہے ، وہ ہمیشہ کی طرح آپس کی رنجشوں، منافقتوں، اور دوغلے رویوں کا شکار ہیں۔ سو اس بار بھی ان کی یہ خامیاں ان کے آڑے آ رہی ہیں۔ مصر کی اسرایئل سے دوستی ہے۔ سعودی عرب پسِ پردہ اسرایئل سے تعلقات بنانے کا خواہاں ہے، اور شیعہ سنی اور دوسری فرقہ پرستیوں کے نتیجہ میں ایران دشمنی اور یمن میں مسلم کشی میں مصروف ہے۔
امریکہ اور امریکی صدر یہ سب جانتے ہیں ، اور مسلم ممالک کے نفاق کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ لوگ لاکھ امریکہ کو کوستے رہیں ، امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے جو اس طاقت کو سیاسی ، فوجی، اور تجارتی امور میں میں اپنے مفاد اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
یہ سب کچھ نیا تو نہیں ہے۔ اب سے پہلے ایک اہم لیکن اب ایک حد تک بھوُلے بسرے شاعر ابنِ انشاؔ نے جو لکھا تھا وہ آپ ایک بار پھر دل تھام کر سُن لیں۔ انشائ ؔ جی نے اب سے ٹھیک پچاس سال پہلے عرب اسرایئل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد (ہم نے مسلمانوں کی شکست نہیں لکھا)، ۔۔ ’دیوارِ گریہ ‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔
دیوارِ گریہ یروشلم میں بیت المقدس کی وہ دیوار ہے جہاں یہودی عبادت کے لیئے جاتے ہیں اور اپنے اولین معبد میں عبادت نہ کرپانے کے سبب خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں۔ انشاجی نے دیوار ِ گریہ کا استعارہ یوں استعمال کیا کہ اب فلسطینیوں ، عربوں، اور مسلمانوں کو اپنے اعمال کے سبب گریہ زاری پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ نظم طویل ہے لیکن ضروری ہے کہ آپ اسے یاد کریں۔ ہم اسے جگہ کی تنگی کے سبب نثری سطور میں پیش کرتے ہیں۔
دیوارِ گریہ: ابنِ انشاؔ؛(اقتباسات)، ایک دیوارِ گریہ بناؤ کہیں۔۔یا وہ دیوارِ گریہ ہی لاؤ کہیں۔۔اب جو اس پار بیت المقدّس میں ہے۔۔ تاکہ اس سے لپٹ۔ اردن ومصر کے، شام کے۔۔ ان شہیدوں کو یکبار روئیں۔۔ ان کے زخموں کو اشکوں سے دھو ئیں۔ وہ جو غزہ میں لڑ کر ۔ وہ جو سینائی کے دشت میں بے اماں۔۔ وحشی دشمن کی توپوں کا ایندھن بنے۔ نعرہ تکبیر کا اپنے لب پہ لیے ۔ کلمئہ طیبّہ کو وظیفہ کیئے۔۔۔۔ـ‘‘
’’وہ یہودی کہ مغضوب و مقہور ہو کر۔۔۔اتنی صدیوں سے آوارہ و بے وطن تھا۔۔۔ رونے آتا تھا دیوارِ گریہ کے نیچے۔۔ دھونے آتا تھا اشکوں سے دامانِ ماضی۔۔۔آج اس کی قلمرو۔۔ شہرِ حیفہ سے تاراسِ تیران ہے۔۔ اس کی افواج تیز۔۔صورتِ رست خیز، خیمہ زن بر سوئیز۔۔۔‘‘
ؔؔ’’اپنے دشمن تو ملعُون و نا خُوب ہیں۔۔ہم تو یاروں کی یاری سے محجوب ہیں۔۔۔جن سے دل کو وفا کی امیدیں بہت ۔۔جن کے وعدے بہت تھے وعیدیں بہت۔۔بیٹھے لفظوں کے راکٹ اڑایا کیئے۔۔یا بیانوں کے بم آزما یا کیئے۔۔دھمکیوں کے مزایئل اڑایا کیئے۔۔۔کوئی گِرتوں کو آیا مگر تھامنے۔۔ بیڑے یاروں کے دیکھا کیئے سامنے۔۔‘‘
’’شیخِ عالی مقام۔۔باز کچھ روز کُنجِ قفس میں رہیں۔۔شاہِ ذی احترام! تُجھ کو ناموسِ حرمت کی قسمیں رہیں۔۔‘‘
’’وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں۔۔۔ آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں۔۔ آپ کی ترک تازی ہے ارضِ یمن۔۔ آپ تسبیح و جام و مئے ارغواں۔۔۔آپ اونٹوں پہ محمل سجاتے ہوئے۔۔آپ سمجھے یہ کچھ روز کا کھیل ہے۔۔ اُن کی نظروں میں تو آپ کا تیل ہے۔۔۔آپ کی کِشت ہے آپ کی نہر ہے۔ آپ کا دشت ہے آپ کا شہر ہے۔ ‘‘
پھر انشاجی کہتے ہیں: ’’یا اخی یاخی۔ رو چکا اور کاہے کو روتا ہے تُو۔‘‘ اب یہ سوچنا ہے کہ مسئلہ کیا ہے۔ سو قصہ یوں ہے کہ ہم نے سالہا سال سے اس مسئلے کو ایک مذہبی مسئلہ بنا رکھا ہے۔ در حقیقت یہ ہے کہ یہ آج کی تاریخ کا جغرافیائی سیاسی معاملہ ہے۔ ہم جب بھی ان معاملات کو مذہبی سیاسی معاملہ بناتے ہیں ، نقصان میں رہتے ہیں، اور عقلمند اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔
جو لوگ بیت المقدس ، اسرایئل ، اور فلسطین کو اسلامی مسئلہ بناتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں ہم صحائف کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور صلعم وہاں سے جہاں بیت المقدس واقع ہے معراج جو کو تشریف لے گئے تھے، یا یہ کہ بیت المقدس کی سمت جو کہ یہووں کا اہم معبد تھا ہمارا پہلا قبلہ تھا جسے تبدیل کرکے کعبہ کی سمت اب ہمارا قبلہ ہے۔ یہیں سے وہ مذہبی مسائل شروع ہو تے ہیں جن کا شکار ہم اب تک ہیں۔
یہودی اگر ارضِ اسرایئل کو اپنا کہتے ہیں تو ان کے صحائف میں ان کی دعوے کی بنیاد ہے۔ او ر یہ بنیاد خود قرآن سے بھی مضبوط ہوتی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ(سورۃ مائدہ آیت 20)۔ ‘’ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھاکہ ’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی اس نعمت کا شکر کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی۔۔۔۔ اے برادرانِ تم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ، جو اللہ نے تمہارے لیئے لکھ دی ہے۔ پیچھے نہ ہٹو ، ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے‘‘۔
اس کے بعد قرآن میں سورہ شعرا کی آیت نمبر 59 سے پتہ چلتا ہے کہ’’ بنی اسرایئل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا‘‘۔ ان آیات کی مختلف تفاسیر سے پتہ چلتا ہے کہ جن علاقوں کا یا نعمتوں کا ان آیات میں ذکر ہے وہ دراصل موجود اسرایئل ہے۔ مولانا مودودی نے اس علاقہ کو فلسطین کہا ہے لیکن اس کی کوئی تاریخ یا صحیفائی حیثیت نہیں ہے۔ رائے کا معاملہ ہے۔
چاہے وہ اسرائیلی یہودی ہوں، فلسطینی مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، کسی بھی مذہب کے لوگ ہوں، جب جب بھی لوگ مذہبی دلیلوں کی آڑ میں چھپیں گے، یہی مسائل سامنے آتے رہیں گے۔ کُشت و خوُن ہوتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مہذب قوموں نے مذہب کو سیاست اور جغرافیہ سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیلی اور فلسطینی مسئلہ دراصل اس زمین پر رہنے والے لوگوں کا ہے اور یہ کہ کون اس زمین پر کب آباد ہوا ۔ عام فہم زبان میں مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس سر زمین پر مختلف قومیں بقائے باہمی کی بنیاد پر رہ سکتی ہیں کہ نہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرح اسرایئل بھی مذہبی بنیاد پر ایک قوم اور مالکِ زمین ہونے کادعویدار ہے۔
اگر ہم اس زمین پر جہاں اسرایئل اور فلسطین قائم ہیں امن چاہتے ہیں تو دونوں فریقین کو کئی دعووں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ چونکہ جغرافیائی سیاست میں جس کا قبضہ اس کی دھونس چلتی ہے، اس لیئے عربوں اور مسلمانوں کو اپنی تاریخی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تو نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اب امن کے لیے زیادہ دے کر کم لینے پر گزارہ کرنا پڑے گا۔اس میں ایک اہم شرط اسرایئل کے وجود کو تسلیم کرنا بھی ہے۔ عرب اور مسلمان مذہبی دلائل کی بنا پر اسرایئل کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہیں مجبوراً یہ رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ یہی اصل زمینی حقیقت ہے خواہ ہمیں پسند ہو یا نہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بھی یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
♦
2 Comments