ایک بندے نے کہا
’’میں نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا ہے‘‘
دوسرے نے جواب دیا:’’ میں رات کو بھوکا سوگیا تھا اور صبح بھی کچھ نہیں ملا‘‘
ان دونوں کے دکھ سکھ ایک تھے مگربالادست طبقہ نے اول الذکر سے یہ کہ کر:
’’ تمہیں اپنی اس حالت پر صابر و شاکر رہنا چاہئے‘‘
دونوں کو الگ تھلگ کردیا
یہ طبقہ حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایسے کئی نسخے بنا اور ایجاد کررکھے تھے
جب ایک ریاست میں طبقاتی تفاوت انتہاؤں کو چھونے لگتا ہے تو غریب طبقہ کا ایک پرت اپنے مصائب سے سمجھوتہ کرتا ہوا مذہب اور عبادات میں پناہ ڈھونڈنے لگتا ہے تو دوسرا منشیات اور جرائم کی جانب راغب ہوجاتا ہے اورتیسرا احتجاج اور بغاوت کی جانب قدم بڑھانے لگتا ہے پاکستان میں مذہب کی طرف رغبت،منشیات کا فروغ،زیارتوں پر جانا،زیادہ وقت دعائیں مانگنے میں گزارنا،گردے بیچنا،بچے فروخت کرنا،خودکشی اور کبھی ایک تو کبھی دوسرے سیاسی رہنماء کے پیچھے چل پڑنا اور سیاست میں تشدد کا عنصر طبقاتی تفاوت کے شدت کا اظہار ہے
تاریخ کی کتب بغاوتوں سے خالی نہیں کبھی غلام اپنے حالات میں تبدیلی لانے کے لئے بغاوت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی ایک قوم اپنی آزادی اور خود مختاری کے لئے برسرپیکار ہے اسی تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنگ عام شہری لڑتا ہے جبکہ اس سے عموماً بالادست طبقہ مستفید ہوتاہے
پاکستان کی تخلیق اس کی ایک مثال ہے1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس سوویت یونین کہلایا جانے لگا اس نئے نظام کی تپش ہندوستان میں بھی محسوس کی جانے لگی کیمونسٹ پارٹی وجود میں آگئی جواہر لال نہرو نے انگریز کے جانے کے بعدزرعی اصلاحات کا عندیہ دیامسلمان شہریوں کے سامنے ماضی کا شاندارنقشہ کھینچا گیاچنانچہ الگ ملک بنانے کے لئے جدوجہد کا آغاز ہوا
متحدہ ہند بھارت اور پاکستان بن گئے سوویت روس افغانستان میں داخل ہوا پاکستان نے جنگ میں فرنٹ سٹیٹ کا کردار ادا کیا سوویت افواج کو پسپا ہونا پڑا مگر انگریز،ہندو،روس اور کشمیر کی خاطر لڑنے والے عوام جہاں کل تھے آج بھی وہاں ہیں
قدیم ریاستوں میں طبقاتی تفاوت بڑھ جاتاشب وروز کی محنت شاقہ کے باجود محنت کش کے بچوں کا پیٹ بھرا نہیں ہوتا تھا اور شکایت کرنے لگتے تو ان کو تسلی دی جاتی کہ یہ غربت اور تکالیف تمہاری قسمت میں لکھے گئے ہیں ان پر صابر اور شاکر رہو چونکہ یہ کافی نہ تھا اس لئے بالادست طبقہ غریبوں کو کھانا کھلاتا اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتا جس سے غریب طبقہ کو ایک گونہ سکون مل جاتا
حالات مزید بدتر ہوجاتے تو مالکان تشدد پر بھی اتر آتے تھے
ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ طبقاتی تفاوت کو بغاوت کی شکل اختیار کرنے سے روکنے کے لئے حاکم وقت غریب غرباء کے لئے لنگر خانے کھول لیتے تھے تو جاگیردار اور متوسط طبقہ زکواۃ، خیرات اور صدقات کے چھڑکاؤ سے ان چنگاریوں کو سرد کرتے رہتے تھے اس ’’کارخیر‘‘ میں عام رعایا بھی کبھی کبھار حصہ لیتے رہتے تھے چنانچہ ادھر کالے بکرے کی گردن پر چھری پھرائی جارہی ہے تو ادھر بچے کو بلاؤں سے محفوظ بنانے کے لئے دیگ پکائی جارہی ہے اگر غریب کو ایک وقت کھانے کو مل جاتاہے اور دوسرے وقت ملنے کی امید ہوتی ہے تو پھر اس کے ذہن میں بغاوت کے خیالات نہیں پنپتے ہیں
ہماری دیہی آبادیوں میں کہیں شادی کے موقعہ پر دیگ پک رہی ہے تو کبھی کسی کی وفات پر آگ پر پڑی دیگیں غریب طبقہ کو یہ یقین دلاتی رہتی ہیں کہ لمحہ بھر میں پیٹ کا بندوبست ہونے والا ہے اگر کوئی کامیاب ہوتا ہے تو دیگ پکتی ہے اور کوئی حادثے میں موت کے منہ میں جاتے جاتے رہ جاتا ہے تو اس کے لئے بھی کھانا پکاکر خیرات کرنا ضروری ہوجاتا ہے حتیٰ کہ دو انسان کشتی لڑرہے ہیں ایک ہار تو دوسرا جیت جاتا ہے تو دونوں دیگ پکاتے ہیں جیتنے والا اس لئے دیگ پکاتا ہے کہ اس نے بابا سے وعدہ کیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں وہ خیرات کرئے گا اور ہارنے والا سمجھتا ہے کہ چونکہ اس نے پیر کو نذرانہ پیش نہیں کیا تھا اس لئے اسے شکست ہوئی
باغیانہ تصورات کے فرو میں زندہ یا مردہ پیروں کا بھی اہم کردار رہا کیونکہ ایک بابا یا زیارت صرف مقابلوں میں ہراتا اور جتواتا ہی نہیں تھا وہ جنرل فزیشن بھی ہوتا تھا تو نصیب جگانے کا فن بھی جانتا تھا چنانچہ کوئی بیمار ہے صحت مندی کا متمنی ہے اچھی فصل کی امید رکھتا ہے کھیت کے لئے بارش کی ضرورت محسوس کرتاہے اپنے بس یا ٹرک کو حادثات سے محفوظ بنانا چاہتا ہے نارینہ اولاد کی تمنا ہے خوبرو دوشیزہ کے دام الفت میں گرفتار شادی کرنا چاہتا ہے کسی کو امتحان میں کامیاب ہونا ہے ملازمت میں ترقی کا خواہاں ہے تو اس کے لئے محنت کرنا اتنا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا جتنا بابا کی دعا لینا اور نذرانہ دینااہم تصور کیا جاتا تھا
القصہ اس کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا ملنگ یازیارت کے پاس جملہ اختیارات ہوتے تھے بعد ازاں اس شعبہ میں مزید لوگ در آئے تھے تواس میں تخصیص ہوگئی اور اب ہر مسئلہ کے حل کے لئے اپنا پیر یا زیارت ہوتا تھاایسے ہی جیسے کہ آج کل ہر مرض کا اپنا طبیب ہے آج بھی جن دیہات میں یہ زیارت اور پیر ہیں وہاں مقامی باسی حکومت کے سامنے محکمہ انہار و آب پاشی اور محکمہ صحت کے قیام کے لئے مطالبات پیش نہیں کرتے ہیں بلکہ ان علاقوں میں کسی ڈاکٹر اور فائر بریگیڈ کی بھی قطعاً ضرورت نہیں اس لئے کہ اگر کسی کا رشتہ دار بیماری سے فوت ہوگیا یا گھر آگ سے خاکسترہو جاتا ہے تو مالک مکان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اور تقدیر میں لکھا ہواہوتا ہے
پاکستا ن میں اس کے ارباب اختیار نے بھی فرسودہ نظام کو قائم و دائم رکھنے کے لئے یہی طریقے اپنائے ہوئے ہیں ضیاء الحق نے زکواۃ کا نظام رائج کیا نواز شریف نے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھ کر محنت کشوں کے سر مزید نیچے کردئیے آصف علی زرداری نے بے نظیر سپورٹ پروگرام کا آغاز کرکے ان کے ہاتھ کاٹ دئیے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنوں نے بینکوں اور گوداموں کے سامنے طویل قطاریں لگا دی ہیں
قبائلی سے جاگیرداری اور پھر سرمایہ دارانہ نظام نے سر اٹھایا نئی تہذیب، ثقافت اور طرز رہائش پیدا ہونے لگا غریب کے پاس یہ تصورات پہنچنے لگے کہ افلاس اس کی قسمت نہیں تو اس میں حالات سے بغاوت کے جذبات رینگنے لگے انقلاب فرانس،شگاگو کے مزدوروں کی جدوجہد،چین اور روس کے انقلابات نے دنیا بھر کے محنت کش طبقہ کو سوچنے کے نئے زاویے دئیے
پاکستان کے محنت کشوں کا ان انقلابات سے متاثر ہونا قدرتی امر ہے ان کے ذہنوں میں اگر کبھی انقلاب اور خونی انقلاب کے تصورات آجاتے ہیں اور باتوں باتوں میں کہہ اٹھتے ہیں کہ یہاں بھی ایک انقلاب کا ہونا ناگزیر ہو چکا ہے تو اس کا سبب موجودہ حالات ہیں حکمران طبقات ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے اور سرپٹھول میں لگے ہوئے ہیں ادارے عضو معطل بن گئے کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے اور عام آدمی چکیوں کے ان پاٹو ں میں پستا جارہا ہے
ہمارے ہاں انقلاب کے لئے تعلیم کو شرط کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ایک ریاست میں اس کے بالادست طبقے اپنے مخصوص مفادات کے تحت درسی نصاب ترتیب دیتے ہیں البتہ یہی تعلیم محنت کش کے بچے کو لکھنا پڑھنا سکھا دیتا ہے اس کے ساتھ ہی ملک میں رائج نظام، حکومت اور بالادست طبقات کے طور طریقے، کرپشن، اداروں میں رسہ کشی، ٹریفک کا نظام، سیاست دانوں کی چپقلش، عدالتوں اور وکلاء کے داؤ پیچ،درسی نصاب پر تنقید، آئین کی باربار خلاف ورزی، نوکر شاہی کی من مانیاں،منافقت ،بحران اور ان کے حل کے جھوٹے دعووں نے ایک ناخواندہ کو بھی تعلیم یافتہ بنادیا ہے ایک شہری بار بار کے دھوکوں سے بہت کچھ سیکھ چکا اور سیکھ رہا ہے چین اور بھارت کی ترقی بھی ان کو آگے بڑھنے کے لئے چوکے لگارہی ہے
عام انسان ان سے کیسے سیکھتا ہے جب ایک شخص عدالت جاتا ہے تو اسے رفتہ رفتہ احساس ہونے لگتا ہے کہ عدالتی نظام اونچ نیچ پر استوار ہے اسی طرح اپنے بچے کو کسی ادارے میں بھرتی کرانا چاہتا ہے تو جان لیتا ہے رشوت کے بغیر کام نہیں ہوسکتا ہے غرضیکہ وہ جس ادارے میں بھی جاتا ہے اس کے گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے اعلیٰ افسر تک اس کو مایوس کرتے رہتے ہیں
یہ صورت حال اسے اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ تمام نظام کرپٹ ہے جس کے لئے ایک انقلاب کی ضرورت ہے ایک تعلیم یافتہ بے روزگار اس انداز میں سوچنے لگتا ہے مگر عام شہری اور غریب انسان کو زندگی اور موت میں فرق دکھائی نہیں دیتا تو وہ بھی اپنے حالات سے تنگ آکر چیخ اٹھتا ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
گو کہ ایک سماج میں بگاڑ سرایت کرنے لگتا ہے تو پہلے پہل اس کا اثر نچلے طبقہ پر پڑتا ہے مگر وہ اپنی ناخواندگی کے باعث کبھی اسے اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کرتا رہتا ہے تو کبھی اسے عارضی جان کر کندھے جھٹک دیتا ہے خیر حالات بد سے بد تر ہوتے جاتے ہیں تو نیم خواندہ، تعلیم یافتہ اور نسبتاً مالی لحاظ سے بہتر طبقات بھی اس حلقے میں شامل ہوجاتے ہیں رفتہ رفتہ ذمہ دار اداروں اور افراد پر تنقید شروع ہوجاتی ہے اگر ان حالات میں محنت کشوں کے پاس ایک نظریہ بھی ہو تو تعلیم یافتہ غریب نوجوان سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالکر غریبوں میں پرچار کرنے لگتے ہیں تاکہ ان کی بھی سیاسی تعلیم و تربیت ہو
فرانس، روس اور چین میں یہی ہوا تھا گو کہ فرانس کے انقلاب کی عمر چند روزہ تھی مگر اس نے محنت کش طبقات کو کچھ سکھا دیا تھا اور بالادست طبقات کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا تھا جبکہ روس اور چین میں محنت کش طبقہ کے پاس سوشلسٹ نظریہ تھا اور ان ممالک میں جدوجہد نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوئی بلکہ اس سے ملک اور غریب طبقہ کی کایا بھی پلٹ گئی
ان انقلابات میں جہاں مٹھی بھر جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات کے افراد ہلاک ہوئے وہاں لاکھوں کی تعداد میں عوام بھی لقمہ اجل بنے یہی وجہ ہے کہ بالادست طبقات ان انقلابات کو خونی انقلابات کے نام سے یاد کر تے ہیں جبکہ محنت کش ان کو سوشلسٹ انقلابات کہتے ہیں چنانچہ جب کبھی انقلاب کی بحث ہوتی ہے تو اس کے ساتھ خونی کا لفظ بھی لاحقہ کے طور پر لایا جاتا ہے غریب لوگ بھی یہی لفظ استعمال کرتے ہیں جو ان کی مایوسی اور اندرونی کیفیت اور تبدیلی کے لئے تڑپ کو ظاہر کرتی ہے البتہ یہی لفظ جب کسی آفیسر یا سیٹھ کے منہ سے ادا ہوتا ہے تو وہ محنت کشوں کو ڈراتا ہے ان سے بالواسطہ کہتا ہے کہ انقلاب کی خواہش تو رکھتے ہو مگر ہمارے ساتھ تمہاری اور تمہارے بچوں کی جان بھی جاسکتی ہے
جس بندے کی معاشی اور سماجی صورت حال نسبتاً بہتر ہوتی ہے وہ اپنے پاؤں اپنی طرف قدرے کھسکا لیتا ہے مگر جس کی حالت یہ ہو کہ صبح ہے تو شام نہیں ہے اور غربت کی چھری اس کی گردن پر ہمہ وقت پھرتی رہتی ہے گھر میں بیوں اور بچوں کی بدحالی، محلے میں ملک کا قرضہ اور دفتر میں آفیسر کی بک بک، شہر میں پولیس اور ملک میں حاکموں کا رویہ اسے نہ جینے اور نہ مرنے دیتا ہے اور کبھی وہ مرتا تو کبھی جیتا ہے تو جواب میں اس کے جسم سے ایک آواز اٹھتی ہے
’’ہاں‘ انقلاب اور خونی انقلاب‘‘
میں نے کیا کھونا ہے اگر جیت گیا تو کچھ مل جائے گا اور ہار گیا تو کیاہارنا ہے دونوں صورتوں میں نجات ہے ہزاروں برس قبل جب غلاموں نے آقاؤں کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا اور شگاگو کے محنت کشوں نے سینوں پر گولیاں کھائی تھیں تو ان کے سامنے ایک منزل تھی کچھ نے دار پر چڑھ کر نجات پائی تو کچھ لڑتے ہوئے کام آئے لیکن ان کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کا صلہ بھی بالآخر آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کی صورت میں ملا
انقلاب کا تصور ایک ہی دم ذہن میں واردنہیں ہوتا ہے پہلے پہل لوگ اپنے مسائل کا رونا روتے ہیں کبھی ایک تو کبھی دوسرے کے پاس جاتے ہیں اور جب ایک ایک کرکے ہر دروازے پر یہ لکھاپاتے ہیں کہ اس کا تالا سونے کی چابی کے بغیر نہیں کھلتا ہے تو ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے وہ ابھی کسی جدوجہد میں سنجیدگی سے حصہ نہیں لیتے ہیں کسی نجات دھندہ کی جانب نگائیں کی ہوتی ہیں یا پھر یہ آس لگائے رہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی کوئی لینن یا ماؤزے تنگ پیدا ہو تو تب ہی یہ ممکن ہے یا پھر ایک سیاسی جماعت تو کبھی دوسری میں اس خیال کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں کہ شاید یہ نجات کا ذریعہ بن جائے۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ جاگیرداراور سرمایہ دار ہمارے پاس اتنا پیسہ ہی جمع نہیں ہونے دیتا ہے کہ ہم کسی تحریک میں حصہ لیں یا اس کا حصہ بن جائیں لیکن معاشی حالات بد سے بدتر ہوجاتے ہیں تو خوش فہمیاں بھی دور ہوجاتی ہیں اور یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے کہ حالات کو کوئی اور ان کے لئے نہیں بدلے گا اسے خود ہی بدلنا ہے اس لئے انقلابی ادب پڑھنے لگتا ہے اور بالآخر خود بند وق اٹھالیتا ہے اسی وقت اسے اپنی قوت کا احساس بھی ہوجاتا ہے
یہ ضروری نہیں کہ ایک سماج میں اکثریتی طبقہ کے معاشی حالات دگرگوں ہوں تو وہ انقلاب کے راستے پر چل پڑے گا بلکہ غریب طبقا ت کے افراد ایک جگہ پر کام کرتے کرتے دوسرے ادارے میں بھی محنت کرنے لگتے ہیں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں اسی طرح اگر ایک انسان کو ایک تکلیف سے بڑی تکلیف سے ڈرایا جائے تو وہ کم تکلیف برداشت کرنے پر راضی ہوجاتا ہے لیکن بالآخر کب تک برداشت کرتا رہے گا ایک وقت آتا ہے کہ اسے اپنا عذاب دوزخ کی دہشت سے بھی بڑا دکھائی دینے لگتا ہے تو پھر وہ تبدیلی کے لئے کمرکس لیتا ہے چین و روس کے انقلابات سے پہلے جہاں آقا و مالک ان کی محنت کا کچھ معاوضہ دیتے اذیت بھی پہنچاتے تو مہربانی کی اداکاری سے بھی ان کے جذبات کو ٹھنڈے کرنے کی سعی کرتے تھے ان ممالک میں عوام کی اکثریت صدیوں سے اپنے مالکوں کی گالیاں، ذلت اور مارپیٹ برداشت کرتے رہے اور اس کا بدلہ چونکہ مالک سے نہیں لے سکتے تھے لہٰذا اپنے جگر گوشوں کو منتقل کردیتے تھے ان کو مارتے رہتے تھے اور جب نوبت اپنے بچوں کی فروخت پر پہنچ گئی لوگ اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرنے لگے اور زندگی موت کے قریب تر ہوگئی تب انقلاب کی گپ شپ عمل میں تبدیل ہوگئی
اس زمانے میں وڈیروں اور بڑے بڑے جاگیرداروں کے ذاتی جیل خانے اور عقوبت خانے بھی ہوتے تھے اور ان کے کارندے سر تابی اور بغاوت پر اپنی من مرضی کی سزائیں دیتے تھے جب کسی کو سزا دی جاتی تھی تو عام طور پر یہی تصور کیا جاتا تھا کہ وہ گناہ گار ہے یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ وہ مجرم کیسے بنا وہ کیا حالات تھے جس نے اس کو آوارہ، چور یا ڈاکو اور قاتل بنادیا ہے مگر جب عام لوگ ملک میں تبدیلی لانے کے لئے دار پر چڑھنے لگتے ہیں تو پھر عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے عام شہری کی زندگی پہلے سے بدتر ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آزادی اور حقوق کی جنگ میں کئی افراد پھانسی کا پھندا خوشی سے اپنے گلے میں ڈال لیتے تھے وہ تو پہلے بھی قربانیاں اپنا، بیوی اور بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر جاگیرداروں کو دیتے آئے تھے اور پھر یہ تو ایسی قربانی تھی جس کا صلہ اگر ان کو نہیں تو ان کے بچوں اور آئندہ نسلوں کو ملنے والا تھا بلاشبہ روس و چین کے انقلابات میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مر گئے تھے مگر ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں روس جسے بعد میں سوویت یونین کا نام دیا گیا وہاں ستر برس تک سوشلسٹ انقلاب کے ثمرات عوام کو ملتے رہے اور چین آج سپر پاور بننے جارہا ہے جبکہ پاکستان ترقی معکوس پر دل جمعی کے ساتھ عمل پیرا ہے چنانچہ جدوجہد کرتے ہوئے اس چیز کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے کہ انقلاب کا فائدہ کس کو ملے گا
انقلاب کو عام طور پر آپریشن سے تشبیہ دی جاتی ہے جس طرح ایک ڈاکٹر مریض کا آپریشن کرتا ہے تو کبھی اسے صحت مندی کی نوید مل جاتی ہے اور کبھی اس دوران مرجاتا ہے یہی حال انقلابات کا بھی ہوتا ہے ہشتنغر کسانی بغاوت اگرچہ کسی حد تک خود رو تھی لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ وہ زمین جس پر پہلے کاشتکار صرف مالک کے لئے فصل اگا سکتا تھا اب اس پر وہ گھر بھی بنا سکتا تھا
دیکھا جائے تو غریب تو ہمیشہ جنگیں لڑتا رہا ہے کبھی مذہب اور کبھی عقیدہ کے نام پر لڑتا رہا ہے اس نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی بھارت سے علیٰحدگی کی جنگ بھی لڑا ایک الگ ملک بھی بنالیایہ کل افغانستان میں سرمایہ دار دنیا کی جنگ لڑتا رہا اور آج دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے۔
ایک فریق اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ تو دوسرا اسے مذہب اورآزادی کے لئے جنگ کا نام دے رہا ہے لیکن دونوں طرف سے لڑنے والا غریب ہی ہے دونوں میں سے کوئی ایک کامیاب ہوتا ہے تو اسے حاصل حصول کچھ نہیں ہوگا یہ حقیقت بالادست طبقہ پہلے جانتا تھا اور اب غریب طبقہ کا ایک حصہ بھی جان چکا ہے اس لئے غریب کو جنگ کا حصہ بنانے کے لئے کبھی بازار میں دھماکہ ہوتا ہے کبھی جلسہ پر خودکش حملہ کیا جاتا ہے مسجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان مقامات کو اڑایا جاتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوں کیونکہ ان واقعات میں جتنے زیادہ عوام ہلاک اور زخمی ہوں گے ان کے جنگ کا حصہ بننے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
چونکہ بالادست طبقہ ہمیشہ سے اپنی جنگ کو مذہب، قوم،وطن،تہذیب اور انسانیت کے دلفریب اور خوش نما نام دیتا آیا ہے لہٰذا ایک عام شہری کے لئے یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی یا پھر پرائی جنگ لڑ رہا ہے پاکستان بناتے وقت بھی یہی کہا گیا دلفریب نعرے لگائے گئے تھے ہندؤ بنئے سے نجات کو ایسا پیش کیا گیا گویا نئے ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں ان کا شدت سے انتظار کررہی ہیں اس لئے غریب مسلمان اور غریب ہندو نے اپنی ہی نہیں اپنے بچوں کی قربانیاں بھی دیں
سچ یہ ہے کہ انقلاب کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں ایک خوش گوار تصور آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے نظریہ کے ساتھ انقلاب کی پخ لگادیتی ہے چنانچہ کوئی اسلامی انقلاب تو کوئی سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ بلند کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے لہٰذا انقلاب برپا کرتے وقت اس کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ثمرات کس کی جھولی میں گریں گے۔
♦