پولیٹیکل کمیونیکیشن اورتخلیقی اطلاق

پائند خان خروٹی

روایتی اور انقلابی انسان میں اہم فرق یہ ہے کہ روایتی شخص اچھائی اور نیکی کوپندو نصیحت تک محدود رکھتا ہے اور اپنی ذات پر اس کااطلاق کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انقلابی مبارز کیلئے ا تنا کافی نہیں وہ اپنےنظریہ ومبارزہ پر خود کوڈھالنا ہوتاہے اور اس کو معاشرہ پر نافذ بھی کرنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انقلابی پہلے مزل ومنزل کا تعین کرلیتا ہے پھر اس کے حصول کیلئے مسلسل عمل میں رہتا ہے اور کسی مرحلہ پر تعطل یا تھکن کاشکار نہیں ہوتا ۔وہ اپنے نظریہ و مجادلہ کو آگے بڑھانے کیلئے ہمہ وقت معاشرہ کے محروم اورمحکوم طبقات سے ربط وتعلق میں رہتا ہے ۔ ان سے سیاسی وعلمی مکالمہ جاری رکھتا ہے ، انقلابی نظریہ کی روشنی میں ہر لمحہ اپنی منزل کو نظر میں رکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے ہر دم متحرک اور فعال رہتاہے ۔گویا اس کاہر عمل مقصد اور ڈائریکشن سے بھرپور رہتا ہے ۔ ایک انقلابی مبارز کے پرچار اور مبارزہ کامرکز ومحور تمام زرداروں اور زورداروں کو خلقی رنگ میں بدلنے میں ہے اور یہی خلق خدا سے جُڑی ہوئی حقیقی خلقی قیادت کی عظمت کاراز ہے ۔

پو لیٹیکل کمیونیکشن یا سیاسی ابلاغیات کاآغاز یونان کے فلاسفر ارسطو کے دور سے بتایا جاتا ہے ۔ اس دور میں سیاسی ابلاغیات نعرہ بازی تک محدود رہا ہے ۔یونانی مفکرین نے سیاسی ابلاغیات کو تین حصوں میں بیان کیے ہیں ۔ پہلا حصہ انسان کے ذاتی افعال سے تعلق رکھتا ہے ، دوسرا حصہ سماجی مسائل و مشکلات سے جبکہ تیسرا منصوبہ بند طور پر لوگوں کوسیاسی عمل پر آمادہ کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی ابلاغیات کے تصور میں تنوع اور و سعت آئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے ’’رائے عامہ‘‘ کی تخلیق اور ہمواری کاذریعہ سمجھاگیا۔
“The public must be put in its place, so that it my exercise its own powers, but no less and perhaps even more, so that each of us may live free of trampling and the  roar of a bewildered herd.”(1) 

اسی کے ساتھ ہی مختلف حکمرانوں کی جانب سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے اس میں پروپیگنڈہ اور افواہ کے عناصر شامل ہوگئے تو اس میں اتنی شدت آگئی کہ حقیقی اولسی رائے کا تعین کرنا مشکل ہوگیا ۔ دنیا بھر میں زیارکشوں کی انتھک کاوشوں اورقربانیوں کے نتیجے میں جمہوری اداروں اور تنقیدی شعور کو فروغ اور استحکام ملتا رہا ۔ سیاسی ابلاغیات کو ارتقاء اور ترقی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالاآخر انیس سو ستر کے عشرے میں ’’پولیٹیکل سائنس‘‘ اور’’ماس کمیونیکیشن‘‘ میں اہم شعبے کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔

بیسویں صدی کے آواخر میں میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلابی تبدیلیوں خاص کر مواصلاتی ڈھانچے میں غیر معمولی ترقی نے سیاسی ابلاغیات کونیا تناظر بخشا اور آج سیاست اور مواصلات کے شعبے میں بلکہ مجموعی سماجی اقتصادی ترقی کے عمل میں حکمرانوں اور عوام کے مابین رابطے کاموثر ترین ذریعہ سیاسی ابلاغیات کوٹھہرایا جاتا ہے ۔ سیاسی ابلاغیات زندگی کورواں رکھنے اور عوام کو جدید سیاست کے اسرار ورموز سے روشناس کرانے میں کلیدی اہمیت کاحامل ہے ۔

سیاسی ابلاغیات میں سوشل میڈیا کی اختراع نے نئی زندگی پیدا کی ہے ۔ تیزی سے مقبول ہوتے اس نئے ذریعہ اظہار نے ایک طرف مختلف اسٹیک ہولڈرز کو مربوط کرنے میں اہم کردار اد اکیا ہے تو دوسری جانب ظلم واستحصال کے ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کرنے میں بھی مؤثر کردار ادا کررہا ہے ۔ سوشل میڈیا سیاسی قیادت اور عوام کے درمیان اورخود عوام کی مختلف پر توں کے مابین رابطے نے فعال کردار ادا کررہا ہے ۔ رائے عامہ ہموار کرنے اور خاص طور پر انتخابی عمل پر سوشل میڈیا کے غیر معمولی اثرات کے نظرآتے ہیں ۔

یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کے بے جاء استعمال کی شکایت اکثر درست بھی ہوتی ہے ۔ تاہم مشاہدہ اور تجربہ کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی عمل کی بلوغت حاصل کرنے میں وقت درکار ہوتاہے اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں سوشل میڈیا کی اس کمزوری پربھی قابو پایاجاسکتا ہے انگریزی زبان کامحاورہ ہے کہ
“It takes three generations to make gentlman”
مہذب بننے کیلئے تین نسلیں درکار ہیں۔ گویاپاکستان میں موجود ہ نسل نے ہی سوشل میڈیا کاذائقہ چکھاہے ۔

ہمارے ہاں سیاست کے شعبے میں عمومی طو رپر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سیاسی اور سماجی تحریکوں میں جو ارکان جسمانی طور پر حصہ لیتے ہیں ، (چندہ اور کھالیں جمع کرتے ہیں ، چاکنگ اور اعلانات کرتے ہیں ، سیاسی افق پر ا بھرنے والے نئے پیٹی بورژ واز کی ذہنیت رکھنے والے جدید سردار وڈیرہ کے حکم کوبجا لاتے ہیں ، جھنڈیوں اور پینا فلیکس کوآویزاں کرنے کیلئے کھمبوں پر چڑھتے ہیں) وہی کارآمد شمار کیے جاتے ہیں جبکہ ذہنی کاوشیں کرنے والے حکمت وتدبر اختیار کرنے کا درس دیتے ہیں ، سیاسی پیچیدگیوں کو واضح کرنے ، موجودہ ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر نئے ذہنوں کو تشکیل دینے ، ا ستحصالی عناصر کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرنے ، اسٹڈی سرکلز کی بنیادکو مضبوط کرنے ، توہمات وخرافات سے سائنس اورفلسفہ کی جانب گامزن کرنے ، تنقیدی شعور کو فروغ دینے ، معاشی غنڈوں کوخلقی رنگ میں بدلنے کیلئے رزم وبزم کو دوام بخشنے اور فطرت کے رازوں سے پردہ ہٹانے والوں کو غیر اہم اور اکثر اوقات غیر متعلق تصور کیے جاتے ہیں ۔

آج متعدد سیاسی پار ٹیوں کے مرکز ی سیکرٹریٹ میں لائبریریوں اور ر یسرچ سینٹرکی عدم موجودگی ، موقع کی مناسبت سے نیا بیانیہ دینے کیلئے تھینک ٹینکس کافقدان اور عوام کوتازہ ترین حالات وواقعات سے خبردار رکھنے کیلئے میڈیا چینلز کی عدم دستیابی اور اپنے مؤقف کوواضح کرنے کیلئے مضبوط میڈیا ونگ کی کمی کی وجہ سے جدید سیاست کی بجائے فرسودہ روایتی سیاست نافذ العمل ہے ۔ اکثریت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید سہولتوں سے استفادہ کرنے سے بھی ناواقف ہیں۔

پوری سیاست پر مخصوص طبقہ کی اجارہ داری قائم ہے ۔ قبائلیت اور جاگیر داریت پر مبنی سوچ اور رویوں کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر نئی بات ، نیا سوال اور جائز تنقید کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ نتیجتاً فرمانبردار ، تابعدار اور خوشامد کرنے والوں کو انعام واکرام سے نوازے جاتے ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تنقیدی شعور ، طبقاتی جدوجہد اور فکری رہنمائی کرنے والوں کی شرکت وشمولیت کے بغیر نہ کوئی فکر وفلسفہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی تعمیری تبدیلی کامقصد حاصل کیاجاسکتا ہے ۔

واضح رہے کہ علم وادب کی دنیا میں بعض اہل فکر وقلم گرے ایریا ز میں غیرجانبداری کاجھنڈا بلند کرکے دونوں طرف سے بٹورنے کیلئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے بہروپیاکر داروں کو بے نقاب کرنا ہر ذی فہم انسان کا اخلاقی فریضہ ہے ۔

فکر وقلم کے ر ہنما ء اس لئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ وہ دنیا بھر کے انقلابی تجربا ت، سیاسی وسائنسی نظریات او رجدید علم و تحقیق سے شعور وبیداری حاصل کر کے اپنے معروض اور معروضی حالات میں اولسی تحریکوں کی سمت کاتعین اور متعلقہ امور کو طے کرنے میں قائد انہ کردار ادا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اہل علم ودانش کے منورین طویل تاریک راتوں میں روشنی کے سفیر کاکردار ادا کرتے ہیں ۔

سیاسی ابلاغیات اور انقلابی سیاست کے حوالے سے جدید چائنا کی بانی چیئرمین ماؤ زتنگ کی ’’ ماس لائن تھیوری ‘‘ سے نئی روشنی اخذ کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے’’ عوام سے لیکر واپس عوام تک پہنچانے‘‘ کار استہ واضح کیا ۔ مذکورہ ماس لائن تھیوری کے تین مدارج ہیں۔ سب سے پہلے عوام سے منشتر اور مسخ شدہ خیالات اکٹھا کرنا ، دوسرے نمبر پر انہیں اپنی فکر ودانش کے مطابق منظم کرنا اور آخر میں اسے پولیٹیکل لائن کی شکل دیکر عوام میں واپس لے جانے ہوتے ہیں ۔ چیئرمین ماؤ کے مطابق انقلابی نظریہ ومبارزہ محروم اور محکوم طبقات کے دیرپا مفادات کو پیش نظررکھا جانا اشد ضرورت ہے۔

“Three step process: 
1) gathering the diverse ideas of the masses; 
2) processing or concentrating these ideas from the perspective of revolutionary Marxism, in light of the long-term, ultimate interests of the masses (which the masses themselves may sometimes only dimly perceive), and in light of a scientific analysis of the objective situation; and 
3) returning these concentrated ideas to the masses in the form of a political line which will actually advance the mass struggle toward revolution”. (2)

اس حوالے سے پشتونخوا وطن میں سیاسی شعور اور بالغ نظری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے جب دوسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی ابلاغیات کو پولیٹیکل سائنس اور ماس کمیونیکیشن کے شعبوں میں مناسب جگہ دے کر اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی تو ہمارے ہاں اس وقت بھی سیاسی شعور اس سطح پر تھا کہ ایک اولسی شاعر اور گلوکار عبداللہ مقری سیاسی جلسوں اورخلقی محفلوں میں کچھ یوں نغمہ زن ہے کہ۔

’’ میں ایک خلقی مبارز(کیڈر )ہوں اور میرا کام مبارزہ ہے 
میری زندگی کامقصد اپنے نظریات کاپرچار کرنا ہے 
اگر مجھے ا پنے سر کے بالوں سے بھی لٹکا دیا جائے 
تو میری رگوں سے جوخون نکلے گا وہ بھی صرف مبارزہ کی علامت ہے ‘‘

Refereneces:
1.The Phantom public by Walter Lippman ,New Jersey,(1925) Page 145
2.Mao’s Concept of the mass-line and some mis conceptions by Chairmain Mao revolutionary frontline.wordpress (2010) 

 

One Comment