ڈاکٹر طاہرمنصور قاضی
یہ مضمون روس کے بالشویک انقلاب کی وجوہات اور ناکامی کی تاریخی اور سماجی جہات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ طوالت کی وجہ سے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر اسے ایک مکمل اکائی کے طور پر پڑھا جانا چاہَے۔
حصہ چہارم
بالشویک انقلاب اور پالیسی
کلچر انسان کی سوچوں اور امنگوں کا آئینہ دار ہونا چاہئے لیکن انقلاب کے بعد کی روسی معاشرت پر بات کرتے ہوئے اُس وقت کے معروضی حالات کو مادی اور ناگزیر اقتصادی مجبوریوں سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
بالشویک انقلاب کے بعد مارچ 1918 میں روس نے جرمنی سے جنگ میں شکست مان لی جس کے لئے اسے جرمنی کی سخت ترین شرائط کو بھی مجبورا” ماننا پڑا ۔ پہلے سے دگر گوں حالات میں اقتصادی صورتِ حال پر بوجھ اور زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زار کے پرا نے حمایتی سائبریا اور جنوبی علاقوں میں بالشویک انقلاب کے خلاف سر اٹھا نے لگے تھے۔
حالات کی ان مجبوریوں کی وجہ سے جب پالیسیاں طے کرنے اور لاگو کرنے کا وقت آیا تو پارٹی کے بااعتبار اراکین پر انحصار آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا۔ آئندہ آنے والے سالوں میں سیاست پر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد حقِ رائے دہی سے محروم ہو گئی۔ 1927-28 تک شہری آبادی کے قریباً 8 فیصد اور دیہی آبادی کے 3 سے 4 فیصد عوام را ئے دہی کا حق کھو چکے تھے۔
سنہ 1928 میں جب ملٹری سروس کو لازمی قرار دیا گیا تو ناقابل اعتبار لوگوں کی فہرست تیار کی گئی اور انہیں لڑنے والی فوج کے لئے لائق نہ سمجھا گیا۔ ان شہریوں کو صرف ملک کے اندر مختلف فرائض سونپے گئے اور ساتھ ہی ان پر باقاعدہ فوج کے قابل نہ ہونے کا ایک ٹیکس بھی لاگو کر دیا گیا۔ اس طرح روس میں شہریت کے دہرے معیار بننے لگے اور معاشرتی اور مادی سطح پر سویت یونین میں” کلاس” ایک نئی شکل میں سامنے آنے لگی ۔
مندرجہ بالا گفتگو سے کسی طور یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ روسی نظام نے انسانوں کو مشینی روبوٹ بنا کے رکھ دیا تھا۔ انقلاب کے بعد روس نے نہایت قلیل عرصے میں سو فیصد تعلیم کا ہدف پورا کیا۔ میڈیکل کی سہولیات ملک کے کونے کونے تک پہنچ گئیں۔ اچھی صحت کے اصولوں کو ہر ایک تک پہنچانے کی غرض سے ورزش اور سپورٹس کو ریاستی پالیسی میں اہم درجہ دیا گیا۔ نتیجتاً چند ہی سالوں کے اندر ملک میں بہترین ایتھلیٹ پیدا ہوئے یہاں تک کہ اولمپکس میں روس کے گولڈ میڈل اور دوسرے تمغہ جات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوا کرتے تھے۔
سائنس اور صنعت و حرفت میں ترقی کی بات تو سب کے سامنے ہے جسے کمزور کرنے کے لئے تمام دنیا کی سرمایہ دار طاقتوں نے مذہب اور چرچ کے ساتھ ساز باز بھی کی۔ کچھ باتوں کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، علاوہ ازیں بین لاقوامی جنگوں میں شرکت اور اسلحے کی دوڑ میں لگے رہنے سے ملک کے اندر بحران کی کیفیت پیدا ہوتی گئی جس کا انجام 1991 میں سوویٹ سوشلسٹ روس کے ٹوٹنے پر ہوا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا روس کے ٹوٹنے کے اسباب صرف پالیسیوں اور ترجیحات تک مبنی ہیں یا اس میں تاریخ عالم کے کسی بڑے اصول سے انحراف کی جھلک بھی ہے۔ تاریخ کوئی جامد نقطہ نہیں۔ یہ سماجی حرکیات کا ایک سلسلہ ہے جس کے باقاعدہ قوانین ہیں۔ مارکس نے فلسفیانہ نقطہ نظر سے واضح کیا تھا کہ وہ سماجی تبدیلی جو تاریخ عالم میں غیر طبقاتی نظام کی ضمانت ہو گی وہ تاریخ کے اقتصادی ارتقاء اور سماجی رشتوں کے ایک خاص مقام پر آ سکتی ہے۔
اس نقطے پر بحث بالشویک انقلاب سے پہلے شروع ہوئی تھی اور انقلاب کے بعد بھی جاری رہی۔ 1934 میں سٹالن نے کہا کہ: “انقلاب آ جانے کے بعد معروضی حالات کی بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔ انقلاب کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ انقلاب میں معروضی حالات کا حصہ بہت کم تھا۔ مگر انقلاب میں پارٹی کی تنظیم اور لیڈروں کی صلاحیتوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ اس بات کو کیسے سمجھا جائے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آج کے بعد کسی بھی ناکامی یا شکست کی ذمہ داری دس میں سے نو حصے ہمارے اپنے اوپر ہو گی اور صرف ایک حصہ معروضی حالات کا ہو گا“۔
یہی وہ نقطہء نظر تھا جس کی وجہ سے انقلابِ روس نے تاریخ کی بساط پر ٹھوکر کھائی۔ انقلابِ روس نے مارکس کے تاریخی جدلیات کے نظریے کو پسِ پشت ڈالا۔ جس کا نتیجہ 1991 میں سوویٹ یونین کے ٹوٹنے کی شکل میں سامنے آیا۔ مگر اس بات سے صرف نظر بھی مشکل ہے کہ انسانی تاریخ سیدھی لائن نہ کبھی ہوئی ہے اور شاید مستقبل میں بھی کبھی نہ ہو۔ بساطِ عالم پر بہت سے تجربے ہوئے ہیں اور مزید بھی ہوں گے۔
سوویٹ تجربے کی ناکامی دراصل مارکس کے جدلیاتی نظریے کی حقانیت کا ثبوت ہے۔ مارکسی جدلیات میں انقلاب عوام کے ذریعے آتا ہے کیونکہ عام انسان ” تاریخ کا غیر شعوری ہاتھ ہیں” ۔ جبکہ سٹالن نے انقلاب کو عوام کی بجائے پارٹی کے خواص کی افسر شاہی کے حوالے کر دیا۔ گفتگو کے اس مقام پر انقلاب کی قسموں پر مختصر سی وضاحت ضروری ہے۔
موجودہ تحقیقات کے مطابق انقلاب کی کئی قسمیں ہیں۔ میں صرف دو کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں: وہ انقلاب جو نیچے سے اوپر تک سماج کی شکل اور قدریں بدل کر رکھ دے اسے سماجی انقلاب کہا جاتا ہے۔ دوسرا انقلاب وہ ہے جس میں تبدیلی صرف حکومتی سطح پر ہوتی ہے اسے سیاسی انقلاب کہا جاتا ہے۔
روسی انقلاب کے تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ یہاں انقلاب سے پہلے سماجی تخریب تو حکومتی اور عوامی دونوں سطح پر ہوئی مگر سماجی تبدیلی کا وہ امکان جو انقلاب کا استعارہ تھا، معدوم ہو کر رہ گیا کیونکہ روسی انقلاب حکومتی اختیار اور عوام کے حقوق کے درمیان تفاوت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔
انقلاب کا مستقبل
روس بادشاہت کے دور سے ہی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے تھا۔ انقلاب کے بعد کے روس پہ بات کرنے کے لئے پرا نے حالات سے مقابلہ کرنے کے علاوہ یہ بھی مناسب ہو گا کہ روس کی تاریخ کو ماڈرنزم کے پیمانوں پر جانچا جائے یعنی سماجی ترقی کی پیش قدمی، معاشرے میں عقلی معیاروں کا اجراء، نیچر اور ماحولیات کی جانب نقطہ نظر اور سیکولر اقدار کو سوسائٹی کا مشترکہ ورثہ قرار دینا وغیرہ۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ روس کی تاریخ لکھنے والوں نے ابھی تک اس روش کو نہیں اپنایا۔ ابھی تک روس کی تاریخ دانی صرف “اچھے اور بُرے” کے معیار پر ہے۔ ہر چیز یا سیاہ ہے یا سفید۔ اس طرح کی تاریخ دانی کے سیاسی مقاصد تو ہو سکتے ہیں مگر سماجیات کے علم میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوتا۔
مگر روسی انقلاب کی تاریخ ابھی نامکمل ہے۔ اور یہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک روس کے شہریوں کا انسان ہونے کے ناطے مطالعہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ اگر صرف مغربی اخباروں یا رسالوں کے مضامین سے تاریخ مرتب کی جائے تو یہی سامنے آتا ہے کہ سوویٹ یونین بس برا ہی برا تھا۔ یہ سب پراپیگنڈہ اور نعرہ بازی ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ مارکس کے جدلیاتی فلسفے کو معاشرتی حقیقت میں بدلنے کا خواب ابھی تشنہء تعبیر ہے۔
مگر وہ دانشور جو سوشلسٹ روس کو صرف حاکموں کی دست درازیوں کے معیار سے ناپتے ہیں انہیں مستقبل میں تار یخ لکھتے ہوئے کچھ اور پیمانوں کی ضرورت بھی ہو گی جس میں روس اور بنی نوعِ انساں کے تابناک مستقبل کی کوئی بشارت بھی ہو۔ تاریخ کے جس مقام پر انسان آج کھڑا ہے، وہاں یہ آدرش ابھی تک ایک خواب ہے۔ لیکن ن۔م۔ راشد کی زبان میں :
” ۔۔۔ ہر ایک سے،
ہر ایک سے یہ خواب کہو
اس سے جاگ اٹھتا ہے
سویا ہوا مجذوب
مری آگ کے پاس۔
۔ختم شد۔
تیسرا حصہ
3انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔
دوسرا حصہ
انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔2
پہلا حصہ
One Comment