یہ ہمارے ماتھے کے لیکھ ہیں۔ یہ ہمارا مقدر ہے۔ یہ ہماری قسمت ہے۔ یہ خدا کالکھا ہے۔ ہماری مصیبتیں، ہماری آ سائشیں، ہمارے غم، ہماری خوشیاں، یہ سب ہمارے نصیب میں لکھا جا چکا ہے جسے ہم بدل نہیں سکتے۔ طبقاتی تضادات، نا انصافیاں اور نا ہمواریاں زندگی کی حقیقت ہیں۔ زمینی حقائق ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ ان کے ساتھ چلنا ہے۔ یہ وہ خیالات ہیں جو ہمارے سماج میں عام ہیں اور ہمیں روز مرہ ز کی گفتگو میں سنائی دیتے ہیں۔
یہ خیالات کسی ایک جگہ ، طبقے یا خاص مکتبہ فکر تک محدودنہیں ہیں۔ یہ ہماری مساجد سے لیکر مدارس تک، سکولوں سے جامعات تک ، کھیت و کھلیان سے پارلیمنٹ تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ یہ خیالات ہمیں مختلف جگہوں پر مختلف الفاظ میں سنائی دیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر البتہ یہ دوسری جگہوں سے زیادہ شدت سے موجود ہیں۔ خصوصا ایسی جگہوں پر جہاں ان خیالات کو مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر مقدس حثیت دے دی گئی ہے۔ ایسی جگہوں پران خیالات کی مخالفت ممنوع ،گناہ یا کفر ہے۔ اور ان خیالات کی مخالفت جان کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔
چنانچہ ہمارے ہاں تبدیلی کی بات کرنے والے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور قلم کاروں کو تبدیلی کی بات کرتے ہوئے زیادہ وقت الفاظ کے چناو پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ نیا ذخیرہ الفاظ اپنانا پڑتاہے۔ اظہار کے نئے طریقے دریافت کر نے پڑتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال کسی کی اچانک موت پر تعزیت ہے۔ تعزیت کرتے ہوئے یہ کہنا لازم ہے کہ موت کا دن اور گھڑی متعین ہے جسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ لیکن ہائے افسوس کے مرحوم عین جوانی میں چل بسے۔ اگر ہمارے ہاں ٹریفک کا نظام درست ہوتا۔ اگر مرحوم کو بر وقت ہسپتال پہنچا دیا جاتا تو یقیناًبچ جاتے۔ گویا اس کا مرنا تو طے تھا ، چونکہ ایسا لکھا جا چکا تھا، مگر یہ نوجوان بچ سکتا تھا اگرمنا سب سہولیات میسر ہوتیں۔
اگر، مگر کا یہ سلسلہ صرف موت تک ہی محدود نہیں ۔ زندگی کے ہر شعبے، ہر کام میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں تبدیلی کی بات بھی ہوتی ہے۔ گویا ہم لوگ مروجہ خیالات کو چھیڑے بغیر تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ چونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ ان خیالات کو چھیڑنے سے ہماری مقبولیت میں کمی آسکتی ہے۔ ہمارا ووٹ بینک کم ہو سکتا ہے۔ آئین سٹائین نے کہا تھا یہ دنیا ہمارے خیالات کا نتیجہ ہے اورخیالات کو بدلے بغیرزندگی میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ بد قسمتی سے ہم آئین سٹائین جیسے دانشمندوں کو کئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم نے اپنے آئین سٹائین پال رکھے ہیں وہ ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ہمارے خیالات مقدس ہیں اور جو تبدیلی ان خیالات کو بدل کر آئے گی اس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم ویسے بھی عظیم لوگ ہیں اورمزید عظمت کی ہمیں کوئی خواہش نہیں۔
ہمارے ہاں اخباری کالموں سے لیکر منبر و محراب تک روازانہ ان خیالات کی تبلیغ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود تبدیلی کی ضرورت اتنی شدید اور ناگزیر ہے کہ قدامت پسند اور رجعت پرست قوتیں بھی اسکی مزاحمت کرنے سے قاصر ہیں۔ اور لفظ تبدیلی ان کی روزمرہ کے ذخیرہ الفاظ کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ تبدیلی کا لفظ اور خیال اس قدر مقبول ہے کہ اس کے نام پر بڑی بڑی پارٹیاں معرض وجود میں آئیں ۔ ان پارٹیوں نے سماج میں اپنے حصے کی جگہ بھی گھیر لی۔ انہوں نے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی۔ لوگ ایک بڑی تعداد میں رہنماوں کی شخصیات کے اسیر بھی ہو گئے۔ مگر ابھی تک ان پارٹیوں یا ان کے رہنماؤں نے تبدیلی کے اس خیال پر نہ تو کوئی باضابطہ بحث کی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی باقاعدہ دستاویز عوام کے سامنے لائی جس میں اس تبدیلی کے خدو خال کو سامنے لیا ہو۔
گویا لوگ تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کے لیے اپنے رہنماؤں کے ساتھ ہیں۔ مگر پوچھنے پر وہ اس بات کو الفاظ میں پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ یا یہ تبدیلی آجانے کے بعد ان کی زندگیاں کیسی ہوں گی ؟ اگرچہ عموما تاریخ اپنے آپ کو نہیں دھراتی، مگر یہ صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ عوام ایک شیطانی چکر میں گرفتار ہیں۔ مختلف نعروں ، نظریات اور نئے خیالات کے نام پر عوام کو ایک ہی دائرے میں گھومایا جا رہا ہے۔
ستر برس پہلے پاکستان کی تخلیق کا خیال یا نعرہ خود تبدیلی سے جڑا تھا۔ لوگوں کی زندگیوں میں جتنی نا ہمواریاں یا نا آسودگیاں تھیں ان کا خاتمہ ان کو تشکیل پاکستان میں نظر آیا، یا ایسا ان کو دکھایا گیا۔ جو لوگ اس قافلے میں شامل ہوئے ان کی ایک بڑی تعداد کا خیال تھا کہ ان کی زندگی کے سارے دکھ درد اورمصائب پاکستان بنتے ہی ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ اس خیال میں تاریخ اور جغرافیے کی تبدیلی سے زیادہ اپنے حالات میں تبدیلی دیکھتے تھے۔
جو لوگ معاشی بدحالی یا مشکلات کا شکار تھے ان کو کئی نہ کئی یہ باور کروا دیا گیا تھا کہ ان کے تمام معاشی مصائب کا زمہ دار ہندو بنیاہے۔ وہ تمام زرخیز زمینوں، نفع بخش کاروباروں اور قیمتی جائداوں پر قابض ہے۔ اس لیے موجودہ صورت حال میں مسلمان کی غربت اور بد حالی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ جو سماجی نا انصافی کا شکار تھے انہیں بتایا گیا کہ سماجی نہ انصافی تو ہندو سماج کی دین ہے۔ ایک نئے جمہوری سماج یعنی پاکستان میں ان کو سماجی انصاف کی نوید تھی۔ ایک نئے منصفانہ سماج کے قیام کا وعدہ تھا۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے اس نئے منصفانہ سماج کے خدو خال کی کبھی وضاحت نہیں کی گئی، اور نہ ہی عوام کو وضاحت سے بتایا گیا کہ بر صغیر کا بٹوارا کیسے ان کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی لا ئے گا۔
قیام پاکستان کے لیے رہنمایانہ کرادر ادا کرنے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو اس وقت کے مروجہ سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے میں کسی بنیادی تبدیلی کا کوئی روڈ میپ پیش کرتی ہو۔ جہاں تک قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات کا تعلق تھا تو انہوں نے نئے دیش میں کسی مجوزہ سیاسی معاشی یا سماجی نظام کے حوالے سے اپنے خیالات کو کبھی دستاویزی یا کتابی شکل میں پیش نہیں کیا جس میں نظام کے حوالے سے کوئی واضح بات کی گئی ہو۔مگر ان کی تقاریر اور خطوط کی روشنی میں یہ بات بہر حال واضح تھی کہ انگریزوں کے بر صغیر سے چلے جانے کے سوال پر ان کا موقف واضح اور دو ٹوک تھا جس پرکسی قسم کی نظر ثانی یا لچک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
البتہ برصغیر کے مروجہ سیاسی اور معاشی نظام میں کوئی بڑی یا بنیادی تبدیلی ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔ اس کی ایک مثال ان کی ریاستوں اور جاگیروں کے راجہ مہارجوں سے مذاکرات اور عہدو پیمان تھا۔ انہوں نے کئی بار ریاستوں اور جاگیروں کے والیان کو بتایا کہ اگر وہ پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو حکومت پاکستان کوان کے اندرونی انتظام ا ور نظام سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ اور یہ راجے و مہارجے جیسے چاہیں اپنی ریاستوں اور جاگیروں کاموجودہ معاشی اور سیاسی نظام جوں کا توں بر قرار رکھ سکتے ہیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی ریاستوں کے بارے میں اس وقت کی پالیسی قائد اعظم کے اسی موقف کی عکاس تھی۔ گویا قیام پاکستان بنیادی طور پر انگریزوں اور ہندوواں سے آزادی کا مطالبہ تھا۔ بر صغیر کے جغرافیے میں یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جس میں کسی نئے معاشی یا سیاسی نظام کا کوئی خاکہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس قافلے میں شامل لوگوں کو پورا یقین تھا کہ یہ تبدیلی ان کے حالات زندگی کو بدل دے گی اور ان کے تمام معاشی اور سماجی مسائل ختم ہو جا ئیں گے۔
یہ عوامی توقعات تھیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے تبدیلی کے نعرے نے خودکار یا غیر ارادی طریقے سے عوام میں پیدا کر دی تھیں۔ اسی طرح کی توقعات آج کے سیاست کار تبدیلی کا کوئی واضح روڈمیپ یعنی منصوبہ دئیے بغیر تبدیلی کے نام پر عوام میں پیدا کر رہے ہیں ۔ تبدیلی کے کسی واضح روڈ میپ کی عدم موجودگی میں یہ محض چہروں کی تبدیلی ہوگی جو عوام میں گہری مایوسی کا با عث ہو گی۔
♠