پنجاب کے تخت پر رنجیت سنگھ کو افغان بادشاہ “شاہ زمان” نے بیٹھایا تھا تاہم سنگھ نے بعد میں انگریزوں ہی کی مخفی مدد سے سب سے پہلے اٹک کے قلعے پر حملہ کیا تھا اور ١٨٠١ میں افغانستان سے اٹک کا علاقہ وہاں کے حکمران جہاندار شاہ کیساتھ ساز باز کرکے قبضہ کیا تھا۔ اسی طرح رنجیت سنگھ نے بعد میں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر پشاور تک ( این ڈبلیو ایف پی) کے علاقے قبضہ کئے تھے، جن کو بعد میں انگریزوں نے رنجیت سنگھ سے لیکر پنجاب میں شامل کئے تھے۔
سنہ1838میں پہلا اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان کو تخت سے ہٹا کر افغان وطن و مٹی کا واک و اختیار وطن فروش شاہ شجاع کے ہاتھ میں دیا۔
شاہ شجاع نے پشاور سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک (شمالی پشتونخوا) پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کو دیا جو بعد میں انگریز وں کے حوالے کیا گیا اور انگریز وں نے دوسرے مرحلے میں پشاور سے افغانستان پر حملہ کیا اور پھر دوسری اینگلوافغان(1878) جنگ کے نتیجے میں افغان حکمران امیر شر علی خان کو شکست دے کر وطن دشمن و قوم دشمن یقوب خان کو افغانستان کا حکمران بنایا جس نے نام نہاد استعمار ی گندامک معاہدے کے تحت افغانستان کے علاقے کوئٹہ،سبی ٗ پشین ، (جنوبی پشتونخوا)اور کرامہ،میچنئی اور خیبر(وسطی پشتونخوا)کا واک و اختیارانگریزوں کے ہاتھ میں تھما دیا اور باقی افغانستان پر انگریز کی بالادستی کو تسلیم کیا ۔
پھر جب 1879میں افغان عوام میں قومی شعور بیدار ہوا تو انہوں نے کابل میں ایک انگریز کو قتل کیا اور اس طرح اسی سال جنرل رابرٹس کے حملے کے نتیجے میں افغانوں نے میوند کے میدان میں فرنگی کو تاریخی شکست سے دوچار کیا۔۔ اس کے بعد انگریزوں نے سازش کرکے امیر عبدالرحمن کو افغانستان کا حکمران بنایا گیا۔جس نے 1893ء کو تیسری اور اخری ڈیورنڈ کے استعماری معاہدے کے تحت افغانستان کے مزید علاقے ژوب ،بورائی (لورالائی)اور وزیرستان ،سوات ،چترال و باجوڑ (وسطیٰ پشتونخوا)کے علاقوں پر انگریز کی بالادستی تسلیم کی ۔
اس طرح 1801سے لے کر 1893تک انگریز نے چترل سے بولان تک افغان وطن پر قبضہ کیا اوران کے افغانی شناخت کی پہچان ،ثقافت و جغرافیہ کو مسخ کرنے کیلئے ان علاقوں کو شمال مغربی سرحدی صوبہ، (پشتون قبائل) فاٹا اور برٹش بلوچستان جیسے غیر حقیقی اور پشتون دشمن نام رکھے ۔
انگریزوں نے چترال سے لیکر بولان تک اور فاٹا کے یہ تمام علاقے اپنی فارورڈ پالیسی کے ذریعے افغانستان سے علیحدہ کیں ان مقبوضہ علاقوں کو نہ صرف یہ کہ تین علیحدہ انتظامی یونٹ میں منقسم رکھا بلکہ ان علاقوں کی افغانی شناخت ،جغرافیہ و تاریخ وثقافت مٹانے کے لئے انکو این ڈبلیو ایف پی ، پشتون قبائلی علاقاجات اور برٹش بلوچستان جیسے غیر فطری ناموں سے منسوب کیا۔
یہاں پر آباد پشتونوں نے انگریزوں کے اس استعماری جبر اور پشتونوں کے خلاف مختلف قو می تحریکوں کی شکل میں آواز اٹھائی اور مختلف پشتون قوم دوست(وطن پال) تحریکیں شروع ہوئیں۔ اور اس طرح ان تحریکوں کے نتیجے میں انگریزوں کو پشتونوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ دوسری طرف ہندوستان میں دوسری قوموں کی قومی تحریکیں بھی انگریزوں کے خلاف شروع ہو چکے ہیں جن میں ہندوؤں کی سب سے بڑی تحریک کانگریس سر فہرست ہیں۔
سنہ1919 کو اپنے والد حبیب اللہ خان کی وفات کے بعد امان اللہ خان افغانستان کے امیر بن گئے اور بادشاہ بنتے ہی انھوں نے ماضی میں افغان حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیاں ہونے والے ’ گندمک معاہدہ، ڈیورنڈ لائن و دیگر معاہدے مانے سے انکار کردیا۔ اور کہا کہ آج کے بعد افغانستان ہر قسم کے بیرونی مداخلت (فارن پالیسی) کے حوالے سے آزاد ملک ہوگا۔ جس کے بعد انگریزوں نے استعماریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا۔
اسی طرح تیسری اینگلوا افغان وار کا اغاز ہوا۔۔امان اللہ خان کے اس اعلان کیساتھ ہی افغانستان کے علاوہ فاٹا، خیبر پشتونخوا اور برٹش بلوچستان سے ہزاروں پشتون قبائل نے امان اللہ خان کی آواز پر لبیک کہا اور اپنے بادشاہ کے حکم پر انگریزوں پر حملے شروع کردئے تھے۔ عبدا لصمد خان اچکزئی المعروف خان شھید نے بھی اپنے بادشاہ کے حکم پر افغانستان کی ازادی کی جنگ میں حصہ لینے کیلئے ہتھیار اٹھائے تھے۔ مگر وہ راستے ہی میں اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہوئے تھے۔۔
انگریزوں نے جب دیکھا کہ افغانستان کی آزادی اوراستقلال کو تسلیم کئے بغیر افغان اپنے موقف سے نہیں ہٹیں گے۔آخرکار برطانیہ کو افغانستان کی آزادی واستقلال کو تسلیم کرنا پڑا۔ اس طرح 8اگست 1919ء کو مستقل طور پر افغان حکومت اور برطانیہ حکومت کے درمیان راولپنڈی امن ومعاہدہ ہوا۔
انگریز افغانستان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبورہوگئے۔ تاریخ میں پہلی بار راولپنڈی میں انگریز وں اور افغانوں کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں افغانستان کی طرف سے وزیر داخلہ علی احمد خان نے انگریزوں کے لئے کئی شرائط بھی رکھے کہ برطانیہ کو افغانستان کی مکمل آزادی واستقلال کو تسلیم کرنے ہوں گے اور اس کے ساتھ وہ قبائل جو افغانستان کی طرف سے اس جنگ میں شامل تھے ان کو عام معافی دی جائے۔جن میں وزیر، مسعود ، و آفریدی قابل ذکر ہیں اور افغانستان کے مقبوضہ علاقے مثلاً وزیرستان وغیرہ کو افغانستان کے حوالے کئے جائیں“۔
اس معاہدہ کے بعد، جلد ہی سپین بولدک کے علاقے افغانستان کو دیئے گئے
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان میں مختلف قومی تحر یکوں کی جدو جہدکے سامنے برطانیہ کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اور جنگ کی وجہ سے ان کی معاشی وسیاسی حالت بھی ابتر ہو گئی تھیں اخر کار انھیں ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔لیکن اس کے ساتھ ہی انگریزوں نے اپنے استعماری سوچ کو مد نظررکھتے ہوئے ہندوستان کو تقسیم کرنے کی پالیسی اپنا ئی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کرپس مشن اور اس جیسے دوسرے استعماری حربوں کے ذریعے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔
آخر کار 14اگست 1947ء کو ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پاکستان وبھارت کے نام سے دو نئے ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔
لیکن افغانستان سے علیحدہ کئے گئے علاقوں کو اپنی تاریخی حیثیت دینے یا علیحدہ متحدہ پشتون ریاست بنانے کی بجائے انکے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ کیا گیا اور اانگریزوں کی استعماری تقسیم کو برقرار رکھا گیا۔پشتون رہنما وں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور خان عبدالصمد خان اچکزئی سمیت اکثر سیاسی اور قبائلی رہنماوں نے اس غیر فطری تقسیم پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اسے پشتون دشمن عمل قرار دے دیا گیا تھا۔
تاریخ کے آئینے میں اگر دیکھا جائے تو ڈیورنڈ لائن کے اس پار پشتونوں کے جو علاقے گندمک معائدہ، ڈیورنڈ لائن وغیرہ جیسی استعماری اور پشتون دشمن معاہدوں کے تحت افغانستان سے علیحدہ کئے گئے تھے، اُن میں فاٹا وحد علاقہ ہے جس پر نہ تو اورنگ نہ ہی فرنگ قبضہ کر سکا اور نہ کوئی اور قوت۔ اس پر قبضہ کرنے کیلئے پہلے طالبان استعمال کئے گئے اور اب سلیم صافی و دیگر حضرات سے فاٹا پر مکمل قبضہ کرنے کی سازشییں جاری ہیں۔
سلیم صافی بظاہر تو ایک صحافی ہے لیکن فاٹا کے کیس میں نا صرف وہ جیو ٹی وی کے پروگرام کو بطور پروپیگنڈہ استعمال کر تاآرہا ہے بلکہ وہ اسلام آباد و پشتونخواں کی یونیورسٹیوں میں جماعت اسلامی، ائی ایس ایف و پی ایس ایف کے زیر اہتمام پروگراموں میں بطور چیف گیسٹ بلایا جاتا ہیں جہاں وہ فاٹا کے مسائل کی بجائے ہر دلعزیز وطن دوست قومی رہنما محمود خان اچکزئی کے خلاف زہر زیادہ اگلتا رہتا ہے۔ سلیم صافی اگرچہ طلبہ کے جوابات دینے سے قاصر رہتا ہے البتہ وہ فاٹا کے مدغم کو آسان اور بہترین حل کے طور پر پروپیگیڈ کرتا رہتا ہے۔
ضروری ہے کہ طلبہ اور فاٹا کے لوگوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ سلیم صافی کی صحافت کس کے کہنے پر چل رہی ہے ۔ انہیں بتانا چاہیے کہ فاٹامیں دنیا جہاں کے بدمعاش کون لایا، فاٹا میں ٹی ٹی پی کس کی پیداوار ہے۔۔؟ احسان اللہ احسان کے انٹرویو کی اجازت صافی کو کس نے دی، اور احسان کہاں پر ہے۔۔۔ پشتونوں کے دشمن، اسلام کے دشمن مُلا عمر، ملا فیض اللہ وغیر ہ پر سب سے زیادہ آرٹیکل لکھنے والا سلیم صافی ہی ہے۔
سلیم صافی کو کچھ مخفی قوتوں کی طرف سے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ اگر وہ فاٹا کو پاکستان میں مدغم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو صافی کو انعام کے طور پر صوبے کا گورنر بنا دیا جائے گا۔صافی آ زا دقبائل کو غلام بنانے کیلئے سٹوڈنٹس کو استعمال کر رہا ہے۔۔
ٌٌ مرجر (مدغم) سے زیادہ تو کونسل کا قیام آسان ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کو ایک صدارتی آردیننس کے ذریعے کونسل کا درجہ دیا گیا تھا۔سلیم صافی کشمیر یوں اور گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے تو آزاد کونسل پسند کرتا ہے، اور اس کی حق میں کئی کالمز بھی لکھ چکا ہے جبکہ اپنے فاٹا کو غلام بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے فاٹا میں ایف س آر لاگو نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان بننے کے بعد مسلمان پاکستان نے فاٹا میں لاگو کیا تھا۔ تو ہم مرجر کی بجائے اس کالے قانون کو کیوں ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں۔
فاٹا بقول سلیم صافی صاحب کے ایشیا کا یورپ ہے لیکن وہ اس یورپ کو صوبہ پشتونخوا میں کیوں ضم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
فاٹا کا مسئلہ انتہائی احساس نوعیت کا ہے، اس کیساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ جڑا ہوا ہے جوکہ ایک انٹرنیشنل ایشو ہے، کیا سلیم صاٖحب ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتے ہیں جس کی وجہ سے پشتون تقسیم اور پسماندہ ہیں۔
فاٹا کے تمام مسائل کی دو ہی بڑی وجوہات ہیں، ایف سی ار اور آئی ایس پی ار، اگر یہ دونوں فاٹا سے ہٹا دئے جائیں، تو فاٹا میں امن اسکتا ہے۔
صافی صاحب فاٹا میں جاری پشتون دشمن ، قبائل کے قاتلوں کے حق میں تو کئی ارٹیکل لکھ چکا ہے، مگر صافی صاحب ایک خاص منصوبے کے تحت اپنے ہر سیمینا ر میں ایک فاٹا میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کی بجائے ایک مخصوص پشتون لیڈرشیف کو صرف نشانے بناتے ہیں۔ یہ منافقت کیوں۔۔۔۔؟فاٹا کے مسائل ایف سی آر یا آئی ایس پی ار کی وجہ سے ہیں ، تاریخ دیکھی جائے تو صافی صاحب نے ان دونوں کے بارے میں کبھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا ہے۔ یہ تضاد کیوں۔۔
فاٹا میں کی گئی حالیہ مردم شماری مشکوک ہے، بلکہ پاکستان کے دور میں جتنے بھی مردم شماری فاٹا میں کرائے گئے ہیں اُن سب میں فاٹا کی مردم شماری کم ظاہر کی گئی ہے، کیا مرجر کے داعی صافی صاحب نے کبھی اس پر بر لب کُشائی کی ہے۔
ٖفاٹا کو اگر مرج کیا جائے تو اس سینٹ اور قومی اسمبلی میں فاٹا کی سیٹیں بڑھیں گی یا کم ہوگی، ؟ این ایف سی ایوارڈ میں مرجر کے بعد پشتوں خوا کا حصہ زیادہ ہوگا یا نہیں۔۔؟ اور فیڈرل بجٹ میں فاٹا کے لوگوں کو زیادہ حصہ مرجر میں ملے گا یا پھر آزاد کونسل کی شکل میں زیادہ پیسے ملیں گے۔
فاٹا کو اگر کونسل بنادیا جائے تو مستقبل قریب میں فاٹا ایک آزاد ریاست کی شکل میں بھی ابھر سکتا ہے، جبکہ اگر اس کو ایک الگ صوبہ بنا دیا جائے وفاق سے دو صوبوں کے برابر فنڈز، وسائل، کوٹہ، نوکریاں ، الگ صوبائی اسمبلی کی سیٹیں، گورنر، وزیر اعلی، ترقیاتی بجٹ ملیں گے۔ قومی اسمبلی و سینٹ میں زیادہ سیٹیں ملیں گی، دو اسمبلیاں ہوں گی جو کسی بھی پشتون دشمن اور عوام دشمن بل کو آسانی سے رد کر سکتی ہیں۔
جبکہ مرجر کی صورت میں ان تمام چیزوں سے محروم ہوں گے۔ فاٹا مرجر کیلئے اس وقت وہاں کے کتنے عوامی نمائندے مرجر کا مطالبہ کر رہے ہیں، ماسوائے شہاب دین اور شاہ جی گل کے علاوہ۔کیا ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فاٹا میں مداخلت کرے۔ کیا ہماری فوج کی اس وقت فاٹا میں موجودگی آئینی و قانونی ہے۔۔؟
اصل میں یہ ایشو اس لئے کھڑا کیا گیا تاکہ لوگوں کی سوچ کو بدلا جاسکے اور وہ یہ سوال نہ پوچھیں کہ فاٹا میں یہ دہشت گرد کیوں لائے گئے۔فاٹا میں طالبان سے زیادہ عام عوام کیوں متاثر ہوئے،، فاٹا کے لوگوں کو کیوں آئی ڈی پیز بنایا گیا۔۔۔ اُن کے گھروں کو لوٹ مار کے بعد کیوں اور کس نے مسمار کئے۔۔۔؟ فاٹا کیلئے دنیا جہان سے آئے فنڈز اور پیسے کہاں خرچ ہوئے اور کس نے خرد برد کی۔۔۔فاٹا میں ۱۵۰۰ سے زائد مشران کیو ں اور کس نے سازش سے قتل کئے۔۔۔؟ اور صافی خاموش رہے۔۔
♠
One Comment