سیاسی تربیت کا کوئی مخصوص ادارہ نہیں ہوتا۔بچپن سے انسان معاشرتی تربیت کے ذریعے سیکھتارہتا ہے،اوراس کے اندر ایک سیاسی ذہن اور رجحان تشکیل پاتا ہے اور سماجی تغیرات وتجربات کے زیر اثر اس میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔سیاسی تربیت اور رجحان سازی میں خاندان کا بنیادی کردار ہوتا ہے،سکول کی تعلیم بھی اس کو واضح سمت کی نشاندہی عطاکرتی ہے۔برادری بھی تحفظ و مفادات کی سیاست کا سبق پڑھاتی ہے۔
مذہبی ادارے بھی نا قابل تغیر و ابدی صداقتوں وقدروں کے ذریعے مخصوص سیاسی ذہن تیار کرتے ہیں۔دفاتر واداروں میں بھی سیاسی ذہن بنتے و تبدیل ہوتے ہیں،بلکہ یہاں نظریات و افکار کی ترسیل کے ذریعے سیاسی ذہنوں کی زیادہ آبیاری ہوتی ہے۔ طلبا یونین میں بہترین سیاسی بصیرت کی حامل قیادتیں جنم لیتی ہیں۔حلقہء احباب اور گروہوں میں بھی سیاسی مشاورت کا عمل جاری وساری رہتا ہے۔انسان اپنے ذاتی مطالعے سے بھی اپنے اندر ایک رائے قائم کر لیتا ہے،بلکہ سیاست کے تقابلی وتنقیدی مطالعے سے اپنی اندر سیاسی دانش پیدا کر لیتا ہے۔
سیاسی جماعت کے کارکن کی سیاسی تربیت میں جماعت کامنشور اور لیڈر کی شخصیت کا اثر نمایاں ہوتا ہے،لیڈر کی کرشماتی شخصیت اور اس کے غیر سیاسی کارنامے بھی سیاسی تربیت اور عوامی ذہنی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاست میں اخلاقی جواز جتنا بلند ہو،انقلاب و اصلاحات کا عمل تیز تر ہو تو عوام کے سیاسی ذہنوں کی تربیت بھی خود بخود تیز ترہو جاتی ہے۔ سیاسی تربیت میں غیر رسمی تعلیم کا اثر بھی نمایاں ہوتا ہے،کیونکہ غیر رسمی تعلیم ایک آزادانہ ماحول میں ہوتی ہے،جس میںآزادی رائے،حق انتخاب اور اپنی رائے کو تشکیل دینے کا موقع ملتا ہے۔سوشل میڈیا اخبارات وجرائد اور ٹی وی سیاسی تعلیم وتربیت میں بھی ایک انقلابی کردار ادا کرتے ہیں۔
آجکل تو سیاسی ذہنوں کی تربیت الیکٹرانک میڈیا ہی کے ذریعے ہوتی ہے ۔سیاسی و معاشرتی تربیت میں نظریات و افکار بھی اہم کردارادا کرتے ہیں،بلکہ نظریاتی سیاست ایک معیاری سیاسی تربیت کی آماجگاہ ہوتی ہے،بغیر نظریات کے سیاست مفاداتی سیاسی گروہوں کو جنم دیتی ہے۔سیاسی ذہن کی تربیت اقداری سماج میں ہوئی ہو،تو اس میں تبدیلی کے امکانات کم ہوتے ہیں،جس میں مذہبی سیاسی جماعتیں شامل ہوتی ہیں،مگران افراد کی سیاسی تربیت میں کردار سازی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے،مگر دوسری طرف اجتماعی معاشرتی حرکت ،صنعت وحرفت اور سائنسی ترقی کاعمل سست پڑ جاتا ہے۔
اسی طرح قبائلی معاشروں میں سیاسی تربیت میں تعصب وتنگ نظری نمایاں ہوتی ہے۔لسانی اور فرقہ پرستی کی سیاست کا بھی یہی حال ہوتا ہے،جس میں انتشاری سیاست کی وجہ سے اصلی مسائل پر سے توجہ ہٹ جاتی ہے جدید سیاسی نظریات ا قدار کو اس لئے اضافی قرار دیتے ہیں کہ مختلف جگہوں اور ثقافتوں میں ان کی اہمیت و افادیت مختلف ہوتی ہے،اسی بناپر سیاست میں عملیت پسندی کا عمل سست پڑ جاتا ہے ۔ صرف اقداری اور روائیتی سیاست میں مقامی و علاقائی بونوں کو سر اٹھانے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور قومی سیاسی تربیت کی راہ کبھی ہموار نہیں ہوتی۔
جن معاشروں میں سیاسی تربیت میں محاسبے ومعقولیت کی جگہ سیاسی گروہی مفادات، نسلی ولسانی تعصبات، سیاست برائے کاروبار ،فرقہ پرستی کی سیاست، خاندانی و موروثی سیاست ،علاقائیت کی باتیں،انا وہٹ دھرمی کے رویے عام ہوں،وہاں کبھی قومی سیاست کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی،اور نہ ہی قومی یکجہتی کی فضا بن سکتی ہے،وہاں اکثر مفاداتی و انتشاری سیاست کے مظاہر دیکھنے کو ملیں گے۔کیونکہ کسی قوم کی سیاسی و سماجی ترقی کا انحصاراعلٰی سیاسی و سماجی اقدار پر قائم ہوتا ہے،جس میں عدل و انصاف،مساوات،قانون کی حکمرانی اور عوام دوستی شامل ہوتی ہے،بہترین نظام تعلیم بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوتا ہے،لیکن حکام بالا کا قانون کے تابع ہونا بنیادی شرط ہے،اور یہی سیاسی اخلاق کی بلندی ہے۔
دوسری طرف جو قومیں اخلاق و اقدار کو اضافی قرار دیتی ہیں ۔وہ اٹل اصولوںیعنی عدل وانصاف و مساوات،حسن سلوک اور عوامی خدمت کو نہ صرف اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں بلکہ ان کے نزدیک قانون کی پیروی ہی اخلاق کی فتح ہے۔جدید سیاسی ذہنوں کی تربیت روائیتی معاشروں میں نہیں ہوتی۔اور نہ ہی وہ اس عہد جدید میں کسی ازم کا شکار ہوتے ہیں۔وہ سیاسی ڈھانچے کی تشکیل سیاسی معاشیات سے کرتے ہیں۔جس میں فرد اور ریاست کی بہتری اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے،باقی ساری چیزیں اضافی ہوتی ہیں۔
جدیدیت ،جس میں روشن خیالی،عقلی توجیحات،عمل وتجربے کی علمی وعملی افادیت،عوام دوستی کا فلسفہ،فلاحی معاشرے کا قیام،صنعت و حرفت کی ترقی،وسائل کا صحیح استعمال،نئی علمی صداقتوں کا انجذاب و تصرف،تکثیری سماج کی قبولیت وغیرہ جدید سیاسی و سماجی ترقی و تربیت کے مختلف گلہائے رنگ ہیں۔اس بنا پر ترقی یافتہ اقوام کی سیاسی تربیت میں اساطیر و مذہب اور روایات اضافی سمجھے جاتے ہیں،عقیدہ و مذہب پرائیویٹ مسئلہ سمجھا جاتا ہے وجود و شعور کی اصلیت قائم رہتی ہے،باقی سب کچھ ہاتھ پا ؤں کی میل کے مترادف ہوتا ہے۔
عقائد و نظریات کو عملی سیاست میں جگہ نہیں دی جاتی ،گرچہ ہر قوم کا ایک نظریہ ہوتا ہے ۔احتیاج و عمل اور افادیت پسندی کے اصولوں پر سیاست کی عملی تعبیر پیش کی جاتی ہے۔سیاست ایک خالص خدمت خلق کا روپ دھار لیتی ہے اور کہیں اس کو عبادت کا درجہ بھی مل جاتا ہے اس سسٹم میں شخصیات اضافی ہوتی ہیں،اصول ابدی ہوتے ہیں،مگر تغیر کی گنجائش بھی قائم رہتی ہے۔جب شہریوں کی سیاسی تربیت ایک بہترین عادلانہ نظام میں ہو،تو تضادات و تناقصات خود بخود سمٹ جاتے ہیں،اور جب قابل اعتماد نظم ملک میں قائم ہوجائے تو سیاسی موضوعات ا وربحث و تکرار بھی اضافی ہو جاتے ہیں،عوام کی سیاست میں واجبی سی دلچسپی قائم رہتی ہے۔
اداروں کی آزادی وخود مختاری اور بہترین کار کردگی سے عوام میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔عوام سکون و اعتماد کی فضا میں تعمیری وتخلیقی سر گرمیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ہر شعبے میں تعمیر نو اور تشکیل نو کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔علمی ومادی ترقی روحانی بالیدگی کا سبب بنتی ہے۔عوامی ذہنوں کی سیاسی تربیت کی بنیاد علم و افادے پر قائم ہوتی ہے ۔سیاست میں ازم،ذاتی مفاد،غیر علمی قضیوں اور سیاسی بونوں کی موت واقع ہو جاتی ہے،اور یہ سارا عمل ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد کسی قوم کو حاصل ہوتا ہے ۔
یہاں حکومت شخصیات نہیں کرتیں بلکہ علم و اصول پر سوشل آرڈر متعین ہوتے ہیں۔ سیاسی تربیت اور تبدیلی کے عمل میں کسی کرشماتی لیڈر کی اکیلی شخصیت شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے افکار ونظریات کافی ہوتے ہیں بلکہ اس کے لئے ایک بے لوث اور نیک خواہشات سے معمور ایک ٹیم درکار ہوتی ہے جو ایک بہترین سیاسی تربیت کے ذریعے معیاری تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔
جدید مغربی جمہوریتوں نے ارتقائی مراحل طے کر کے یہ مقام حاصل کر لیا ہے۔ پیغمبر اسلام کا سیاسی و سماجی اور فکری انقلاب ایک بہترین اور باکردار ٹیم کا مرہون منت تھا۔ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ میں اس کی شخصیت ،ٹیم اور عوام نے شامل ہو کرسوشلزم کی راہیں ہموار کیں۔لینن کے عوامی انقلاب میں ٹراٹسکی جیسی سیاسی نابغہ روزگار شخصیات اور عوامی امنگوں کی ترجمانی موجود تھی۔
♦